• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موسم سرما کے دوران شام یا رات کے وقت شہر سے دور صحرا کی ٹھنڈی ریت پر وقت گزارنا دبئی اور متحدہ عرب امارات کی دیگر ریاستوں کے لوگوں کا انتہائی پسندیدہ مشغلہ ہے ۔چند روز قبل ہم بھی دبئی سے باہر کچھ دوستوں کے ہمراہ شام کے وقت ریگستان کے ٹھنڈے موسم اور عمیق خاموشی والے ماحول سے لطف اندوز ہوئے ہیں ۔ سورج غروب ہوتے ہی میں نے وہاں ایک عجیب و غریب نظارہ دیکھا ۔ ہمارے اوپر ہوائی جہازوں کی چار قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ رات ہوتے ہی ان کی روشنیاں زیادہ نمایاں ہو گئی تھیں ۔ دو قطاریں ان جہازوں کی تھیں ، جو ایئرپورٹ سے پرواز کر رہے تھے اور دو قطاریں ان جہازوں کی تھیں ، جو اترنا چاہتی تھیں ۔ ہم وہاں تقریباً تین گھنٹے تک بیٹھے لیکن یہ قطاریں ختم نہیں ہو رہی تھیں ۔ یہ ایسا ہی نظارہ تھا ، جو رات کے وقت کراچی کے اوپر پرواز کرنے والے ہوائی جہاز سے کراچی حیدر آباد سپرہائی وے کا ہوتا ہے ۔ وہاں گاڑیوں کی دو قطاریں نظر آتی ہیں ۔ دبئی ایئرپورٹ سے ایک منٹ میں کئی جہاز پرواز کر رہے تھے اور کئی اتر رہے تھے ۔ یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے تک جاری رہتا ہے ۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا زیادہ ایئر ٹریفک کبھی نہیں دیکھا ۔ کراچی میں بھی میری رہائش ایئرپورٹ سے قریب ہے ۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی ایک ایئرپورٹ پر اتنا ٹریفک ہو سکتا ہے ۔ ہم اگر صحرا سے یہ نظارہ نہ کرتے تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا کہ دبئی میں دنیا بھر سے کتنے لوگوں کی آمدورفت ہے ۔ کراچی واپس آتے ہوئے جہاز سے دن میں نظارہ کیا تو اور زیادہ حیرت ہوئی کہ نیچے سمندر میں بحری جہازوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ میں جہاز کی کھڑکی سے نیچے جھانکتے ہوئے پچاس بحری جہازوں کی گنتی کر سکا ، اس کے بعد گنتی میں گڑ بڑ ہو گئی ۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہمارا کراچی بھی ایک بین الاقوامی شہر ہے ۔ اس ایک شہر کی آبادی متحدہ عرب امارات اور اردگرد کی دیگر تمام ریاستوں کی مجموعی آبادی سےزیادہ ہو گی ۔ یہاں نہ صرف ایک قدیم بندرگاہ ہے بلکہ یہ اس خطے کی تجارتی راہ داری بھی ہے لیکن یہاں پورے دن میں صرف اتنے ہوائی جہاز اڑتے اور اترتے ہیں ، جتنے دبئی میں شاید پانچ منٹ میں اتر رہے ہوتے ہیں یا پرواز کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہماری بندرگاہ پر دن میںبہت کم بحری جہاز لنگر انداز ہوتے ہوں گے ۔ بہت زیادہ آبادی ہونے کی وجہ سے کراچی ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی ہے لیکن دنیا ہماری طرف نہیں آتی ہے حالانکہ دبئی ہم سے صرف دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے ۔ لوگ ہماری طرف کیوں نہیں آتے ؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں راکٹ سائنس نہیں پڑھنی پڑے گی ۔ بات بالکل سیدھی سی ہے ۔ دبئی میں امن ہے ، خوش حالی ہے ، قانون کی عمل داری ہے اور وہ رہنے کے لیے ہر حوالے سے دنیا کی بہترین جگہ ہے ۔ بدامنی اور خوف کا شکار ہم لوگ جب وہاں پہنچتے ہیں تو ہم پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ امن سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہاں پہنچ کر قرآن پاک کی سورۃ القریش کی اس آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے ، جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ پس تم اس رب کی عبادت کرو ، جس نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے امان دی ‘‘ ۔ بیسویں صدی میں ’’ لائف سکیورٹی اور فوڈ سکیورٹی ‘‘ کو اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں شامل کیا ۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا حالانکہ دنیائے عرب میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی خوف ناک لہر آئی ہوئی ہے ۔ وہاں کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان کی فکر سے بھی آزاد کیا ہوا ہے ۔ سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ وہاں کے حکمران اپنے شہروں ، قصبوں اور بستیوں کو دنیا کی سب سے خوبصورت جگہیں بنانے کے جنون میں مبتلا ہیں ۔ یہ وہی جنون ہے ، جو نشاۃ ثانیہ میں یورپی حکمرانوں میں تھا ۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مغرب کے لوگ مشرق کے ان شہروں اور قصبوں میں رہنا پسند کرتے ہیں ، جو تپتے ہوئے اور لق و دق صحراؤں میں آباد ہوئے ہیں ۔ ان شہروں کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہاں کمال کا نظم و ضبط بھی ہے ۔ متحدہ عرب امارات کے مقامی لوگوں نے اپنے حکمرانوں کے وژن کو سمجھتے ہوئے اپنے معاشروں میں رواداری ، کثرتیت اور تنوع کو خوش دلی سے فروغ دیا ہے اور رجعت پرستی سے نجات حاصل کی ہے ۔ دبئی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے دنیا کے ہر خطے کے لوگوں سے مڈ بھیڑ ہوتی ہے اور دنیا کی رنگا رنگ ثقافتوں اور تہذیبوں سے ملاپ ہوتا ہے ۔ دبئی کے کچھ علاقے حقیقی گلوبل ولیج بنے ہوئے ہیں ۔ وہاں سب کے لیے ایک ہی قانون ہے ۔ ریاست کی عمل داری نظر آتی ہے ۔ نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک کے لوگ وہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اپنے کاروبار چلا رہے ہیں ۔ وہاں کام کرنے والے ایک دوست کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت دبئی سے ای میل اور فون کے ذریعہ کنٹرول ہوتی ہے کیونکہ پاکستان کے بڑے دولت مند لوگ یہیں سے آپریٹ کرتے ہیں ۔ ان کی اور ان کے بچوں کی رہائش بھی یہیں ہے ۔ وہاں پاکستانی ٹی وی چینلز بھی کیبلز پر آتے ہیں ۔ وہاں لوگ پاکستانی ٹی وی چینلز کھولنے سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرلیتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی خبر نہیں ملے گی۔ بدامنی، انتشار اور قتل وغارت گری کی خبریں سن کر متحدہ عرب امارات میں پاکستانی بہت دکھی ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ یہ بات کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ کسی بھی ملک یا معاشرے کے لئے امن کی کیا اہمیت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے پر پوری قوم متفق ہوگئی ہے۔ میں اپنے گھر کی چھت پر رات کو یہ منظر دیکھنے کا انتظار کررہا ہوں کہ کراچی ایئرپورٹ پرآنے اور وہاں سے اڑنے والے جہازوں کی اتنی لمبی قطاریں ہوں۔ اسی چھت سے میں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے منظر بھی دیکھے تھے، جب تمام روشنیاں بجھادی گئی تھیں اور اندھیرے میں صرف گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی اور ایئرپورٹ پر آنے والے تمام جہازوں کا رخ موڑ دیا گیا تھا۔ خدا نہ کرے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ناکام ہوں اور اس سے بھی زیادہ برے منظر دیکھنا پڑیں۔
تازہ ترین