• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے، درست نہیں ہے، صاحبانِ اقتدار کو ادراک ہونا چاہیے۔ پشاور کے سانحہ نے پوری قوم کو سوگوار کردیا، ہمارے بچّے ہم سے چھین لئے گئے، مائوں کی گود اجاڑدی گئی۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا، اللہ اس ملک کو آئندہ ایسے حادثات سے محفوظ رکھے۔ مگر اس کے نتیجے میں جو منصوبہ بنایا گیا ہے وہ ایک اور افسوسناک واقعہ ہوگا۔ انتہا پسندوں نے قوم کو اس کے مستقبل کے ہونہار وں سے محروم کردیا، یہ نقصان کبھی پور ا نہیں ہوگا، نہیںہو سکتا۔ قوم کے نمائندے آئین کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو یہ اور زیادہ نقصان ہوگا، جمہوریت کے ساتھ، بنیادی حقوق کے ساتھ۔ اس ملک کے تمام ادارے آئین کے تحت قائم کئے گئے ہیں اور اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔سب ہی آئین کے پابند ہیں، انتظامیہ ہو یا عدلیہ۔ رہیں خرابیاں تو وہ ہر نظام میں ہوتی ہیں، انہیں بتدریج دور کیا جاتا ہے، انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے اقدامات آئین کے مطابق کئے جاتے ہیں، آئین کے اندر رہ کر، آئین میں دئیے گئے طریقہ کار کے مطابق ،اسے توڑ مروڑ کر نہیں۔ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ آمریت کا خاصہ ہے۔ اس ملک نے آمروں کے بڑے ظلم سہے ہیں۔ بڑی تگ و دو کے بعد کچھ جمہوری روایات پروان چڑھ پائی ہیں۔ آمروں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے آئین میں مسلسل ترامیم کیں۔ان میں سے بہت سی ترامیم جمہوری ادوار میں ختم کی گئیں، اور یوں آئین کا کچھ اصل چہرہ بحال ہو سکا۔ بہت سی ترامیم پھر بھی باقی رہ گئیں۔ مثلاً پارلیمان کے ارکان کی اہلیت کا معاملہ۔ یا قراردادِ مقاصد کوآئین کے دیباچے سے ہٹا کر آئین کا حصہ بنانا۔
ایک جمہوری حکومت میں آئین میں اس طرح کی ترامیم کی تجویز جو اس کا جمہوری، عوامی، سول چہرہ بگاڑ دے ، کس طرح قابلِ قبول ہو سکتی ہیں؟ مانا کہ ملک کو دہشت گردی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان سے نمٹنا بھی ملک کے مفاد میں اہم، بلکہ اہم ترین ہے۔ مگر یہ کام احتیاط سے کرنے کا ہے، یہ انگلیاں جلاکر نہیں کیا جا سکتا ۔ نواز شریف کے دور میں ہمیشہ عدلیہ کے ساتھ بہت زیادہ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ ان کے پچھلے دور میں دہشت گردی کے خلاف عدالتیں قائم کی گئیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس متوازی نظام پر بہت سی پابندیاں عائد کردیں اور انہیں ہائی کورٹ کے ما تحت کردیا، تاکہ ان میں معقولیت کی کچھ جھلک محسوس کی جاسکے۔ نواز شریف نے فوجی عدالتیں قائم کیں۔ مقصد جو بھی رہا ہو، دونوں قسم کی غیر معمولی عدالتوں سے مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ دہشت گردی، مقامی سطح پر، اور پھر بعد میں پورے ملک میں پھیل گئی، پھیلتی چلی گئی۔ کیا انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں کوئی مثبت کردار ادا کر سکیں؟ جواب مثبت ہو ہی نہیں سکتا، کچھ ایسا ہوا ہی نہیں۔ نواز شریف سے بہتر کون جانتا ہے؟ پرویز مشرف نے ایسی ہی ایک عدالت میں نواز شریف پر مقدمہ چلایا، اور سزا دلوائی۔ یہ سزا بہت بعد میں سپریم کورٹ نے ختم کی۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ ان پر مقدمہ چلنے سے پہلے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔ یا ان کی زندگی تھی کہ بچ گئے۔ ورنہ کراچی میں فوجی عدالت نے ایک ملزم کو موت کی سزا سنائی تھی، اور جب ان عدالتوں کے خلاف مقدمہ زیرِ سماعت تھا تو سزا پر عملدرآمد نہیں روکا اور ایک غریب پھانسی چڑھا دیا گیا۔ وہ فیصلہ بھی بہت سی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اُس شخص پر تین الزامات تھے، دہشت گردی، غیر قانونی اسلحہ رکھنا اور قتل۔ فوجی عدالت کے سربراہ نے ملزم کو دہشت گردی اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزامات سے بری کر دیا اور قتل کے الزام میں موت کی سزا سنا دی۔ اس سے پہلے کہ ان عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا اُس بے چارے کو پھانسی دے دی گئی۔ ہائی کورٹ کے جس جج نے حکم ِ امتناعی جاری کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ پھانسی کیسے ہو جائے گی ہم بیٹھے ہیں، وہ بیٹھے ہی رہے، اور پھانسی ہو گئی۔ حتمی فیصلہ میں اس پھانسی کو یہ کہہ کر تحفظ دیا گیا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ دوسرا معاملہ وہ ہے جس کا حوالہ جسٹس مری نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ ایک شخص پر کسی کو قتل کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ ’مقتول‘ نے عدالت میں آکربتایا کہ وہ زندہ ہے، مگر اس کے باوجود ملزم کو پھانسی دے دی گئی۔ اندھیر نگری کا انصاف اس سے کیا مختلف ہو گا؟اور کیا ہمیں یہی درکار ہے؟ کیا اس طرح مطلوب مقاصد حاصل ہو سکیں گے؟ یا مزید خرابی کا باعث بنیں گے؟ فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے۔
