• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کھاریاں کے نزدیک ڈاک بنگلہ ’’بنی ‘‘میں نظر بند ہوں ۔مچھر ،مکھیاں ،چوہے اور گیدڑ میرے ساتھی ہیں۔مجھے خوفزدہ کرنے کیلئے ہردوسرے دن میرے کمرے میں سانپ چھوڑدیا جاتا ہے ۔کوئی رشتہ دار مل نہیں سکتا ۔پنشن بند کر دی گئی ہے ۔ حیات شیر پاؤ نے میرا گھرنذرِ آتش کروا دیا ہے ۔ فو ج کی طرف سے ملی ہوئی زمین پر قبضے کی کو ششیں ہو رہی ہیں۔ بھٹو حکومت نے میرے بیٹے کو نوکری سے نکلوا دیا ہے جبکہ میرے بھائی پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنائے جا رہے ہیں ۔ مجھے دنیا کا غلیظ اور برا انسان ثابت کرنے کیلئے سرکاری اخباروں میں مسلسل میرے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ انتہائی شدید اور تڑپا دینے والی گرمی کی وجہ سے روزانہ ذہنی اور جسمانی کرب سے گزرتا ہوں ۔مگر ان تمام تکلیفوں اور مصائب کے باوجود کسی سے کوئی گلہ ،شکوہ یا شکایت نہیں ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ مجھ سے نرمی اور تمیز سے بات کی جائے‘‘۔یہ سابق صدر اور آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کی اس ’’آپ بیتی ‘‘ کا ایک ٹریلر ہے جو اُنہوں نے حمود الرحمن کمیشن کو سنائی ۔ یہ وہی یحییٰ خان ہیں کہ جنہیں گزشتہ 43سال سے گالیاں دے دے کر اب ہم تھک چکے ہیں اور یہ وہی یحییٰ خان ہیں کہ جن کی ڈھائی سالہ ’’اقتداری انٹری‘‘ہمیں اتنی پسند آئی کہ ہم نے انہیں اپنی 67سالہ فلم کا امریش پوری بنادیا۔34سال کی عمر میں بریگیڈئیر بننے والے،آرمی اسٹاف کالج کے پرنسپل اور 1965ء کی جنگ میں ہلال جرأت لینے والے یحییٰ خان میں کبھی کسی کو کوئی ایک اچھائی بھی نظر نہ آئی ۔پاکستان کے اب تک کے واحد شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروانے ،ملک کے اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود کرپشن سے دور، بینک کے قرضے سے اکلوتا گھر بنانے ، پنشن قرضوں میں ختم کردینے اور کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے پہلے چیئر مین کی حیثیت سے ایوب خان کے اسلام آباد کی بنیادیں رکھنے والے یحییٰ خان میں کبھی کسی کو ایک خوبی بھی نظر نہ آئی۔ یہ وہی یحییٰ خان ہیں کہ جو پاکستانی حکومت کی طرف سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے باوجود مرتے دم تک اسے مشرقی پاکستان کہتے رہے ، رباط کانفرنس میں تمام اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے جنہیں اپنا لیڈر چنا، جو ماؤزے تنگ کو ولایتی سگریٹ پلاتے ، جو چواین لائی کے ذاتی دوست تھے ،مراکش کے شاہ حسن،اردن کے شاہ حسین اور شاہ ایران جن سے مشورے کیا کرتے اور جنہیں امریکی صدر نکسن ’’اگلی نسل کا محسن ‘‘کہتے تھے مگر اپنی قوم نے انہیں کبھی کوئی حیثیت نہ دی ۔ یہ وہی یحییٰ خان ہیں جو اگر چاہتے تو فوج کی کمانڈ اور اپنے دورِ صدارت کو طول دے سکتے تھے اور وہ بھی اُس وقت جب سیاستدان بھی انہیں ایسا کرنے کو کہہ رہے تھے ۔ لاہور ہائیکورٹ میں دیئے گئے حلفیہ بیان میں انہوں نے بتایا کہ ’’جب ایوب خان نے اقتدار میرے حوالے کیا تو میرے سیاسی معاون بننے پر تیار ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ اگر آپ فوج کی کمانڈ اپنے پاس رکھیں اور میں سیاست سنبھالوں تو میں اور آپ مل کر 25سال تک حکومت کرسکتے ہیں‘‘۔ایک دفعہ شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ ’’انتخابات کے بعد آپ صدر بن جائیں،ہمیں آپ قبول ہوں گے ‘‘۔ ایک دن مولانا بھاشانی اپنا 90نکاتی ایجنڈا میرے حوالے کر کے بولے ’’آغا سب کچھ بھول جاؤ ، آؤ مل کر اس ملک پر حکومت کرتے ہیں ‘‘۔ مگر میں نے یہ سب پیشکشیں سختی سے مسترد کردیں ۔اپنے اسی بیان میں وہ آگے چل کر یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’جب مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر جنرل ٹکا خان نے مجیب الرحمن کو زندہ یا مردہ پکڑنے کا حکم جاری کرنا چاہا تو میں نے اُنہیں ایسا کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ مجیب الرحمن کو ہر حال میں زندہ گرفتار کریں ‘‘۔ اور پھر مغربی پاکستان میں انتخابات جیتنے کے بعد ایک روز بھٹو کہنے لگے ’’گرفتار مجیب الرحمن کو پھانسی دیدیں اور پھانسی کا حکم کسی فوجی عدالت سے لے لیں تو میں نے کہا’’ نہیں آزادانہ اور دیانتدارانہ انکوائری ہوگی‘‘۔خیر وقت بدلا ،ملک ٹوٹا اور ِادھر جنرل یحییٰ نے اقتدار بھٹو کے حوالے کیا تو اُدھر ، ایوان صدر سے نکلنے کے صرف 10دن بعد ہی انہیں جنرل عبدالحمید کے گھر سے گرفتار کروا کر اُس نظر بندی میں پھنکوادیا گیا کہ جہاں اگلے 6سال کیلئے گھر والوں کے علاوہ نہ کوئی ان سے مل سکتا تھا اور نہ وہ کسی سے بات کر سکتے تھے۔ اور دوسری طرف ان کیخلاف پروپیگنڈہ مہم اس سطح پر پہنچ گئی کہ ان کی اپنی بیٹی،بھانجی اور چند قریبی رشتہ دارخواتین کیساتھ ایک پرانی تصویر ’’ایوان صدر کی رنگینیاں ‘‘ کی نئی سرخی کے ساتھ چھاپ دی گئی۔پہلے راولپنڈی پھرایبٹ آباد اورآخر میں کھاریاں میں قیدکاٹنے اور ولی خان کیخلاف بیان دینے کے عوض رہائی کی حکومتی پیشکش رد کر دینے والے جنرل یحییٰ خان اپنی اسیری کے دوران حکومت،عدالت اور دوستوں سمیت سب کو پیغامات بھجواتے رہے کہ ’’ قیدتنہائی میں مارنے کی بجائے غداری کا مقدمہ بنا کرمیرا کیس کھلی عدالت میں چلایا جائے اورجرم ثابت ہو جائے تو مجھے سرِعام پھانسی دیدی جائے‘‘۔مگر غداری کیس بھگتتے شیخ مجیب الرحمان کو اُس کی مرضی کے وکیل اے کے بروہی تک رسائی دینے والے یحییٰ خان کی اپنی یہ خواہش تو پوری نہ ہوسکی البتہ ضیاء الحق آئے تو انہیں رہائی مل گئی اور پھر رہائی کے چند دن بعد پہلے اخباری انٹرویو کے دوران اپنے فالج زدہ جسم کے بائیں حصے کو ہلا تک نہ سکنے والے جنرل یحییٰ نے ہتھیار ڈالنے کے الزام پر بہتے آنسوؤں میں کہا ’’ اپنی اولاد کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے مشرقی پاکستان کے گورنر اے جے مالک اور فوجی کمانڈ رجنرل نیازی کو کسی موقع پر بھی ہتھیار ڈالنے کا نہیں کہا ۔ جی ایچ کیو میں موجود ریکارڈ گواہ ہے کہ میں نے آخری دنوں میں گورنر مالک اور جنرل نیازی کو یہ تحریر ی پیغام بھجوایا کہ وہ زمینی حقائق کے مطابق خود فیصلے کریں اور جنگ بندی کی کوشش کی جائے۔