• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ ہی دن ہوئے ہیں یورپ سے لاہور آئے ہوئے۔میری زندگی کا بڑا حصہ یہیں گزرا ہے لہٰذا اس شہر سے خاص لگائو ہونا فطری عمل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے بیس سال قبل بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے ہم نے اس تاریخی شہر کو الوداع کیا تو خوابوں کے ساتھ آنکھوں میں چمکتے جگنو بھی ہمارے ساتھ محو سفر ہوئے تھے۔ دیار غیر میں گزرے ہوئے ماہ و سال نے جہاں ہمارے خدوخال کو تبدیل کردیا تھا وہیں لاہور شہر بھی نئی سڑکوں، انڈر پاسز ،پلوں، گلیوں، نئے باغات اور ناجائز تجاوزات کو ختم کئے جانے کے بعد اپنی اصل حالت میں نہیں رہا جن گلیوں،بازاروں اورسڑکوں پر ہم آنکھیں بند کرکے سفر کرسکتے تھے ان پر اب گردوغبار، ٹریفک کے رش، رکشوں، کاروں، موٹر سائیکلوں اور بسوں کے ساتھ ساتھ ذرائع آمد و رفت کے ہارنوں کے شور کا ڈیرہ ہے۔ ہم نے مختلف راستوں پر طبع آزمائی کی لیکن یادگار پاکستان سے ماڈل ٹائون کی جانب والے راستے سے بھٹک گئے اور نہ جانے کہاں پہنچ گئے۔ موبائل فون پر ایک دوست کو آن لائن کیا اور راستوں کی رہنمائی لے کر منزل تک پہنچ ہی گئے۔ ہم لاہور شہر کی اس تبدیلی اور ترقی کو دیکھ کر ’’انگشت بدنداں‘‘ تھے۔ گجرات، لالہٰ موسیٰ ، جہلم، سرائے عالمگیر، گوجرانوالہ، فیصل آباد، شیخوپورہ، قصور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا لیکن وہاں کے راستوں سے ہماری واقفیت قائم نظر آئی اور ہم وہاں راستے نہیں بھولے۔لاہور میں منزل سے بھٹکنے اور دوسرے شہروں میں منزل مقصود تک رسائی میں کوئی مشکل پیش نہ آنے کی وجہ تلاش کی تو پتا چلا کہ حکومت پنجاب نے لاہور شہر پر ہی ’’فنڈز‘‘ کی برسات کی ہےاور وہ بھی اتنی زیادہ کہ برسات کے موسم میں بارش کا پانی گلی، محلے اور سڑک پر ان فنڈز کا ثبوت لئے کھڑا ہوتا ہے۔
شہرلاہور کو خوبصورت بنانے اور ٹریفک کا رش ختم کرنے کے لئے نئی سڑکیں، انڈر پاس اور اوورہیڈ برج بنانا بہت اچھی بات ہے کیونکہ یہ سب کچھ اسی لئے کیا جارہا ہے تاکہ عوام الناس کو سہولت دی جاسکے لیکن میرے نظریے کے مطابق اس طرح لاہور کو’’تخت لاہور‘‘ تو بنایا جاسکتا ہے لیکن یہاں ٹریفک کا رش ختم نہیں کیا جاسکتا۔ لاہور میں ٹریفک کا رش سڑکیں بڑی کرنے، اوور ہیڈبرج یا ا نڈر پاس بنانے سے کم نہیں ہوگا بلکہ یہ سب کچھ بنانے سے پہلے عوام الناس کو سڑکوں کے استعمال، اوور ہیڈ برج سے گزرنے اور اپنے اپنے ٹریکس میں سفر کرنے کا شعورو دینا بہت ضروری ہے۔ عوام الناس کو شعو ر کس طرح دیا جاسکتا ہے اس کے لئے خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں جس پر کام کرکے لاہور کو’’رش‘‘ سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ ٹریفک کے رش کی ا یک وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے دوسرے شہروں جن میں فیصل آباد، شیخوپورہ، گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہائوالدین، قصور، پتوکی، ٹویہ ٹیک سنگھ، ملتان اور ایسے ہی ان شہروں سے ملحقہ گائوں شامل ہیں ، کے رہائشی صبح6 بجے لاہور میں ہائیکورٹ کی تاریخوں پر پہنچنا شروع ہوتے ہیں اور9بجے تک سڑکیں دوسرے شہروں سے آنے والی ٹریفک سے ’’جیم‘‘ ہوجاتی ہے تو کیوں نہ حکومت دوسرے شہروں میں ہائیکورٹ’’بنچ‘‘ بنادے تاکہ ’’سائلین‘‘ کو ہائی کورٹ آنےکے لئے لاہور کا رخ اختیار نہ کرنا پڑے۔
اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹیوں، کالجز اور سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے والدین اس طرف کا رخ کرتے ہیں جس کے لئے انہیں لاہور میں ہی رہائش رکھناپڑتی ہے۔ کیوں نہ حکومت ِ پنجاب لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹیاں، کالجز اور سکول سسٹم بنا دے تاکہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے متلاشی ماں باپ اپنے اپنے شہروں میں بھی بچوں کو پڑھا لکھا سکیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ شائد لاہور میں ہائیکورٹ کے ’’وکلا‘ ‘ نہیں چاہتے کہ ہائیکورٹ بینچ دوسرے شہروں میں بنائے جائیں۔ لیکن ان محترم وکلا کو بھی تاریخی ورثے ’’لاہور‘‘ کی خوبصورتی کے لئے یہ قربانی دینا پڑے گی یا اس کا کوئی نعم البدل نکالنا ہوگا۔
نئی سڑکوں اور نئے اوورہیڈ برجز پر ٹریکس بنائے جانے بہت ضروری ہیں اور پھر ان ’’ٹریکس‘‘ پر بتایا جانا کہ کون سی ٹریفک کس ٹریک پر چلے گی اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ سائیکل، موٹرسائیکل، تانگہ اور چنگ چی کے لئے ایک ٹریک، بسوں اور ٹرکوں کے لئے علیحدہ ٹریک اور کاروں اور جیپوں کے لئے الگ ٹریک ہونا ضروری ہے تاکہ ہر کسی کو پتا ہو کہ ان کو کس ٹریک پر رہنا ہے۔ سڑکوں کے درمیان میں بنائے گئے فٹ پاتھ میں سے خود ہی راستہ نکالنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونا چاہئے کیونکہ ٹریفک اس سے مشکلات کا شکار اور بڑے حادثوں کا باعث بنتی ہے۔ رکشہ ، چنگ چی اور موٹرسائیکل چلانے والوں کے پاس کوئی لائسنس نہیں ہوتا۔ جب ڈرائیور کے پاس لائسنس ہی نہ ہو تو وہ ٹریفک کےاصولوں پر عمل پیرا کس طرح ہوسکتا ہے۔
سڑکوں پر ڈیوٹی کرنے والے پولیس مین کا کسی کو ڈر نہیں۔ کوئی چالان یا جرمانے سے نہیں ڈرتا، اشارہ توڑنا، ون و ے جانا، اپنی مرضی کا راستہ بنا لینا، بغیر لائسنس گاڑی چلانا فرض سمجھا جاتا ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر 80 فیصد گاڑیاں ٹیکنیکل پوائنٹ آف ویو سے چلنے کے قابل ہی نہیں ہیں ان کی اچھی حالت چیک کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی خاص انتظام نہیں کیا جاتا۔ خادم اعلیٰ پنجاب کو چاہئے کہ وہ پولیس کو چالان کرنے کا اختیار دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو شعور دینے کے اختیارات بھی سونپیں۔ دھواں مارنے اور بلاوجہ آواز پیدا کرنے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکا جانا بہت ضروری ہے۔ ہمارا کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ قوم کو شعور دیاجائے اور فنڈز صرف لاہور پر ہی نہ لگائے جائیں۔ دوسرے شہروں میں ہائیکورٹ بینچ، سکول، کالجز اور اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی بنائی جائیں بلکہ لاہور میں رش کم ہو اور دوسرے شہروں کے مقیم لاہور میں تاریخوں یا اعلیٰ تعلیم کے لئے نہیں بلکہ صرف سیر و سیاحت کے لئے آئیں۔ اس طرح لاہور کے ساتھ ساتھ سارا پنجاب ترقی کرے گا۔ اس موقع پر انور مسعود کی یہ بات ضرور لکھوں گا کہ لاہور میں بارش کے کھڑے پانی میں کپڑوں کی پرواہ کئے بغیر خادم اعلیٰ کھڑے نظر آتے ہیں ہونا تو یہ چاہئے کہ بارش کا پانی کھڑا نظر نہ آئے۔


.
تازہ ترین