• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16دسمبر کے روح فرسا واقعے نے بظاہر ایک بار پھر تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کو ایک صف میں مجتمع کردیا ہے جو گزشتہ ایک ہفتے سے سر جوڑے بیٹھے تھے اور بالآخر 20نکاتی سفارشات مرتب کرکے قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور ایک ایک دہشت گردکے قتل ہونے تک آپریشن جاری رہے گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان فیصلوں سے قوم کو آگاہ کیا جس کے کلیدی نکات یہ ہیں کہ وہ جماعتیں جن پر ریاست پاکستان نے پابندی عائد کررکھی ہے، اب وہ نام تبدیل کرکے اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ انہیں دوسرے نام سے کام کرنے کی اجازت دی کس نے؟ بالکل اسی طرح مدارس کی رجسٹریشن کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تیزی سے مقدمات نمٹانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جن کی مدت 2برس کی ہوگی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی عدالتوں کا قیام بنیادی طور پر دستورِ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ بعد ازاں اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی غرض سے انہوں نے اپنی مشروط آمادگی ظاہر کرکے ایک مستحسن اقدام کیا اور اس ڈیڈ لاک کو ختم کیا جو پیدا ہونے والا تھا۔ دستورِ پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وطن عزیز میں پارلیمانی نظام جمہوریت کو کوئی ختم نہیں کرسکے گا۔ عدالتیں اپنا کام کرنے میں آزاد ہوں گی اور اس کے متوازی کوئی ادارہ قائم نہیں ہوسکے گا۔ بالکل اسی طرح پارلیمنٹ قانون سازی کرنے میں آئین پاکستان میں درج طریقہ کار کے مطابق آزاد ہے۔ ریاست کے تین ستون عدلیہ، مقننہ اور عاملہ اپنی اپنی حدود میں کام کرنے کے پابند ہیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ اس رو سے تیزی سے سماعت کرنے والی فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم نظر آتا ہے۔ 1998ء میں بھی فوجی عدالتیں ایک آرڈیننس کے ذریعے قائم کی گئی تھیں جو ڈھائی ماہ کے عرصے میں عدالت عظمیٰ کے ذریعے غیر مؤثر قرار دے دی گئی تھیں۔ زیر نظر تجویز بھی مقننہ کے زیر غور آئے گی اور وہاں قانون سازی کے ذریعے اگر یہ عدالتیں قائم ہوتی ہیں تو سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے گی اور اگر نظریہ ضرورت کا راستہ اختیار نہ کیا گیا تو یہ عدالتیں بھی برقرار نہ رہ سکیں گی۔ ملک کے آئینی و قانونی ماہرین کی رائے میں یہ متوازی عدالتی نظام ہے جو موجودہ دستور کے صریحاً خلاف ہے۔ بالکل اسی طرح Rapid Response Force کا قیام ، نیکٹا کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی باقاعدہ فورم کے بجائے غیر رسمی طور پر فوج کے سربراہ نے سیاسی اکابرین سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کیا اور ایک محفوظ اور پر امن مستقبل کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ ہماری جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ اس دہشت گردی اور دہشت گردانہ سوچ کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ دہشت گردوں کا خاتمہ تو طاقت سے کیاجاسکتا ہے لیکن دہشت گردی کی سوچ کا خاتمہ علم کی شمع روشن کیے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جہالت کی تاریکی کو علم کی مشعل سے ہی توڑا جاسکتا ہے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جہالت کی تاریکی کو اقراء کے ذریعے چاک کیا اوردنیا کو پہلا انسانی حقوق کا چارٹر فراہم کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ مدارس جو ان تعلیمات کے پیروکاروں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرسکتے تھے، آج وہ سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ ان مدارس کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ اس امر کو ضروری بنایاجائے کہ نصابِ تعلیم ملک بھر میں یکساں ہو۔ کیمبرج سے تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم بھی ایک اچھا انسان اور مسلمان بن سکے اور گورنمنٹ اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والا طالب علم بھی انہی اوصاف کا حامل ہو ۔ بالکل اسی طرح مدارس میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کو بھی جدید طرزِ تعلیم سے آراستہ کیاجائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں آسودگی کا عنصر شامل کیا جائے کیونکہ آسودہ ذہن دہشت اور انتہا پسندی کی طرف بمشکل ہی راغب ہو پاتے ہیں۔ غیر ملکی مداخلت کا قلع قمع کیاجانا بھی ضروری ہے۔ ماضی میں بھی اس قسم کی پالیسیاں مرتب کی جاتی رہی ہیں لیکن وہ سیاسی محاذ آرائی کی نذر ہوتی گئیں۔ اگر فوجی عدالتوں کا قیام اتنا ہی ضروری ہے تو اس کی قانونی توجیہہ کو اس طرح قابل عمل بنایاجائے کہ وہ روبہ عمل آسکے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245نافذ کرکے اس کے زیر انتظام فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور ان عدالتوں میں نمٹنے والے مقدمات کی اپیلیں بھی فوجی Appellate ٹریبونل میں نمٹائی جائیں۔ بصورتِ دیگر اگر فوجی عدالتوں سے مقدمات عام عدالتوں میں اپیلوں کے لیے لائے گئے تو ایک بار پھر وہ التواء کا شکار ہوں گے اور فوجی عدالتوں سے حاصل ہونے والا فائدہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکے گا۔ آرٹیکل 245کے علاوہ کوئی اور آرٹیکل اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ موجودہ عدالتی نظام کی موجودگی میں کوئی دوسرا عدالتی نظام چلایاجاسکے۔ آج جو فیصلے سیاسی و عسکری قیادت نے کیے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ چرچ میں ہونے والے حملے کے وقت یہ فیصلہ کر لیا جاتا۔ اس سے بہتر یہ تھا کہ یہ فیصلہ اس وقت کر لیا جاتا جب پاکستانی فوج لال مسجد کا محاصرہ کیے ہوئے تھی۔ یہ فیصلہ اس وقت بھی ہوسکتا تھا جب جنرل ہیڈ کوارٹرز مہران بیس پر حملے کیے گئے تھے۔ یہ فیصلہ اس وقت ہوسکتا تھا جب کوئٹہ کے ہزارہ ٹائون اور کراچی کے عباس ٹائون میں قیامت صغریٰ برپا کی گئی۔ دیر آید درست آید کے مصداق ان فیصلوں کو تسلیم کیاجانا چاہئے لیکن یہ فیصلے بھی ماضی کی قراردادوں اور فیصلوں کی طرح اگر خاکم بدہن غیر مؤثر ہوئے تو پھر پاکستان کا روشن مستقبل جس کی نوید سنائی گئی ہے، اس کو گہن لگ سکتا ہے۔ نظریہ ضرورت اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ بھی اسی وقت کر لیا جائے۔ بصورتِ دیگر ان متفقہ فیصلوں میں قانونی اور آئینی رکاوٹیں فورسز اور پولیس کے حوصلوں کو پست کرسکتی ہیں۔
تازہ ترین