• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سید مشاہد حسین طویل عرصے بعد منظرِ عام پر آئے۔ 16دسمبر کے سانحۂ پشاور کے بعد وزیراعظم کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں چوہدری برادران نے خود شرکت کی زحمت نہ کی اور ’’قاف لیگ‘‘ (ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے) کی نمائندگی کے لیے سید مشاہد حسین کو بھجوادیا۔ ایک وقت تھا، چوہدری برادران( خصوصاً بڑے چوہدری صاحب ) جہاں بھی جاتے، مشاہد حسین سائے کی طرح اِن کے ساتھ ہوتے۔ میڈیا کا سامنا ہوتا تو بڑے چوہدری صاحب بطور تبرک ایک آدھ فقرہ ہی کہتے، اس کے بعد ان کی طرف سے جو کچھ کہتے، مشاہد ہی کہتے۔ 2008کے عام انتخابات کے بعد، کچھ عرصہ چوہدری برادران کو اقتدار سے محرومی کا صدمہ سہنا پڑا۔ اس دوران پنجاب کو شہباز شریف سے نجات دلانے کے لیے وہ گورنر سلمان تاثیر (مرحوم) سے رازونیاز کرتے بھی پائے گئے۔اس کارِ خیر کے لیے انہوں نے ایوانِ صدر میں جناب زرداری سے بھی ملاقات کی، فروری 2009 میں گورنر راج بھی نافذ ہوا لیکن اس دوران مسلم لیگ( ن) میں تو نقب کیا لگتی، الٹا مسلم لیگ قاف میں پچاس کے لگ بھگ ارکان پنجاب اسمبلی کا فارورڈ بلاک بن گیا۔ جن کی ’’مسلم لیگی غیرت‘‘ کو پیپلز پارٹی سے مل کر ملک کے سب سے بڑے صوبے سے شہباز شریف کی مسلم لیگی حکومت کا خاتمہ قبول نہ تھا۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اتحاد کے دِنوں میں چوہدری پرویز الٰہی قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف تھے تب مشاہد حسین پیپلزپارٹی پر تابڑ توڑ حملے کرتے، جناب زرداری کی پیپلز پارٹی کے حوالے سے اِن کا ایک فقرہ تو ضرب المثل بن گیا تھا، لُٹّوتے پُھٹّو (لُوٹو اور بھاگ لو)۔ مسلم لیگ (ن ) کے ساتھ حکومتی اتحاد ختم ہوا تو جناب زرداری نے قاف لیگ کو گلے لگا لیا۔ (محترمہ کے قتل کے بعد جسے وہ قاتل لیگ قرار دیتے رہے تھے) اب چھوٹے چوہدری صاحب، نائب وزیراعظم ہوگئے تھے۔’’لُٹّو تے پھٹو‘‘ والے مشاہد حسین بجھے بجھے سے نظر آنے لگے۔ کہا جاتا ہے، اُنہوں نے کوئی حکومتی منصب قبول کرنے سے بھی معذرت کر لی تھی۔
اگست کے انقلاب مارچ اور دھرنا مہم سے پہلے اور اِس کے دوران بھی ’’قائدِ انقلاب‘‘ سے چوہدری برادران کی ملاقاتوں میں مشاہد حسین غائب ہی رہے۔ اب وزیراعظم کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں ان کی شرکت محض رسمی نہیں، بڑی بھرپور تھی۔ میڈیا سے گفتگو میں اِن کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے جس دلیر نوازشریف کی تلاش میں تھے، اس کانفرنس میں وہ انہیں نظر آگیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر نوازشریف کے جرأت مندانہ اور دلیرانہ فیصلے کو وہ 1985کے بعد اپنے ممدوح کا تیسرا اہم ترین فیصلہ قرار دے رہے تھے۔ ان کے خیال میں پہلا سب سے بڑا فیصلہ 93میں بابائے اسٹیبلشمنٹ صدر غلام اسحاق خاں سے ٹکر لینا تھا، وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا گئے، اُنہوں نے ’’اطاعت‘‘ کی بجائے ’’مزاحمت‘‘ کی راہ اختیار کی اور ’’سرکاری لیڈر‘‘ سے ’’عوامی لیڈر‘‘ بن گئے۔ میاں صاحب کا دوسرا بڑا فیصلہ مئی 1998 میں ایٹمی دھماکوں کا تھا، جب اُنہوں نے صدر کلنٹن کی پانچ ٹیلیفون کالز سمیت عالمی دباؤ کو مسترد کردیااور اب 2014میںانہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کمان سنبھال لی ہے۔ مشاہد حسین کو یہ کہنے میں کوئی باک نہ تھا کہ نوازشریف نے تینوں بار قومی مفاد میں مزاحمت کی پالیسی اختیار کی۔ آج رائے عامہ، پاک فوج اور عالمی برادری ، سب ان کے ساتھ ہیں۔ اب ان کی سیاست اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے مستقبل کا سارا دارومدار دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کی فتح پر ہے۔