ایک بار پھر اسی راہ پر چلنے سے پہلے کیا یہ ممکن ہے کہ ماضی میں قائم کی گئی ان فوجی عدالتوں کے فیصلے دیکھ لئے جائیں، ان پر ایک نظر ڈال لی جائے، ان فیصلوں کے قانونی اور آئینی معیار کا جائزہ لے لیا جائے۔ مثلاً یہ دیکھ لیا جائے کہ فوجی عدالت کے سربراہ کو قانون کی کوئی سدھ بدھ تھی؟ کیا انہوں نے قانونی تقاضے پورے کئے تھے؟ عام طور پرایک فوجی کی تربیت جن مقاصد کے لئے ہوتی ہے اس میں قانون سے آگہی کا کوئی عنصر شامل نہیں ہوتا۔ یہ بھی دیکھیں کہ ماضی میں فوجی عدالت کے سربراہ نے فیصلہ دیتے ہوئے یہ سوچا تھا کہ وہ ملزم کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام سے تو بَری کر رہے ہیں، مگر قتل کے الزام میں موت کی سزا سنا رہے ہیں۔ ملزم نے قتل کس طرح کیا ہو گا؟ کیا انہوں نے اس پر غور کیا تھا، سزا سنانے سے پہلے؟ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے۔ انصاف کا خون کرنا اور کس کو کہتے ہیں؟
مسئلہ کیا ہے؟ سول عدالتوں کو بے اعتبار قرار دینا درست نہیں ہے۔ خرابیاں ضرور ہیں، پورے نظام میں ہیں۔ ان خرابیوں کو دور کیا جانا چاہئے۔ اصل خرابی تفتیش اور استغاثہ میں ہے۔ تفتیش اگر صحیح نہیں ہوگی تو مقدمہ صحیح طرح عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ استغاثہ کا انحصار گواہوں اور شہادتوں پر ہوتا ہے۔ اگر گواہ جعلی ہوں یا پولیس نے زبردستی کچھ لوگوں کو گواہ بنا دیا ہو تو عدالت سے انصاف کے مطابق فیصلہ حاصل کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گا۔ کئی بار تذکرہ ہو چکا ہے، ممتاز صحافی صلاح الدین صاحب کے قتل کے مقدمے کا، اور حکیم سعید کے قتل کے مقدمے کا۔ ایسے اور بھی مقدمے ہوں گے، اِن کا تذکرہ اس لئے کہ اہم لوگ تھے۔ صلاح الدین صاحب کے قتل میں پولیس نے تین صحافیوں کو استغاثہ کا گواہ بنا دیا، ان کے جعلی بیانات گھڑ لئے اور اس بنیاد پر مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا۔ تینوں صحافیوں نے عدالت میں پولیس کی طرف سے پیش کئے گئے بیانات کی تردید کردی۔ ان میں سے کوئی بھی صلاح الدین صاحب کے جریدے میں کام نہیں کرتا تھا، جیسا کہ ان کے مفروضہ بیان میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا۔ خرابی کہاں تھی؟ پولیس کی تفتیش اور اس کے نتیجے میں پیش کئے گئے مقدمہ میں۔ جج کیا کرتے؟ آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ ملزم بری ہو گئے۔ قصور کس کا ہوا؟ غور کرنے کی بات یہ ہے ، اور اسے ہی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ر ہی یہ بات کہ ججوں اور گواہوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اس لئے وہ مقدمہ کی سماعت نہیں کر پاتے، درست نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ ججوں اور گواہوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکام رہے تو اس کی سزا انصاف کو، اور بے گناہوں کو کیوں دی جائے۔ ایک سوال یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے سربراہوں کو تو فوج تحفظ فراہم کردے گی، ان عدالتوں میں پیش کئے جانے والے مقدمہ کے گواہوں کوکو ن تحفظ فراہم کرے گا اور کیسے؟ کیا تحفظ فراہم کرنے کا وہی طریقہ عام سول عدالتوں میں اختیار نہیں کیا جا سکتا؟
اور بھی کئی پہلو ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ ایسے اقدامات سے سوچ سمجھ کر گریز کیا جائے جو بہت مشکل سے حاصل کی گئی جمہوریت، بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کے خاتمہ پر منتج ہوں۔آمریت کا جن جب جمہوریت کی پری پر قبضہ کر لیتا ہے تو اسے آزاد کرانے میں بہت سے جواں مرد اور شہزادے قربان کرنے پڑتے ہیں، اور اس میں ایک دہائی سے کم کبھی نہیں لگا، ہماری تاریخ تو یہی کہتی ہے۔
تازہ ترین