• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں بہت سے دانشور ایسے بھی ہیں جن اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے میں اپنے مخصوص و مذموم مفادات و اغراض کے زیر اثرسوائے اپنےخیالات و مفادات کے اور کچھ نہیں پایا جاتا۔ سچائی کیا ہے اور انسانوں سے محبت کے تقاضے کیا ہیں؟ انہیں اس سے کوئی واسطہ نہیں انہوں نے تو اپنی بات کو سچا ثابت کرنا ہے۔اپنی آراء میں اختلاف کے باوجود مصنوعی یگانگت دکھانے کے لئے سارا ملبہ بیرونی قوتوں پر ڈالنے کے لئے بے چین رہنا ہے کیونکہ اگر یہ صاحب دوسرے کے خلاف منہ کھولیں گے تو اگلے روز دوسرا ان کے منہ بند کرنے کے لئے بہت سا مواد لے کر سامنے آن کھڑا ہوگا، لہٰذا باہمی یکجہتی کا بہترین محفوظ راستہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی کارستانیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ہر سانحہ اور ہر ایشو کا الزام بیرونی طاقتوں پر لگادیا جائے۔ پہلے تو’’بیرونی قوتوں‘‘ کی اصطلاح کو مبہم رکھا جائے لیکن اگروضاحت دینی پڑجائے تو حسب توفیق امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے نام تو تمام قوتوں کے سامنے طے شدہ ہیں، ظاہر ہے کہ سرکار کو بھی اس پر کوئی خاص شکایت نہیں ہوگی اور میڈیا کو تو بالکل نہیں ہوگی۔ عوام میں بھی شدت پسند رہنمائوں کی گڈی چڑھی رہے گی کہ حضرت عالمی سازشوں پر کتنی گہری نظر رکھتے ہیں اور کتنے دبنگ ہیں کہ سپر طاقتوں کو للکارتے ہوئے ذرا نہیں گھبراتے۔سانحہ پشاور سے شروع ہوجائیں داتا دربار اور رحمن باباؒ کے مزارات پر حملوں تک چلے جائیں بلکہ وطن عزیز کی مساجد، ا مام بارگاہوں، سینمائوں، مارکیٹوں اور جلسے جلوسوں پر ہونے والے خود کش حملوں اور خونریز دھماکوں تک کی تفصیلات پڑھتے ہوئے ان کے جائزوں کی رپورٹس تک ملاحظہ فرمالیں، بعض دانشوریک زبان یہ فرماتے سنائی دیں گے کہ کوئی مسلمان ایسی اندوہناک حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ بھلا کوئی کلمہ گو اپنے کلمہ گو بھائیوں کو کیسے مارسکتا ہے۔ یہ سب ہنود و یہود کی عالمی سازشیں ہیں امریکہ جیسی عالمی طاقت ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔ بادشاہو!امریکہ کی چالیں بڑی گہری ہیں آپ جیسے عام لوگ تو ان کا ادراک کر ہی نہیں سکتے امریکی تو اپنے مقاصد کی خاطر اپنے صدور کا بھی خون کروادیتے ہیں۔ آپ نائن الیون کی بات کرتے ہیں، نائن الیون تو امریکیوں نے خود کروایا تھا تاکہ مسلمانوں کے خلاف اقدامات کا جواز تراشا جاسکے۔ امریکیوں نے یہ سازش یہودیوں کے ساتھ مل کر کی تھی، آپ دیکھ لیں اس دن کوئی یہودی کام پر نہیں گیا تھا بھلا اسامہ بن لادن اور ان کی القاعدہ کے پاس ایسے وسائل کہاں تھے جو وہ اتنا بڑا اقدام اٹھاسکتے۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت اگر نائن الیون امریکیوں نےخود کروایا تھا تو اس روز آپ خوش کیوں تھے؟ تو اس پر بھی بہت سی توجیہات پیش کردی جاتی ہیں۔ ہمیں79ء کا وہ دن خوب یاد ہے جب شدت پسند نے خانہ کعبہ پر جبری قبضہ کرلیا تھا تو پورے پاکستان میں امریکہ کے خلاف ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی گئی تھی۔ گلیوں اور سڑکوں پر امریکی پرچم جلائے جارہے تھے۔ بربادی کی کوئی لعنت ایسی نہ ہوگی جو اس روز امریکیوں پر نہ ڈالی گئی ہوناچیز اس کا چشم دید گواہ ہے بلکہ شامل گناہ ہے۔کینیا اور تنزانیہ میں جب امریکی سفارتخانوں پر خونی حملے ہوئے تھے جن میں درجنوں بےگناہ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے تب کے اخباری فائل نکلوا کر ملاحظہ فرمالیں ہمارے یہی دانشور چیخ رہے تھے کہ یہ سب خود امریکہ کا اپنا کیا دھرا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کبھی ان نام نہاد’’ حضرات ‘‘ نے یہ فرمایا ہو کہ ہاں یہ ہم نے یا ہمارے لوگوں نے کیا ہے ،البتہ ان سے وہ شدت پسند بہتر ہیں جو اپنی محنت کا کریڈٹ دوسروں کو دینے سے ہمیشہ انکاری رہے ہیں اور وہ اپنے ’’اقدامات‘‘ کو اون کرنے سے کبھی شرمائے ہیں نہ پچھتائے ہیں ،بن لادن سے لے کر ملا عمر تک اور ایمن الظواہری سے لے کر عمر خراسانی تک سب نے اپنے کارناموں کو فخریہ و اعلانیہ شرف قبولیت بخشا ہے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی یہ تمامتر وارداتیں اگر امریکہ بھارت اور اسرائیل کرواتے ہیں تو لازماً ایسی وارداتیں کرنے والے دہشت گرد خواہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہو یا طالبان سے وہ یہود و ہنود کے ایجنٹ ہی ہوسکتے ہیں۔ اب جب ہمارے جیسا کوئی لکھاری اگر القاعدہ اور طالبان پر یا ان کے گماشتوں پر قلم اٹھاتا ہےتو یہی مخصوص لوگ سیخ پا کیوں ہوتے ہیں؟
تازہ ترین