• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے نظام انصاف میں پائی جانیوالی خامیاں اور کمزوریاں تب تک تو قابل برداشت تھیں جب تک اس سے محروم طبقات کے حقوق کا تحفظ نہیں ہورہا تھا لیکن جب ان طبقات کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ طویل تر ہوتا گیا تو بصارت والوں کو بھی ہوش آیا اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے خطرناک دہشت گردوں کو سزائیں دلوانے کیلئے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کا متفقہ فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کا پس منظر صرف یہی ہے کہ روایتی عدالتیں حتی کہ انسداد دہشت گردی کیلئے قائم کی جانیوالی عدالتیں بھی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں ناکام رہی ہیں اور 90 فیصد مقدمات میں بد ترین دہشت گردی میں ملوث ملزمان بریت حاصل کرچکے ہیں۔ وجوہات ٹھوس ثبوتوں اور شہادتوں کی عدم دستیابی ہے لیکن جس معاشرے میں سابق وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے پراسیکیوٹر سے لے کر ولی بابر جیسے صحافی کے قتل کے گواہان بھی محفوظ نہ ہوں وہاں سویلین عدالتوں کے ججز کو بھی کون تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ درندہ صفت دہشت گردوں کو سزائیں دینے کیلئے ایسے محفوظ اور طاقت ور عدالتی نظام کی ضرورت تھی جسے خصوصی عدالتوں کے قیام کی صورت میں پورا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فوجی افسران کی سربراہی میں ان مجوزہ عدالتوں کو فوجی عدالتیں کہنے پر یقینا جمہوریت پسندوں کو خوف آتا ہے لیکن عاصمہ جہانگیر نے خوب کہا ہے کہ ملٹری کورٹس کے قیام سے لیڈر شپ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ سویلین کورٹس انصاف فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں، ملٹری کورٹس کا قیام منتخب نمائندوں کے خلاف نرم بغاوت ہے،اور یہ عدالتیں عسکری قیادت کے دباؤ میں قائم کی جا رہی ہیں۔ فوجی یا خصوصی عدالتوں کے قیام کی یہ تجویز سانحہ پشاور کے بعد ہی سامنے نہیں آئی بلکہ اسی سال جولائی میں وزیر اعظم نواز شریف نے جب پہلی بار چند وفاقی وزراء کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہ کیا تھا تب عسکری قیادت نے عدالتوں سے عدم ثبوتوں اور شہادتوں کے باعث خطرناک دہشت گردوں کی رہائی پر فوجی عدالتوں کے قیام اور سزائے موت پر عمل درآمد کو بحال کرنیکا مطالبہ کیا تھا لیکن تب بھاری مینڈیٹ کے خمار میں فیصلہ سازی کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنے کی دھن سوار تھی۔ عسکری حکام نے یہ بھی آگاہ کیا تھا کہ خطرناک دہشت گرد وں کی رہائی سے دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج کی کاوشوں اور قربانیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تاہم اس وقت عسکری قیادت کو تحفظ پاکستان بل کی منظوری کا لالی پاپ دے دیا گیا تھا۔ ملک گیر اتحاد،اتفاق رائے اور ٹھوس فیصلوں کے لیے خراج میں معصوم بچوں کا خون چاہئے تھا لیکن اللہ کرے ان معصوم شہیدوں کے پاکیزہ لہو نے جو لکیر کھینچی ہے وہ کبھی مدہم نہ پڑنے پائے، سیاسی اور عسکری قیادت نے جس عزم،حوصلے اور جرات کا اظہار کیا ہے ،گاہے بہ گاہے اس کی تجدید سے وہ اس کی آبیاری کرتے رہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کیلئے کمیٹی کی سربراہی خود کرنے کا فیصلہ بھی دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قیادت کرنے کے اعلان کی طرف نہایت احسن اقدام ہے جس پر وہ بلا شبہ تحسین کے مستحق ہیں۔ اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر دلیرانہ فیصلے کرنے والے وزیر اعظم سیاسی اور عسکری مکمل ہم آہنگی کےلئے وزیر دفاع کو بھی صرف ان کی بنیادی وزارت تک محدود کر دیں اور یہ قلمدان اس لیگی رہنما کو سونپ دیں جو صرف نام کا وزیر دفاع نہ ہو بلکہ ان کے ساتھ جی ایچ کیو کا دورہ کرسکتا ہو اور ملکی سلامتی سے متعلق سول اور عسکری حکام کی انتہائی اہم میٹنگز میں بھی شرکت کرسکتا ہو تو رہے سہے گلے شکوے بھی دور ہو سکتے ہیں،یہ کہانی پھر سہی، ابھی بات کرتے ہیں اے پی سی کی جس کے فیصلے کی روشنی میں خصوصی عدالتوں کے قیام پر کام جاری ہے،آئین میں ترامیم کیلئے قانون