• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے کافی حیرانی ہوئی جب ٹورنٹو کی نواحی بستی مسی ساگاہ کے پیل ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ نے پشاور میں دہشت گردی کے حوالہ سے میرے ساتھ ہمدردی کا ایس ایم ایس کیا اور مجھے بتایا کہ ہم اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور ہمارے اسکولوں میں کینیڈا کا پرچم تین دن سوگ میں سرنگوں رہے گا۔ پیل ڈسٹرکٹ مسی ساگاہ کے تمام سکولوں میں تارکین وطن پاکستانیوں کے بچوں کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے اور ان بچوں کے کارن پاکستان کی مثبت شکل نظر آتی ہے۔ پھر کرسمس کی تقریبات میں بھی میرے ساتھ اکثر لوگوں نے اظہار ہمدردی کیا۔ دیار غیر میں جب انسان دکھ، مایوسی اور بے بسی کا شکار ہو۔ تو ایسا پرسہ بڑا حوصلہ اور امنگ دیتا ہے۔ اکثر لوگوں کا سوال تھا کہ دہشت گرد کیا چاہتے تھے۔ میرا جواب ادھورا تھا۔ مجھے نہیں معلوم دہشت گرد کیا چاہتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہماری طرف کے لوگ اس دلخراش واقعہ کو سرکار کی کمزوری بیان کرتے ہیں۔ میرا ان کو جواب تھا ہاں سرکار کمزور ہے مگر آپ کی اور میری طرح بے بس ہرگز نہیں۔ فوج نے جو اقدامات شروع کئے ہیں ان میں سرکار شامل ہے۔ اس وقت پاکستان کے عسکری ادارے تین رخی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اندرون ملک دہشت گردی، بیرونی جارحیت پر توجہ۔ ملک کے اندر عدم برداشت اور کرپشن کے مسائل ان معاملات پر فوج پوری طرح توجہ دے رہی ہے اور سرکار کو بھی احساس ہے کہ یہ جنگ اب پوری پاکستان قوم کی بقا کی جنگ ہے۔ اندرون ملک سیاسی خلفشار عوام کے حوصلے کو کمزور کرتا ہے۔ عوام اس مرحلہ پر فوج کے جذبہ اور ہمت پر اپنا مثبت ردعمل دے رہے ہیں۔ مگر سیاسی جماعتوں کے اندر یہ جنگ لڑنے پر اختلاف رائے خاصا نمایاں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں۔ اس مرحلہ پر آئین اور قانون کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ فوج نے کھلے دل سے سیاسی لوگوں سے مکالمہ شروع کیا ہے۔ جب ایک طویل اجلاس کے بعد یہ فیصلہ ہو گیا کہ عدالتی امور میں فوج اپنا کردار ادا کرے گی تو اندازہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے معاملہ کی نزاکت کو سمجھ لیا ہے۔ مگر ہماری سیاسی اشرافیہ جو دہشت گردی پر زبانی طور پر بہت شور شرابہ کرتی رہتی ہے۔ مگر کرپشن پر ان کی توجہ بالکل نہیں۔
ہمارے ملک میں کرپشن اور دہشت گردی اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہے۔ فوج دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے مگر وہ کرپشن کی جنگ نہیں لڑ سکتی اور اشرافیہ جو خود کرپشن میں شریک نظر آتا ہے۔ وہ عوام کو صرف دہشت گردی سے ڈراتا ہے۔ عوام اب معاملات کو عوامی مفاد میں دیکھنے لگ گئے ہیں۔ جو اشرافیہ کے لئے خطرہ ہے۔ فوجی عدالتوں پر اشرافیہ کا اصرار ہے کہ ان کو آئین کے دائرہ کار کےاندر ہونا چاہئے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ مگر قومی اسمبلی میں سیاسی اشرافیہ کی بھرمار ہے۔ وہ قانون سازی میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ مگر اب مجبوری یہ ہے کہ ملکی عدلیہ کو اب احساس ہے کہ عدل و انصاف کا موجودہ نظام برسوں پرانا اور فرسودہ ہے۔ وہ عوام کو بروقت انصاف فراہم نہیں کرتا۔ دفتری طریقہ کار اور پولیس کی مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہی نہیں بلکہ انصاف ہوتا نظر ہی نہیں آتا۔ ایسے میں دہشت گردی کے قوانین بھی اس جنگ میں موثر نہیں رہتے۔ سرکار کو فوری طور پر عدل و انصاف کے سلسلہ میں نظام میں تبدیلی لانی ہو گی تاکہ انصاف ہوتا نظر آئے اور قانون عوام کے لئے آسانیاں فراہم کرے دہشت گرد ناقص قوانین اور پولیس کی عدم توجہ کی وجہ سے بچ جاتے رہے ہیں ان کو قابو کر کے ان کو سزا دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں میں ٹورنٹو میں جتنے بھی تارکین وطن سے ملا۔ وہ سب کے سب پاکستان کی سیاسی صورتحال سے بے چین تھے۔ مگر طالب علموں میں سے کچھ سیاسی صورتحال کو معاشی صورتحال سے بھی جوڑتے ہیں۔ مگر امریکہ اور کینیڈا میں ہمارے نوجوان تارکین وطن ایک بات پر بالکل متفق ہیں کہ سب سے اہم مسئلہ اندرون ملک دہشت گردی ہے اور دہشت گرد ہمارے نظام میں شامل ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی صورتحال کی بہتری بھی دہشت گردی ختم نہیں کر سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ معاشی منصوبہ بندی ضرور کریں مگر فوقیت دہشت گردی کی جنگ ہونی چاہئے۔ اس وقت ملکی نوکر شاہی اور سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کے لئے اکٹھے ہیں مگر عوامی مفادات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس وقت فوری ضرورت ہے کہ عام آدمی کے لئے انصاف کا حصول آسان ہو۔ ملکی ادارے عوام کی عزت نفس کو اہمیت دیں۔
