• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان علماء کونسل جوکہ پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے علماء ،اساتذہ ،خطباء اور آئمہ مساجد پر مشتمل ایک منظم تنظیم ہے جس کے اندرون اور بیرون ملک اراکین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ گزشتہ چوبیس سالوں سے فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ تشدد اوردہشت گردی کے خاتمے اور بین المذاہب مکالمہ کیلئے کوشاں ہے11؍9کے بعد جب پاکستان میں تکفیری ذہنیت کو پروان چڑھایا جارہا تھا پاکستان علماء کونسل نے مسلمانوں کے چاروں مکاتب فکر کا مشترکہ فتویٰ خود کش حملوں ،دہشت گردی اور مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگوں کو قتل کیخلاف جاری کیا اور تسلسل سے بین المذاہب اور بین المسالک مکالمہ کیلئے جدوجہد کو ایک عملی شکل دی۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان علماء کونسل نے ایک مسیحی بچی رمشاء مسیح پر توہین مذہب کے جعلی مقدمہ سے لےکر سانحہ کوٹ رادھا کشن تک پاکستان میں موجود غیر مسلموں کے حقوق کیلئے نمایاں اور بھر پور کردار اداکیا ۔پاکستان علماء کونسل کی کوششوں سے اندرون سندھ کے اندر ہندومسلم اور سکھ ہندو فسادات ختم ہوئے اور کوٹ رادھا کشن کے واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے خاتمہ کیلئے ایک مشترکہ اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس کے بعد 12ہزار سے زائد لوگ جو اپنے گھروں کو چھوڑ کر جا چکے تھے وہ واپس آکر آباد ہوئے۔پاکستان علماء کونسل کے دارالافتاء نے بچیوں کی تعلیم کے حوالہ سے انتہا پسند عناصر کے نظریہ کو یکسر مسترد کیا اور واضح طور پر قرآن و سنت کی روشنی میں بچیوں کی تعلیم کے حق میں فتویٰ صادر کیا اسی طرح انتخابات میں عورتوں کے ووٹ کے حق میں اور غیرت اور عزت کے نام پر قتل کیخلاف فتاویٰ جاری کئے اسی طرح پاکستان علماء کونسل نے آئی ایس آئی ایس(ISIS)کے بارے میں اپنا مفصل مؤقف پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جو پاکستان علماء کونسل کی عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدوجہد کی نمایاں نشانیاں ہیں۔پاکستان علماء کونسل کے مختلف شعبے پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف ہیں ان میں سب سے اہم مدارس کی تنظیم ’’تحفظ مدارس دینیہ پاکستان ‘‘ہے جس کے ساتھ ہزاروں مدارس متصل ہیں اور ان مدارس میں سے کوئی ایک بھی کسی قسم کی دہشت گردی یا انتہا پسندی میں آج تک ملوث نہیں پایا گیا ۔ ان مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور مدارس کے طلبا و اساتذہ کی عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ معاشرے کے اندر ایک بہتر شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکیں ۔پاکستان علما کونسل کا شعبہ مساجد ’’وفاق المساجد پاکستان ‘‘کے نام سے پورے ملک کے اندر کام کررہا ہے جس سے 73ہزار سے زائد مساجد منسلک ہیں اور اب کو شش یہ کی جارہی ہے کہ ان مساجد کو ایک مربوط اور مستحکم نظام کے تحت ایک ایسے سسٹم میں لایا جائے جس سے مساجد کے اندر سے اتحاد و یکجہتی کی فضا پیدا ہو اور عصر حاضر کے مسائل پر بات ہوسکے۔ اس سلسلہ میں پاکستان علماء کونسل نے جمعہ کے خطبات کیلئے ’’خطبات اکابر ‘‘کے نام سے ایک سال کے مکمل خطبے شائع کئے ہیں اور ان خطبات کی روشنی میں آئمہ اور خطباء کی تربیت کا عمل جاری ہے۔پاکستان علماء کونسل فلاحی امور اور خدمت خلق کیلئے ’’علم وامن فائونڈیشن ‘‘کے نام سے کام کررہی ہے ۔علم و امن فائونڈیشن کے رضاکار کسی بھی نا گہانی آفت کی صورت میں عوام کی خدمت کیلئے سربکف ہوتے ہیں ۔مدارس عربیہ ،کالجز اور اسکولوں کے طلباء کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کیلئے ’’پاکستان طلباء کونسل ‘‘قائم کی گئی ہے جو مدارس ،کالجز اور اسکولوں میں نظریاتی اور فکری ہم آہنگی کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ گزشتہ ایک سال سے ملک کے اندر بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ اور بین المذاہب تشدد کے خاتمہ کیلئے پاکستان علماء کونسل نے تمام مکاتب فکر اور مذاہب کے نمائندوں پر مشتمل ’’قومی مصالحتی کونسل‘‘قائم کی ہے ۔ اس کونسل کے تحت محرم الحرام اور دیگر مواقع پر مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان تصادم کو روکا گیا ہے اور اسی کونسل کے تحت پاکستان علما کونسل نے 2014ء میں 22مقامات پر توہین رسالت اور توہین قرآن کے غلط الزامات کو ختم کرواکر فریقین کی صلح کروائی ہے۔ توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے پاکستان علماء کونسل کے بطور چیئرمین میں نے اسلامی نظریاتی کونسل میں قرار داد پیش کررکھی ہے ۔