کی کتابیں کھنگالی جا رہی ہیں اور غالب امکان ہے کہ جیسے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ کام اب مہینوں یا ہفتوں میں نہیں بلکہ د نوں میں ہو گا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس پانچ جنوری کو شیڈول ہے اسی اجلاس میں خصوصی عدالتوں کے قیام کی آئینی ترمیم پیش کر دی جائے گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح ملک کے وسیع ترمفاد میں تحریک انصاف نے احتجاجی دھرنا ختم کیا اور ملک کے بد ترین دشمنوں کے خلاف حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے وہ ان دہشت گردوں کو انکے منطقی انجام تک پہنچانے والی مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے بھی تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہو کر دہشت گردی کیخلاف غیر مشروط اتحاد کے جذبے کو قائم رکھیں۔ یہاں یہ ذکر بھی کر دوں کہ پاکستان میں فوجی عدالتوں کی تاریخ کوئی زیادہ خوش کن نہیں رہی ہے،جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کیلئے آئین میں 212 اے کو شامل کر کے ملٹری کورٹس قائم کی تھیں جبکہ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کے پہلے ادوار ہی میں آرٹیکل 212 بی کے تحت خصوصی عدالتیں بنائی گئی تھیں انکا کام بھی سنگین جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے تک محدود تھا۔اس وقت بھی یہ مخصوص مدت یعنی تین سال کیلئے بنی تھیں تاہم جن مقاصد کیلئے پاکستان میں یہ عدالتیں قائم کی گئی تھیں وہ پورے نہ ہوئے بلکہ ان کو انتقامی کارروائی کا ذریعہ بھی بنایا جا تا رہا۔ یہی وہ تحفظات اور خدشات تھے جن کا ذکر اے پی سی میں بھی سامنے آیا تھا لیکن آرمی چیف کے یہ الفاظ یقینا بہت اہم اور پوری قوم کیلئے قابل بھروسہ بھی ہیں کہ ماضی کو دفن کر دیں،اس بار سب مختلف ہے، اے پی سے سے باہر بھی خصوصی عدالتوں کے قیام پر بعض حلقے اعتراضات کر رہے ہیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ جب ان کے قیام کی بات کی جا رہی تھی عین اسی وقت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں اعلی ججز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو فعال بنانے اور مقدمات کی روزانہ سماعت کرنے جیسے فیصلے کر رہے تھے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ قومی اتحاد کیلئے جہاں سب فریقین سے مشاورت کی گئی تھی وہیں خصوصی عدالتوں کے قیام کے اس اہم ترین فیصلے سے قبل اٹارنی جنرل کے ذریعے اعلی عدالتی حکام کو بھی اعتماد میں لے لیا جاتا تاکہ مکمل یکسوئی سے اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا۔ یہاں پرحکومت کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جنوری دو ہزار بارہ میں سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی لارجر بنچ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو قتل کے مقدمے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا تھا تو ایک موقع پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دئیے تھے کہ انصاف کےتقاضے فوجی عدالتوں کے قیام سے نہیں بلکہ آئین اور قانون پر عمل درآمد کرنے سے ہی پورے ہوتے ہیں۔ان کے یہ الفاط عدالتی تاریخ کا حصہ ہیں کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے سپریم کورٹ نے شیخ لیاقت حسین کیس میں فوجی عدالتوں کے قانون کو کالعدم قرار دیا تھا اور اب بھی کوئی درخواست لے کر آ جائے تو یہ فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئیے کہ ججز تقرری کے حوالے سے پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی انیسویں آئینی ترمیم کے کچھ حصوں کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا تھا اور باقی آرٹیکلز کو دوبارہ نظر ثانی کے لئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے کی جانیوالی آئینی ترمیم سے قبل اس سے متعلق اہم فریق کو بھی اعتماد میں لیا جائے ،اگرچہ ان خصوصی عدالتوں کو بھیجے جانیوالے مقدمات کی منظوری وفاقی حکومت دیگی تاہم پھر بھی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ماضی کی طرح یہ خصوصی عدالتیں کسی کیخلاف بھی انتقامی کارروائی کیلئے استعمال نہیں کی جائیں گی۔
تازہ ترین