میں جنگ بندی کے تو حق میں تھا مگر ہتھیار ڈالنے کے نہیں‘‘ ۔آگے چل کر اُنہوں نے کہا کہ ’’سیاستدانوں کے مشورے سے ون یونٹ توڑا اور جب قائداعظم اور علامہ اقبال کے پتلے نذر ِ آتش ہونے لگے،قومی پرچم کو آگ لگائی جانے لگی اور حکومتی عمارتوں پر حملے معمول بن گئے تب سیاسی رہنماؤں کی تائید سے ہی میں نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا ‘‘۔ دوستو! باہر کہانی تو یہ مشہور تھی کہ اُنہوں نے پستول کی نوک پر ایوب خان سے اقتدار لیا مگر بقول قاضی فضل اللہ (ایوب کے وزیر داخلہ ) اقتدار لینے کے بعد ایوب سے گلے ملتے ہوئے رودینے والے اور سقوطِ ڈھاکہ سے چند دن پہلے ائیر مارشل رحیم کو فضائی حملے کا کہنے پر ’’ہمارے پاس ان حالات میں لڑنے والے طیارے بھی نہیں ہیں اور ایندھن بھی کم ہے ‘‘
کا جواب سن کر حیران رہ جانیوالے یحییٰ خان کے بارے میں اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان کے فیصلے غلط تھے یا کچھ فیصلے کرنے میں وہ دیر کرگئے،ان کی شراب وشباب کی سب داستانیں تسلیم بھی کر لی جائیں اور اگر یہ بھی درست سمجھا جائے کہ ملک توڑنے میں ان کا کردار سب سے زیادہ تھا تب بھی انہیں اپنی صفائی کا موقع ملنا چاہئے تھا اور انصاف پر مبنی عدالتی کارروائی ان کا بنیادی حق تھا ۔مگر ایسا نہ ہوسکا کیونکہ ساری رسوائیاں سمیٹنے والے یحییٰ خان کی بدقسمتی یہ تھی کہ جب اسٹیبلشمنٹ کے پھندے کیلئے ایک سر اور غم میں ڈوبی پاکستانی قوم کو’’کنکریاں ‘‘مارنے کیلئے ایک دھڑ چاہئے تھا تو اُس وقت یحییٰ خان سے موزوں اور کوئی نہ تھا اور پھرجنرل یحییٰ خان کا مقدمہ اس معاشرے میں چلا کہ جہاں اگر کوئی شیطان بھی پسند آجائے تو اُس کا سب کچھ معاف اور اگر کوئی اچھا نہ لگے تو فرشتہ صفت ہوکر بھی ہر خرابی اور ہر برائی کا وہ ہی ذمہ دار۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یحییٰ خان سرپر بٹھانے کے قابل نہیں تھے ، تو یہ بھی مان لیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ اتنے برے سلوک کے مستحق بھی نہیں تھے۔ باقی سقوطِ ڈھاکہ نہ تو ایک دن ، ایک مہینے یا ایک سال میں ہوا اور نہ یحییٰ،بھٹو،مجیب یا اندرا گاندھی کسی ایک نے اکیلے یہ سب کچھ کیا ، تقسیم کے فوراً بعد ہی چل پڑی دو دہائیوں پر مشتمل اس فلم میں سب نے اپنے اپنے اسکرپٹ کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ جاتے جاتے ایک ایسی حیرت انگیز بات بھی بتانا چاہوں گا کہ جس کے ذہن میں آنے پر ہر بار میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں، سقوطِ ڈھاکہ کے یحییٰ ،بھٹو ،مجیب اور اندرا گاندھی چاروں مرکزی کرداروں کا انجام دیکھ لیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی ، مجیب الرحمان قتل ہوئے اور کئی گھنٹے بے یارومددگار پڑی ان کی لاش پر مکھیاں بھنبھناتی رہیں ، اندرا گاندھی کو محافظوں نے ایسے مارا کہ ان کے جسم سے 36گولیاں نکلیں جبکہ یحییٰ خان 8اگست 1980ء کو جب فوت ہوئے تو وہ 27رمضان المبارک کی رات تھی۔ایک ولن کا یہ انجام تو نہیں ہو سکتا۔ کیا خیال ہے؟
تازہ ترین