نواز، مشاہد تعلقات کی کہانی دلچسپی کے کئی پہلو رکھتی ہے۔ میاں صاحب کے پہلی وزارتِ عظمیٰ (اور اس سے قبل پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دونوں ادوار میں بھی) مشاہد ان کے سخت ترین ناقدین میں شمار ہوتے تھے۔ تب وہ اسلام آباد کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ وہ اپنے کالموں میں انہیں’’ہریسہ وزیراعظم ‘‘ لکھتے۔ صدر غلام اسحاق اور وزیراعظم نوازشریف کے درمیان کشمکش کاآغاز ہوا تو ترقی پسند مشاہد حسین نے اپنا وزن’’بابائے اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی بجائے عوام کے منتخب وزیراعظم کے پلڑے میں ڈال دیا۔ برسوں پہلے مشاہد حسین نے ایک انٹرویو میں ہمیں اس ’’قلب ِ ماہیت‘‘ کی کہانی سنائی تھی: 1993 ء میں اپنی برطرفی سے ایک ہفتہ قبل میاں صاحب سارک سمٹ میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے تو میں جرنلسٹ کے طور پر ان کے ساتھ تھا، غلام اسحاق خاں کے ساتھ کشمکش کی بات چلی تو میں نے کہا، اس میں سروائیول کے ففٹی ففٹی چانسز ہیں آپ کو فرنٹ فٹ پر کھیلنا چاہیے، ایسے میں پوری قوم آپ کے ساتھ ہوگی، میں بھی آپ کا ساتھ دوں گا۔ 17اپریل کی شب قوم سے اپنے خطاب میں نوازشریف نے ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف ایوانِ صدر میں ہونے والی سازشوں کا ذکر کیا اور اس عزم کا واشگاف اظہار بھی کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا، اسمبلی نہیں توڑوں گا، استعفے نہیں دوں گا۔ اب وزیراعظم کی برطرفی یقینی نظر آتی تھی، لیکن اس تقریر نے نوازشریف کی مقبولیت کو نکتہ ٔ عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مشاہد نے بتایا، اگلی شب کے پہلے پہر جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے، میاں صاحب کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا تھا اور برطرف وزیراعظم پریس کانفرنس سے خطاب بھی کر چکے تھے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ، اعتماد اور اطمینان تھا وہ مستقبل کی پُرکٹھن جدوجہد کے لیے تیار تھے، مشاہد نے انہیں مبارک دی اور صعوبتوں کے نئے سیاسی سفر میں ان کی رفاقت کا اعلان کردیا۔ یہاں ہمیں جاوید ہاشمی سے اپنی ایک ملاقات بھی یاد آئی، اس شب کا ذکر کرتے ہوئے ’’باغی‘‘ نے بتایاتھا، ہمارے ایک ساتھی نے کہا، ’’میاں صاحب! اب کیا ہوگا‘‘؟
’’میں کسی بھی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں۔ میرا اٹیچی کیس تیار ہے، جیل جانا پڑا، تو یہاں سے سیدھا جیل چلا جاؤں گا۔‘‘
1993 کے عام انتخابات میں محترمہ دوسری بار وزیراعظم بنیں، تو نوازشریف نے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کا منصب سنبھالا۔ یہ بدترین سیاسی کشمکش کا دور تھا، جس میں فریقین ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ نوبت بڑے میاں صاحب(مرحوم) کی گرفتاری تک پہنچ گئی تھی۔ اس پورے عرصے میں مشاہد حسین، نوازشریف کے ساتھ تھے۔ میاں صاحب کی دوسری وزارتِ عظمیٰ میں، وہ ان کے ’’پنج پیاروں ‘‘میں شمار ہوتے۔ 12اکتوبر 1999کے گرفتارشدگان میں وہ بھی شامل تھے، لیکن اس لحاظ سے خوش قسمت ٹھہرے کہ انہیں جیل کی بجائے گھر ہی میں نظر بند رکھا گیا۔ میاں صاحب جدہ اورمشاہد نظربندی سے رہائی کے بعد قاف لیگ میں چلے گئے لیکن اس پورے عرصے میں انہوں نے اپنے سابق قائد کے خلاف بدزبانی کی، نہ قاف لیگ کے ’’گاڈفادر‘‘ (جنرل مشرف) کی مدح سرائی کو ضروری سمجھا۔ میاں صاحب کے دل میں بھی مشاہد کے لیے نرم گوشہ موجود رہا۔ یومِ تکبیر کے ایک جلسے میں تو انہوں نے مشاہد کی تعریف بھی کی کہ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرنے میں مشاہد کا پرزور مشورہ بھی شامل تھا۔ اب کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں، مشاہد نے اسی دلیر نوازشریف کو پالیا ہے، جسے وہ ڈیڑھ سال سے تلاش کر رہے تھے، تو کیا اِسے واپسی کا سفر سمجھا جائے؟ 1993 کی طرح کیا وہ ایک بار پھر نوازشریف کے ساتھ آکھڑے ہوں گے؟ شانہ بشانہ، قدم بقدم…
تازہ ترین