• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نکتہ چیں ہے، غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
(غالب)
فوجی عدالتوں کا قیام تمام پارٹیوں کی رضا مندی سے طے ہوا تھا اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا۔ پھر کیا ہوا۔ گھر آکر پارٹیوں کے سربراہوں نے اپنے اپنے تحفظات ظاہر کرنا شروع کر دیئے اور ایک معاملہ جو کہ سب کی رائے سے طے ہوا تھا دوبارہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں زیر بحث آگیا اور آج پندرہ دن گزر جانے کے بعد نہ تو کوئی آئینی ترمیم آئی اور نہ ہی کوئی مشترکہ مسودہ تیار کیا گیا۔ کچھ پارٹیوں کے سربراہوں نے خدشات کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور پھر27دسمبرکو بی بی کی برسی کے موقع پر سابق صدر جناب آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں میاں نواز شریف کو متنبہ کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان فوجی عذالتوں میںمیاں نواز شریف اور آصف زرداری کے کیس چلنے لگیں، اے ٹی سی کا قانون 1997ء میں میاں نواز شریف کی حکومت میں بنا تھا اور 1999ء میں اسی قانون کے تحت میاں صاحب پر طیارہ اغوا کا مقدمہ چلا جس میں انہیں خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔ اس خوف کے تحت مختلف سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے اس معاملے میں لیت و لعل سے کام لیا اور ابھی تک مسودہ تیار ہو کر پیش نہیں ہو سکا۔ دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونکیں مار کر پیتا ہے۔ قانون اور عدالتیں بنانے میںہر روز دیر ہوتی چلی جاتی ہے اور اس دوران بہت سے لوگوں نے اس موضوع پر طبع آزمائی شروع کر دی ہے۔ سابق چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب نے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کر دی ہے اور کہا ہے کہ آئین میں کی جانے والی ترمیم کو بھی چیلنج کر دیا جائے گا کیونکہ پارلیمنٹ ایسی کوئی ترمیم نہیں کر سکتی جو کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا دے۔ مجھے اس بات سے بصد احترام اختلاف ہے کیونکہ اس ترمیم سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو کوئی خطرہ نہیں، عدالت کا قیام صرف دو سال کے لئے ہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہم پر حملہ کرنے والا کوئی عام آدمی نہیں بلکہ تربیت یافتہ ماڈرن اسلحہ سے لیس دہشت گرد ہے۔ وہ فوجی انداز میں کارروائی کرتا ہے ۔ اب اگر ایسا شخص گرفتار ہو جائے تو وہ عام قیدی نہیں بلکہ جنگی قیدی ہے اور جنگی قیدیوں کے مقدمے عام عدالتوں میں نہیں چلتے۔ بہرحال یہ احتیاط کی جاسکتی ہے کہ فوجی عدالتوں کی سزائیں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں قابل اپیل بنا دی جائیں تاکہ اس طرح انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں آئین میں ترمیم اگر ایک خاص مقصد اور مختصر مدت کے لئے کی جائے تو اس سے آئینی ڈھانچے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ محدود مدت کے بعد ترمیم خود بخود ختم ہو جائے گی۔ آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد فوجداری مقدمات کے لئے چار قسم کی عدالتیں ہو جائینگی (1) سیشن کورٹ (2) اے۔ ٹی۔ سی کورٹ (3) تحفظ پاکستان آرڈینس کے تحت کورٹ (4) فوجی عدالتیں۔ اس طرح فوجداری مقدمات جو کہ عرصہ دراز سے التوا کا شکار ہیں ان میں کافی فرق پڑ جائےگا اور مقدمات کا جلد فیصلہ 4 مختلف قسم کی عدالتوں سے شروع ہو جائےگا۔ ضروری نہیں ہے کہ تمام ملزمان کو سزائیں ہی ہوں۔ جن کا مقدمہ اچھا ہوگا بری بھی ہونگے۔ عدالت کا کام ہی یہی ہے کہ بے گناہ افراد کو سزا سے بچانا اور گناہگار کو سزا دینا اس لئے عدالتوں کے قیام سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اچھے اقدامات کی تعریف کی جائے تو بہتر ہے جہاں تک سزائے موت پر عملدر آمد کا تعلق ہے تو اس میں پھر تاخیر ہو رہی ہے۔ جمعہ کے روز دوبارہ تمام سیاسی پارٹیوں کا اجلاس ہوا ہے۔ ایک پارٹی کا خیال ہے کہ آئین میں ترمیم کئے بغیر ہی کوئی راستہ نکالا جائے اور آئین کی موجودہ شقوں کو استعمال کر کے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں۔ میری رائے میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ ترمیم کرنی پڑے گی۔ اس سے پہلے ضیاالحق صاحب نے آئین میں ترمیم کر کے فیڈرل شریعت کورٹ بنائی تھی جو بالکل آزاد ادارہ ہے اس کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کے تقرر کا طریقہ بھی دیا ہے اور پھر اس ترمیم کو آٹھویں ترمیم کے تحت تحفظ بھی مل گیا تھا اور فیڈرل شریعت کورٹ ابھی تک کام کر رہی ہے۔ اسی طرح اگر آئین میں ترمیم کر کے فوجی سربراہ کے تحت عدالتیں بنا دی جائیں تو وہ قانونی ہونگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بار کونسل وکلا کی تنظیموں کو فوجی عدالتوں کے بارے میں کافی اعتراضات ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب عدالتیں کام کرنا شروع کریں گی تو وکلا کے تحفظات بھی دور ہو جائیں گے۔ فوجداری وکلا کو ملٹری کورٹس میں پیش ہونے کا خاصہ تجربہ ہے کیونکہ 1977 کے مارشل لاء میں تقریباً تمام فوجداری وکلا ملٹری کورٹس میں پیش ہوتے تھے۔ ملک کے سیاسی حالات دگرگوں ہیں۔ عوام کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اختیار فوج کے ہاتھ میں آگیا ہے اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب ہر روز بیانات دے رہے ہیں کہ تمام چیزوں کی کمانڈ ان کے ہاتھ میں ہے اور تمام فیصلے وہ خود ہی کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ پشاور کا 16 دسمبر کا سانحہ لوگوں کو نہیں بھولتا۔ اسی سانحہ کے بعد تمام قوم متحد ہوئی ہے۔ میری دعا ہے کہ خدا اپنا فضل و کرم کرے اور تمام لوگوں کے بچوں کی حفاظت کرے آخر میں شوکت فہمی کے اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
تم نے دیکھا ہے نکلتا ہوا سورج لوگو
تم نے کچھ خواب سہانے نہیں مرتے دیکھے
وقت ہوتا ہے ہر اک زخم کا مرہم فہمی
پھر بھی کچھ زخم تھے ایسے جو نہ بھرتے دیکھے
تازہ ترین