• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو کبھی متحد نہیں رہا جب1947میں ملک تقسیم ہوا جس کیلئے کانگریسی رہنمائوں نے خود یہ کہا کہ یہ ہماری حرکات کی وجہ سے تقسیم ہوا ہے ،مسلمان رہنمائوں نے با امر مجبوری اس کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر بیرسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمان قوم نے وہ تحریک چلائی کہ انگریزوں اور کانگریسی رہنمائوں کو ماننا پڑا کہ تقسیم اب ضروری ہو گئی ہے ۔ یہ بات مختلف رہنمائوں نے جو کانگریس سے وابستہ تھے اپنی کتابوں اور اپنے بیانات میں بھی لکھی ہے ، اب ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کی صدائے باز گشت تمام دنیا میں سنی جارہی ہے انہیں تبدیلی مذہب پر مجبوراور اقتصادی طور پر بے حال کرنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں ۔ تقسیم کےوقت ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ تھی اور اب اکیس کروڑ ہے مگرانہیں قیادت نصیب نہیں ہوئی اور وہ پسماندگی اور بیکاری کا شکار ہیں اب انہیں تبدیلی مذہب پر بھی مجبور کیا جارہا ہے ہندوستانی پارلیمنٹ میں بھی یہ صدا سنائی دیتی ہے یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے ، دنیا کے اخبارات اور میڈیا اس پر لکھ رہے ہیں اس سے پہلے یہ با ت اتنی شدت سے نہیں تھی مگر جب سے بی جے پی کی نریندر مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے مسلمانوں کو ہندو بنانے انہیں کاروبار اور زندگی کے مختلف میدانوں سے محروم کرنے کی تحریک شدت پکڑ گئی ہے ۔ سیکولر حلقے اور دنیا کا میڈیا اس پر احتجاج بھی کر رہا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی ، رہ گیا پاکستان کا معاملہ ہمیں آپس کے جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں ہے ، ہم مظلوم مسلمانوں کی کیا مدد کر سکتے ہیںحالانکہ اقلیتوں کے مسئلے پر بہت سے معاہدے اعلیٰ سطحی موجود ہیں ہمیں ہر قیمت پر احتجاج کرنا چاہئے اور تبدیلی مذہب کاروبار سے محرومی ملازمتوں پر عدم تحفظ فرقہ وارانہ فسادات پر احتجاج کرنا چاہیے ، مگر شاید ہمارے رہنما اور سرکا رکو اس طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ ہندوستان اپنے امن پسند جمہوریت اور آزاد عدلیہ کا پروپیگنڈہ زور شور سے دنیا بھر میں کرتا ہے مگر وہاں سخت تعصب پر مبنی جمہوریت ہے جس کا فائدہ اکثریت اٹھاتی ہے ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے ترقی کے مواقع موجود نہیں ہیں ، اور پاکستان بننے کے بعد ہر سطح کی محرومی کے بعد ان کی تعداد اکیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے ، ان کے پاس کوئی معقول لیڈر شپ بھی نہیں ہے ، چند ایک مضبوط لیڈر ابھرے جن میں جسٹس شہاب الدین، عبدالرحمٰن اور دیگر چھوٹے چھوٹے علاقائی لیڈر شامل تھے ، مسلمانوں کی مذہبی جماعتوں کے پاس بھی لیڈر شپ نہیں ہے ، انتخابات کے موقع پر ان کے حلقوں کو اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ وہ الیکشن نہ جیت سکیں ، اب جبکہ جسٹس شہاب الدین اور دیگر مسلم رہنمائوں نے مسلم انڈیا کا نعرہ لگادیاہے تو سرکار ان کے خلاف بے چینی کا اظہار کر رہی ہے اور تبدیلی مذہب کی تحریک مرکزی سرکار اور صوبائی سرکاروں کے زور پر چلائی جارہی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ محمد عبداللہ، مولانا حسین احمد مدنی ، حافظ محمد ابراہیم، حیات اللہ انصاری جیسے لوگ بھی شدید دبائو کا شکار ہیں۔ رہا ہمارا معاملہ معاہدے ہونے کے باوجود ہماری حکومتیں اور ان کے کارندے کوئی معقول اور موثر احتجاج بھی نہیں کرتے ، کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے اور ہندوستان نے دفعہ 480بھی ختم کر دی ہے اور اپنے طور پر کشمیر میں اپنا نظام رائج کر دیا ہے ، اس پہلے جو تھوڑا بہت ’’جمہوری پردہ‘‘ تھا بھی،ہمارے ملک کے حالات دیکھتے ہوئے چونکہ یہاں ہر ’’مکتبہ فکر‘‘ کے لوگ تو موجود ہیں مگر پاکستانیوں کی تعداد ہر روز گھٹتی جارہی ہے ہماری اس صورت حال کو دیکھ کر ’’انڈین سرکار‘‘ تبدیلی مذہب میں شدت پیدا کر چکی ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے کیوں کرنا چاہئے آج تک ہمیں جمہوریت کے قیام کے علاوہ اور کوئی نظر یہ ہی نہیں سوجھتا ۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان مسلمانوں کی پناہ گاہ ہو گا مگر ہندوستان کا اکیس کروڑ مسلمان جو اپنی بقا کے لئے پاکستان کی طرف دیکھتا تھا اب مکمل طور پر ہمارے آپس کےجھگڑوں کی وجہ سے مایوس ہو چکا ہے ۔مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد اب اپنی بقایا زندگی کے راستے یہ خود تجویز کر رہا ہے ۔ بابری مسجد سمیت سینکڑوں مساجد شہید کر دی گئیں وہ لوگ جو ’’ہندی ہندو ہندوستان‘‘ کے نعرے لگا کر آگے آنا چاہتے تھے وہ اب حکومتوں کے نمائندے ہیں وہ اپنےعزائم کی تکمیل میں مسلمان آبادی کوبہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ ایک مکمل تحریک آسام سے لے کر واہگہ تک تبدیلی مذہب کی چلائی جارہی ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں سیکولر طاقتوں کو واضح طور پر شکست دی جا سکے اور الیکشن کا پلڑا اپنے حق میں جھکالیا جائے ۔ ہمارے ساتھ بھارتی سرکار نے مختلف معاہدے کئے ہوئے ہیں جن میں اقلیتوں کا معاہد ہ بھی شامل ہے مگر ہم بولتے ہی نہیں ہمارے دانشوروں ، سیاستدانوں ، مذہبی حلقوں کا کوئی احتجاج موثر دکھائی نہیں دیتا ۔ بھارت میں کروڑوں مسلمان جو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد شدید مایوسی کا شکار ہو گئے تھے پاکستان کی طرف دیکھنا بند کر دیا ہے ۔ میں محمد خان جونیجو کے دورمیں ہندوستان گیا تھا وہاں میں نے مسلمان عوام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو لوگ اپنے ملک کی حفاظت نہیں کر سکتے وہ ہماری کیا حفاظت کریں گے ، ہمیںاپنی جنگ خود ہی لڑنی ہے میں ایمانداری سے یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ہماری خارجہ پالیسی کا کوئی محور اور مرکز دکھائی نہیں دیتا کہ ان کی پالیسی کیا ہے ، کیونکہ یہاں کسی کو ان باتوں پر سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے کہ ہمیں ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے کیا کرنا چاہیے ، اب خدارا ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اس کے بعد تو ہمیں شاید کوئی دوسرا پاکستان نہ ملے، ہمارے یہاں وہ قوتیں موجود ہیں جو ہندوستان جا کر انڈین حکومت اور سیاسی جماعتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکیں کہ کیا کر رہے ہو اور ہندوستان کو مجبور کر سکیں کہ وہ تبدیلی مذہب کے اس منصوبے پر عمل نہ کرے اور جیو اور جینے دو ۔
تازہ ترین