پاکستان علماء کونسل نے 30دسمبر کو لاہور میں ’’پیغام اسلاف کانفرنس ‘‘کا انعقاد کیا ہے ۔یہ کانفرنس ملک بھر سے آئے ہوئے علماء ،مفکرین اور دانشور حضرات پر مشتمل تھی جس میں 2015ء کو امن، رواداری اور یکجہتی اور دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کا سال قرار دیا گیا ہے ۔ اس سال کے دوران پاکستان علماء کونسل نے اپنے جن اہداف کا اعلان کیا ہے وہ اگر چہ آسان نہیں ہیں لیکن پاکستان علماء کونسل کی ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب ہر طرف خوف اور وحشت کا عالم ہو اور حق اور سچ بات کہنی مشکل ہو تو پاکستان علماء کونسل اس وقت اپنی حق کی صدا کو بلند کرتی ہے ۔
2015ء میں پاکستان علماء کونسل کا پہلا ہدف مدارس اور مساجد کے علماء ،خطباء ،اساتذہ اور آئمہ کی تربیتی نشستوں اور مشاورت کے ذریعے فرقہ وارانہ تشدد ،دہشت گردی کے خلاف منظم کرنا اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ شعبہ وفاق المساجد پاکستا ن کے تحت دیہات کی دوسو مساجد میں اسکولوں کو قائم کرنا ہے جہاں پر بلاتفریق بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم دی جاسکے۔ اسی طرح اسکول ،کالجز اور مدارس عربیہ کے طلباء کی فکر اور نظریا تی رہنمائی کیلئے مستقل بنیادوں پر تربیتی نشستوں، سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد کرنا ہے تاکہ وہ ذہنی اور فکری طورپر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی سوچ سے دور رہ سکیں ۔عوامی سطح پر مختلف مسالک اور مذاہب کے قائدین کے ہمراہ بین المسالک و بین المذاہب مشترکہ اجتماعات کا انعقاد کرکے عوام الناس کے اندر یہ شعور بیدار کرنا ہے کہ آئین پاکستان نے تمام پاکستانی شہریوں کے حقوق کا تعین کررکھا ہے اور کسی بھی شہری کو خواہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب ،مسلک یا عقیدے سے ہو آئین پاکستان کے دئیے ہوئے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔اسی طرح ہر پاکستانی شہری کا یہ حق ہے کہ اسے بغیر کسی تعصب کے انصاف ملے۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی پاکستانی معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہیں اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیر امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے اور جہاں پر امن نہ ہو وہاں معاشی، اقتصادی سرگرمیاں بھی ماند پڑجاتی ہیں لہٰذا دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے حکومت اور عوامی سطح پر منظم انداز میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان علماء کونسل اس جدوجہد میں اپنا بھر پور کردار اداکرتے ہوئے نظریاتی اور فکری محاذ پر عوام الناس ،علماء ،طلباء ،مدارس اور مساجد سے متصل طبقات کی رہنمائی کیلئے ایک منظم جدوجہد کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔
انتہائی افسوس اور کرب کی بات ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات کے برعکس پاکستان میں دور جاہلیت کی طرح بیٹیوں کی پیدائش پر جہالت کی بنیاد پر نہ صرف افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ماں اور بیٹی کو بھی قتل کردیا جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اسی طرح بعض دیہاتی علاقوں میں طاقتور لوگ بچیوں کی عزتیں لوٹتے ہیں اور پھر انکے خلاف مقدمات کا اندراج بھی ممکن نہیں ہوتا ۔پاکستان علماء کونسل نے 2014ء میں ’’بیٹی رحمت ہے ،زحمت نہیں ‘‘کے عنوان سے ملک گیر مہم چلائی تھی اور 2015ء میں بھی اسی مہم کو جاری رکھا جائے گا۔
پاکستان علماء کونسل کی قیادت نے ’’پیغام اسلاف کانفرنس ‘‘ میں ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے حوالہ سے جن امور کی نشاندہی کی ہے وہ انتہائی حوصلہ افزاء ہیں۔ جب تک پاکستانی حکمران ایک آزاد خارجہ داخلہ ، پالیسی نہیں بنائیں گے اس وقت تک ہمارے مسائل حل نہیں کر سکیں گے ۔ کسی مذہبی و سیاسی جماعت کی طرف سے اس طرح کا اعلان ایک خوشگوار حیرت کی طرح ہے۔امید یہی کی جاتی ہے کہ پیغام اسلاف کانفرنس کے ذریعے جس عزم اورحوصلے سے 2015ء اور اسکے بعد کے اہداف کا تعین کیا ہے اور دہشت گردی اور انتہاپسندی کو چیلنج کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔یہ بات حقیقت ہے کہ پیغام اسلاف کانفرنس ایسے وقت میں منعقد کی گئی جب پشاور اسکول کا سانحہ ہوئے صرف چودہ دن ہوئے تھے اور خوف و ہراس کی فضا ہر طرف چھائی ہوئی تھی ۔ ان حالات میں ملک بھر سے 2ہزار علماء کو جمع کرنا اور سانحہ پشاور سمیت دہشت گردی اور انتہاپسندی کے تمام اقدامات کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دینا نہ صرف اہل پاکستان ،اہل اسلام اور دنیا کیلئے ایک نوید صبح ہے ۔
تازہ ترین