فیصلہ ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کے فوری خاتمہ کے لئے فوجی عدالتیں کام کریں گی۔ اس طرح سول سرکار نظام کو شفاف بنانے کے لئے عدالتی نظام میں تبدیلی کی نوید نہیں بلکہ عملی طور پر فٹ پرنٹ تیار کر کے اس پر فوری عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔ فرسودہ اور موقع پرست عدالتی نظام میں وکیل صاحبان کا بہت کردار ہے مگر وہ مثبت نہیں۔ عدالتی فیصلوں کے لئے وقت کا تعین ضروری ہے۔ تفتیشی اداروں کی ذمہ داری میں اضافہ کیا جائے اور وہ تمام دبائو سے آزاد ہو کر جرم کے خاتمہ کے لئے عدالت کی معاونت کریں۔ ملک میں جو بھی احتسابی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان کی تنظیم نو ضروری ہے۔ عموماً عدالتی فیصلوں کی تاخیر سے مجرموں کو زیادہ انصاف ملتا ہے اور وہ بے گناہ تصور کر لئے جاتے ہیں۔ ماضی میں احتسابی اداروں کی جو بے توقیری ہوتی وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کو ملکی نوکر شاہی اور نچلی عدالتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اوراسی وجہ سے تاخیری حربے کامیاب ہوتے ہیں۔
ملک میں مسلم لیگ نواز کی سرکار ہے۔ اب تک جو فیصلے ہوئے ہیں وہ ملک کے مستقبل کے لئے ضروری تھے۔ مگر ان پر عملدرآمد کے لئے وہ جوش اور جذبہ نظر نہیں آ رہا۔ اس وقت اعلیٰ عدلیہ بھی ملکی دہشت گردی اور کرپشن پر تشویش میں مبتلا ہے وہ سول حکومت کی مدد کرنا چاہتی ہے اور اس کو فوج کی حیثیت اور اہمیت کا بھی اندازہ ہے پھر ماضی میں ملکی مفاد میں اصول اور قانون کے مدنظر جو فیصلے اعلیٰ عدالتوں نے کئے ان پر سول سرکار کاربند ہوتی نظر نہیں آتی اب فوج فیصلہ کر چکی ہے کہ دہشت گردی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں ہو گی۔ اس ہی وجہ سے اہم دشت گرد جو فوج کے ساتھ نبردآزما تھے ان کو پھانسی دی جا چکی ہے وہ دہشت گرد جو عوام کی جان لیتے رہے ہیں وہ جیلوں میں مزے کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے سزا یافتہ گرفتار دہشت گردوں کو سزا دینی ضروری ہے۔ اگر سزا کا سلسلہ شروع ہوگیا تو ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔ پھر ہماری صفوں میں جو دہشت گرد ان کے حمایتی ہیں ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے بس 50بڑے مجرموں کو پھانسی دے دیں دونوں طرح کی دہشت گردی دنوں میں ختم ہو سکتی ہے کرپشن کی بلی کو دودھ پلانے والے بہت۔ ملک کو بچانے اور چلانے کے لئے آئین میں نہیں قانون میں وقتی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ کچھ مذہبی حلقے جو دینی مدرسوں کے سلسلہ میں تشویش کا شکار ہیں ان کو مطمئن کرنے کے لئے سول سرکار باہمی مشاورت سے دینی مدرسوں کی حدود کا تعین کرے ۔ فوجی عدالتوں کی مدت دو سال کی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ کرپشن کے معاملات میں بھی ایسی ہی مدت کا تعین ضروری ہے اور اس کے لئے جج اور عدالتیں فوج اور عدلیہ سے مخصوص مدت کے لئے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ایک دفعہ کرپشن کے مجرموں کو سزا ملنی شروع ہو گئی تو دہشت گرد عناصر کو ختم کرنا اور زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اس وقت اعلیٰ عدلیہ اور اعلیٰ عسکری حلقے قانون اور ملکی مفاد میں یک سو نظر آتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سول ادارے اپنے کردار کا تعین کیسے کرتے ہیں۔ نوکر شاہی کے اختیارات پر حد لگانی ضروری ہے اور اس کی ابتداء پنجاب اور سندھ کی نوکر شاہی سے کرنی ضروری ہے تو کسی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ سول سرکار اگلا سال بھی نہیں گزار سکے گی۔
تازہ ترین