• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو کہتے ہیں، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے،یا سانپ کا کاٹا، رسی سے بھی ڈرتا ہے، تو ’’فوجی عدالتوں‘‘ کے حوالے سے بعض حلقوں کے خدشات ایسے بے بنیاد بھی نہیں۔ فوری انصاف کے نام پر قائم کی جانے والی عدالتوں کے حوالے سے بدقسمتی سے ماضی کے تجربات بہت تلخ رہے۔ انہیں اکثروبیشتر سیاسی مخالفین، سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اب اس حوالے سے بحث شروع ہوئی ہے ، تو اس پر ناک بھوں چڑھانے اور ناقدین و معترضین کی نیتوں پر شک کرنے کی بجائے، اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے کہ اس کے نتیجے میں اِن فوجی عدالتوں کے نظام کار کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور مبنی برانصاف بنانے میں مدد ملے گی۔ آج کا پاکستان بہت مختلف ہے۔ اب سیاسی مخالفین کو ’’نشانۂ انتقام ‘‘ بنانا آسان نہیں۔ دور کیوں جائیے! ’’قائدِ انقلاب‘‘ اور جنابِ کپتان نے وفاقی دارالحکومت میں ہفتوں جو دھماچوکڑی مچائے رکھی، ریڈ زون اور اس میں موجود حساس ترین عمارات تک جس طرح ان کی زد میں رہیں، ’’جیو ‘‘کا سٹاف اور اس کا دفتر جس طرح روزانہ ان کے ستم کا نشانہ بنے ۔ قانون نافذ کرنے والے اِدارے ان کے سامنے جس طرح بھیگی بلی بنے رہے اور اس سب کچھ کے باوجود حکومت جس طرح صبروتحمل کا پیکر بنی رہی، کیا اس کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ سیاسی مخالفین کو ’’نشانہ ٔ انتقام‘‘ بنانا آسان ہے اور پھر زیربحث ’’فوجی عدالتوں‘‘ کے بارے میں تو سیاسی و عسکری قیادت بار بار یقین دہانی کراچکی کہ انہیں صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ مقدمات پوری طرح جانچ پرکھ کے بعد ان عدالتوں کے سپرد کئے جائیں گے، ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا اور ان عدالتوں کے فیصلے حرفِ آخر نہیں ہوں گے۔ ان کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپیل کا حق بھی موجود ہوگا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی یہ شکایت بہت قدیم ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑتے ہیں لیکن معمول کی عدالتی کاروائی کے ذریعے انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکتا ۔ استغاثہ عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے۔ گواہ گواہی دینے سے ڈرتے ہیں، ججوں کی گھبراہٹ بھی فطری ہوتی ہے۔ جس طرح سنگین جرائم کے ’’عام‘‘ مجرموں کو طول طویل عدالتی کاروائی کے سپردکرنے کی بجائے پولیس مقابلے کے ذریعے کیفرکردار تک پہنچادیا جاتا ہے، دہشت گردوں کا معاملہ تو ان سے بھی زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ ’’مِسنگ پرسنز‘‘ کا سنگین انسانی مسئلہ اس کی پیداوار ہے۔ ان بدنصیبوں کے لئے محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ کی زیرقیادت کی جانے والی جدوجہد برسوں پر محیط ہے۔ انہیں زمین کھاگئی، یا آسمان نگل گیا؟ ان کے چاہنے والے جس ذہنی کرب، جس نِفسیاتی عذاب سے دوچار ہوتے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں، جن پر بیت رہی ہوتی ہے۔ برادرم حفیظ اللہ نیازی اس حوالے سے اپنے بھانجے کی مثال لائے ہیں، ڈاکٹر علاؤالدین جو کئی برسوں سے عسکری اداروں کی تحویل میں ہے، اس کی بوڑھی ماں اس بناء پر ذہنی توازن کھو بیٹھی کہ اِسے اپنے بیٹے کا قصور ہی معلوم ہوجائے، حفیظ اللہ کے بقول سارا خاندان اس بات پر متفق ہے کہ اگر کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اسے سزا ضرور ملنی چاہئے، مگر گوانتاناموبے کے قیدیوں کی طرح جو دس سال بعد بے گناہ پائے گئے، پابند ِ سلاسل رکھنا، غائب رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟
جی ہاں! اسی انصاف کے لئے تو ان عدالتوں کا اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ کوئی بے گناہ دس سال تک قیدوبند کی اذیتوں سے دوچار نہ رہے۔ کسی ’’مسنگ پرسن‘‘ کے لواحقین انتظار اور بے یقینی کی اس اذیت سے دوچار نہ ہوں کہ اُن کا پیارا، ان کا راج دُلارا، ان کی زندگی کا سہارا، ان کی آنکھوں کا نور، دل کا سرورزندہ ہے یا مرگیا۔ زندہ ہے ، تو کس حال میں ہے؟ مرگیا ، تو کہاں دفن ہوا؟ کہ اس کی قبر پر جا کر فاتحہ خوانی ہی کر لیں۔کیا انصاف کا تقاضہ یہ نہیں کہ پوری چھان پھٹک ، مکمل جانچ پڑتال کے بعد دہشت گردی کا مقدمہ عدالت میں پیش ہو، جہاں ملزم کو صفائی کا موقع میسر ہو، عدالت کے فیصلے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپیل کا حق بھی ہو اور یوں ملک کی سب سے بڑی آئینی عدالت کی بالادستی بھی قائم رہے۔
جی ہاں! دوسری جنگِ عظیم میں چرچل نے کہا تھا، اگر عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں، لوگوں کو انصاف مل رہا ہے،تو انگلستان اور تاجِ انگلستان کے مستقبل کے متعلق کسی پریشانی، کسی تشویش، کسی بے یقینی کی ضرورت نہیں۔ تو آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ دہشت گردوں کے لئے فوری انصاف کی خصوصی عدالتوں سے پاکستان کا عام عدالتی نظام ختم ہوجائے گااور یہ خصوصی عدالتیں بھی تو کسی قاعدے ، ضابطے کے تحت وجود میں آئیں گی۔
کیا اس کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی یا اعتزاز احسن اور ان کے ہم خیالوں کے بقول یہ کام آرمی ایکٹ میں ترمیم سے بھی چلایا جاسکتا ہے؟ اس پر بحث ہوسکتی ہے اور اس پر بھی کہ اس نظام کو زیادہ سے زیادہ شفاف کیسے بنایا جاسکتا ہے ، جس میں بنیادی انسانی حقوق اور عدل و انصاف کے بنیادی تقاضوں کا اہتمام بھی ہو۔
اِدھر ہمارے دانشوردوستوں کا ایک( مختصرسا)گروہ اپنے کام میں مصروف ہے۔ وہ مِحض وزیراعظم ہی سے اپنے دیرینہ بُغض کا شکار نہیں، بلکہ ان کی نفرت اور عداوت، بحیثیت مجموعی قبیلۂ سیاست سے ہے۔ وہ جو پنجابی کا محاورہ ہے(ترجمہ:۔ آٹا گوندھتے، ہلتی کیوں ہو؟) تو انہیں بھی وزیراعظم اور سیاستدانوں کی کوئی ادا ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ وزیراعظم کی زیرصدارت سیاسی و عسکری قیادت کی کانفرنسوں کو وقت گزاری کا حربہ سمجھتے ہیں۔ (جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، 16دسمبر کے سانحۂ پشاور کے بعد اس نوع کی تیسری کانفرنس ہونے جارہی ہے) ان تین کانفرنسوں کے علاوہ بھی وزیراعظم اپنے سیاسی رفقاء کے ساتھ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اعلیٰ عسکری و انٹیلی جینس قیادت سے مشاورت اور قریبی رابطے میں رہے۔ یہ فالواپ میٹنگز ہیں، جن میں ڈے ٹو ڈے پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ الیکشن پلان پر عمل درآمد کو مؤثر تر بنانے اور اس راہ میں درپیش اَن دیکھے مسائل اور مشکلات کے حل پر غور کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں سیاسی و عسکری قیادت کی مشاورت کو وقت کا ضیاع قرار دینے والے اہلِ دانش ، اِن دنوں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنسوں کے متعلق کیا کہیں گے؟
تازہ ترین