• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دین اسلام میں مدرسہ کی روایت بہت قدیم ہے۔ پہلا مدرسہ مسجد نبویﷺ سے متصل وہ چبوترہ تھا، جہاں حضور جناب رسالتمآبؐ سے براہ راست فیض یاب ہونے والوں کا ہر وقت ہجوم رہتا، اور جنہیں تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلام میں تحصیل علم کی بے پناہ تاکید آئی ہے۔ علم مرد و زن ہر دو کیلئے لازم ٹھہرا۔ حصول علم کو ایک مسلسل عمل قرار دیا گیا۔ مہد سے لے کر لحد تک کی تاکید آئی اور پھر اس گوہر نایاب کی تلاش میں اگر دور دراز مقامات، حتٰی کہ چین تک بھی جانا پڑے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اس ترغیب و تاکید کا نتیجہ تھا کہ دنیائے اسلام میں درس و تدریس کے مراکز کا ایک جال سا بچھ گیا۔ جن میں دینی و دنیوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ قرآن، حدیث اور فقہ کیساتھ ساتھ طبیعات، فلکیات، فن تعمیر، سیاسیات اور زبان و ادب جیسے جدید اور عملی علوم بھی شامل نصاب تھے۔ پھر جوں جوں مسلمانوں میں علمی انحطاط آتا گیا، جدید علوم مدارس کے نصاب سے غائب ہوتے چلے گئے اور انہیں کلیتاً دینی علوم کیلئے وقف کردیا گیا۔ اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اس دوران زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور دنیا کی مکمل کایا کلپ ہوگئی۔ کوئی انسٹی ٹیوشن اگر ساکت و جامد رہا، تو وہ دینی مدارس ہیں۔ وہی صدیوں پرانا نصاب، وہی طرز تدریس، وہی معلم اور وہی متعلم، جن کے والدین انہیں دنیا میں لانے کے علاوہ کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کے روا دار نہیں۔ سو مدرسوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔
ریاست کو بھی ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کیونکہ ایک لحاظ سے وہ ریاست کا بوجھ بانٹ رہے تھے۔ اس ریاست کا، تعلیم کے شعبے میں جس کی کارکردگی کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ ایسے میں مدارس لاکھوں بچوں کو نان و نفقہ کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرتے رہے۔ نیا نیا ملک بنا تھا۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کا بھی چرچا تھا۔ سو دینی مدارس اس منظرنامہ میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ فٹ ہوگئے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہونا شروع ہوا، جب مدارس میں سیاست در آئی، پیسے کی ریل پیل ہوئی، پھر ان کے جذبہ جہاد کو مختلف محاذوں پر تزویری اثاثے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ تب انگلیاں اٹھنے لگیں کہ سب تو نہیں مگر بعض مدارس اپنے منصب سے ہٹ کر دہشت گردی میں ملوث ہوگئے ہیں۔ اس پر سرکار کو جھرجھری سی آئی اور اصلاح مدارس کا ڈول ڈالا گیا، طے پایا کہ اول ان کی رجسٹریشن کی جائے اور پھر ان کے نصاب کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ ریاست کو اپنی سرزمین پر ہونے والے معاملات سے آگہی کا پورا حق ہے۔ مگر جب کام کا آغاز ہوا، تو چالیس ہزار سے زائد مدارس میں سے صرف چار ہزار کے لگ بھگ نے حامی بھری اور باقی نے صاف انکار کردیا۔ اس پر حکومت نے کیرٹ اور اسٹک کی پالیسی اپنائی اور عندیہ دیا کہ تشدد اور دہشت میں ملوث مدارس کے خلاف کریک ڈائون ہوگا۔ رجسٹریشن کرانے والوں کو فنڈز مہیا کئے جائینگے۔ یہ پیشکش بھی رائیگاں گئی۔ حکومت نے ہدایت کی کہ مدارس غیرملکیوں کو داخلہ نہ دیں اور پہلے سے موجود طلباء کو فارغ کردیں۔ اس پر بھی شدید ردعمل آیا اور سرکار پسپا ہوگئی۔یہی حشر اصلاح نصاب کی تجویز کا بھی ہوا۔ مدارس کو کہا گیا کہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق وہ اپنے نصاب پر نظرثانی کریں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی، مطالعہ پاکستان، ریاضی، معاشیات، جنرل سائنس اور کمپیوٹر وغیرہ کو بھی شامل نصاب کریں۔ تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل معاشرہ کیلئے اجنبی نہ رہیں، بلکہ اس میں پوری طرح سے مدغم ہوجائیں۔ ان پر جدید تعلیم اور اچھی ملازمتوں کے دروازے کھلیں۔ اپنی اس سوچ کو عملی شکل میں پیش کرنے کی غرض سے حکومت نے کراچی، سکھر، اور اسلام آباد میں ان خطوط پر ماڈل مدارس کا اہتمام کیا۔ تجربہ بے حد کامیاب رہا اور ان اداروں کے فارغ التحصیل طلباء نے نہ صرف بورڈ اور یونیورسٹی کے پبلک امتحانات میں پوزیشنز لیں، مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کے ذریعے باعزت ملازمتیں بھی حاصل کیں۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت پی سی ایس کا امتحان پاس کرنے والے راولپنڈی کے ایک ایسے ہی نوجوان نے راقم کو بتایا تھا کہ مدرسے نے اس کی اردو، عربی اور اسلامیات کو تو خوب چمکادیا تھا، صرف انگریزی، مطالعہ پاکستان اور بعض دیگر مضامین کا مسئلہ تھا۔ جونہی ان کی تدریس کا بندوبست ہوگیا، تو یوں لگا کہ گویا پوری دنیا اس کے سامنے کھل پڑی ہے۔ مگر افسوس یہ روشن مثالیں بھی مدارس کو اصلاح نصاب کے لئے قائل نہ کرسکیں۔ لگتا ہے کہ مدارس نے اس مسئلہ کو معروضی انداز میں لیا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نصاب میں معمولی ترمیم و اضافہ سے دینی مدارس کو وہ قبول عامہ حاصل ہوتا کہ شاید و باید۔ کیونکہ اس دھرتی کے لوگ دینی روایت کے ساتھ پختگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اور کسی ایسے نظام تعلیم کی تلاش میں ہیں، جو ان کے بچوں کی دینی اور دنیوی ضروریات کو پورا کرتا ہو۔ روایتی نظام تعلیم دم توڑ چکا۔ سرکاری اسکول انحطاط کی آخری حدوں کو چھو چکے اور بتدریج بند ہوتے جارہے ہیں۔ گلی کوچوں میں کھلنے والے پرائیویٹ ادارے پنپ رہے ہیں، مگر تعلیم کے نام پر جہالت پھیلا رہے ہیں۔ جو برداشت کرسکتے ہیں، ہزاروں، لاکھوں کے اخراجات والے نامی گرامی اداروں کے پیچھے بائولے ہوئے جارہے ہیں۔ مگر مطمئن کوئی بھی نہیں۔ ایسے میں دینی مدارس معجزہ بپا کرسکتے ہیں۔ دینی و دنیوی علوم سے مرصع ان اداروں کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات پاکستانیت کی سچی تصویر ثابت ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ دینی مدارس کسی ایک سسٹم یا نظام کے تحت نہیں۔ ہر فرقہ کا اپنا مدرسہ ہے۔ دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی اور تشیع کے الگ الگ مدارس ہیں۔ جہاں اپنے اپنے فرقے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مگر لطف کی بات یہ کہ اکثر و بیشتر مدرسے میں داخلے کیلئے جانے والے بچے کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا۔ یہ شناخت اسے داخلہ کے بعد عطا ہوتی ہے۔ جسے بعد میں وہ پوری زندگی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور بعض اوقات اس کی محبت میں بہت آگے تک بھی چلا جاتا ہے۔ مدارس کی فنڈنگ کے حوالے سے بھی کئی سوالیہ نشانات موجود ہیں۔ الحمدللہ مخیر حضرات کی وطن عزیز میں بھی کوئی کمی نہیں، جو دینی و فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے مدارس کی فنڈنگ بیرون ملک سے بھی ہوتی رہی ہے۔
الحمدللہ پاکستان دنیا کی بہترین قوم ہیں۔ جس کے بارے میں حضرت قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ یہ دنیا کی رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر شومئی قسمت سے اس عظیم قوم کو شایان شان قیادت میسر نہیں آسکی۔ قائد نے ایک بکھرے ہجوم کو منظم قوم کی شکل دی تھی، جسے نااہل قیادت نے پھر سے منتشر ہجوم میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ دنیا چھوٹے سے چھوٹے کام کیلئے بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہے، اور ہمارے لیڈر بغیر کسی پلاننگ کے اتنا بڑا ملک چلا رہے ہیں، جو ایک جوہری طاقت بھی ہے۔ جملہ ریاستی امور کو انہوں نے تقدیر کے حوالے کر رکھا ہے۔ اور خود خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔ اب کی بار انہیں جھنجھوڑنے والا سانحہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر بیت جانے والی قیامت ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے اگلے روز دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جس ایکشن پلان کی منظوری دی ہے۔ اس میں دینی مدارس کی اصلاح کے حوالے سے بھی بعض اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر اب کی بار سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ لوہا گرم ضرور ہے، مگر چوٹ دانشمندی سے لگانا ہوگی، ورنہ نقصان شاید آپ کی سوچ سے بھی بڑھ کر ہو۔
تازہ ترین