• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’گھر واپسی‘‘ کس قدر دلآویز ترکیب ہے اور یہ تصویر ہی کس قدر خوش کن ہے۔کون بدنصیب گھر واپسی کے لئے بے چین نہ ہو گا۔ مگر رکئے، زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ بی جے پی سرکار کی اشیر باد سے بھا رت میں شروع ہونے والا گھر واپسی کا یہ پروگرام کچھ دوسری طرح کا ہے۔جو اصل میں مذہب کی تبدیلی کی تحریک ہے اور ملک بھر کی اقلیتوںکو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنا مذہب ترک کر کے ہندو مت اپنا لیں۔ مسلمان اور عیسائی بالخصوص نشانے پر ہیں۔ گھر واپسی کی یہ تحریک کوئی نئی بات نہیں ہے۔صدیوں پرانےمنصوبے کو نیا نام دیا گیا ہے۔ ہندو جاتی کی ہمیشہ سے خواہش اورکوشش رہی ہے کہ ہند میں ان کے علاوہ کسی دوسرے دین دھرم کا وجود نہ رہے۔اسکے لئے کبھی انہوں نے شدھی کا نام استعمال کیا اور کبھی ہندتوا کا۔ مگر مقصد و مدعا ایک ہی تھا۔ شکاری اب بھی پرانے ہی ہیں،مگر جال نیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار یہ سب سرکار کی اشیر باد سے ہو رہا ہے،کیونکہ ہندتوا کی سب سے بڑی پرچارک بی جے پی اقتدار میں ہے۔ گھر واپسی کی حالیہ تحریک کے موجودہ روح رواں آر ایس ایس کے سربراہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے دست راست موہن بھگت ہیں، وزیر اغظم نے خود بھی اپنی سیاست کا آغاز آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے ہی کیا تھا۔
گھر واپسی تحریک کی فلاسفی یہ ہے کہ ’’ہندوستان صرف اور صرف ہندوئوں کا ہے، اور ہندو مت ہی اس دھرتی کا اصل دین دھرم ہے۔ باقی سب مذاہب حملہ آور اپنے ہمراہ باہر سے لیکر آئے تھے اور پھر زور زبردستی سے مقامیوں کو ان کا پیروکار بنایا۔ مسلمان حملہ آوروں نے تو ایک ہزار برس تک ہندو دھرم کے ساتھ کھل کھیل کھیلی۔ دور دراز دیسوں سے گھوڑوں کی پشت پر آنے والے مسلمان مہم جو تو خاص طور پر خالی ہاتھ آئے تھے۔ ہندو جاتی کی مہیلائوں کو انہوں نے زبردستی گھروں میں ڈال لیا تھا۔ انگریز نے بھی ڈیڑھ سو برس حکومت کی اور سماجی اور معاشی طور پر کمزور ہندوئوں کو لوبھ لالچ دیکر عیسائی بنالیا۔ ہم کسی کو مذہب بدلنے کا نہیں کہہ رہے بلکہ ہم تو انہیں ان کے اصل دھرم یعنی ہندو مت کی جان کاری دے رہے ہیں۔ اور انہیںبتا رہے ہیں کہ انکی اصل جڑ بنیاد کیا ہے۔ دھرم گھر کی طرح ہی تو ہوتا ہے۔کوئی کسی کو زبردستی اسکے گھر سے نکال دے تو اسے واپسی کا حق تو ہمیشہ رہتا ہے۔ صدیوں پرانے کنورٹ اب اگر برضا و رغبت اپنے اصل دھرم کی طرف واپس آرہے ہیں ،تو اس میں برائی کیا ہے ؟ یہ تو گھر واپس والی بات ہے۔ اور اپنے گھر واپس آنے سے کسی کو کیونکر روکا جا سکتا ہے؟
گھر واپسی پروگرام کو بڑھاوا دینے میں ایودھیا سے بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ ویدانتی بھی پیش پیش ہیں۔ جنہوں نے چند ہفتے پہلے اعلان کیا تھا کہ2014ء کے اختتام تک چار ہزار مسلمانوں کو ہندو بنا لیا جائے گا۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق فیض آباد ،امید کرنگر ،گونڈا اور سلطان پور کے اضلاع سے ہے۔ موصوف نے انکشاف کیا تھا کہ کنورٹ ہونے والوں کی فہرستیں تیار ہیں۔ مگر انتظامیہ کے خوف سے ظاہر نہیں کر پا رہے۔ کیونکہ ایسے میں مخالف تنظیمیں اور مقامی انتظامیہ خوامخواہ بیچ میں کود پڑتی ہیں اور بنابنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہر سال دو لاکھ مسلمانوں اور ایک لاکھ عیسائیوں کو ہندو جاتی میں شامل کرنے کا پروگرام ہے۔ جس کیلئے مالی وسائل کی فراہمی پر بھی کام ہو رہا ہے اور چندےکی اپیل کی جا رہی ہے۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے کے دوران آرا یس ایس کی طرف سے علی گڑھ میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے تھے۔ جن میں دل کھول کر تعاون کی اپیل کی گئی تھی۔ کیونکہ منتظمین کے مطابق گھر واپسی خاصا مہنگا پراجیکٹ ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ آگرہ کی ایک نواحی بستی کے مسلمانوں نے اپنے ہاں مندر کی تعمیر کی درخواست بھجوائی ہے جس پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جانا ہے۔گو کنورشن کی زیادہ تر وارداتیں چوری چھپے ہوتی ہیں،پھر بھی میڈیا کو بھنک پڑ جاتی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چند ہفتے پہلے کیرالہ کے ضلع کوٹایم میں49عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنایا گیا تھا انہیں جلوس کی شکل میں مندر لے جایا گیا۔ جہاں بھجن اور نعروں کی گونج میں انہیں ہند جاتی میں شامل کیا گیا۔ یاد رہے کہ کوٹایم کیرالہ کے وزیر اعلیٰ ا ومن چانڈی کا آبائی ضلع ہے اور کنورشن کے پکے ثبوت ہونے کے باوجود موصوف اپنے ہاں کسی ایسی کارروائی سے انکاری ہیں۔عیسائیوں کی کنورشن کا دوسرا بڑا واقعہ دہلی سے 140کلومیٹر دور حسایاں نامی بستی کے گرجا گھر میں 29اگست 2014کو ہوا۔اس موقع پر اگنی پوجا کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
بی جے پی اپنے مذہبی فلاسفی ہند توا کی ترویج کیلئے ہمیشہ سے کام کرتی آئی ہے۔ اب اقتدار ملا ہے،تو رفتار تیز ہو گئی ہے۔ حکمران جماعت کی ذیلی تنظیم آر ایس ایس اور اس کا عسکری ونگ ،بجرنگ دل پوری طرح سے روبہ عمل ہیں۔نریندر جی کی کابینہ میں آر ایس ایس کے ارکان کی تعداد 19ہے۔کنورشن کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کو اپنے تہذیب و تمدن اور اقدار وروایات سے دور کرنے کے لئے ملکی سطح پر نئے تعلیمی نصاب اور نئی درسی کتب کی تیاری پر کام ہو رہا ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کے نام پر ہندو دھرم کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کو پورے ہندوستان کی ’’قومی مذہبی کتاب‘‘ بنائے جانے کی تجویز ہے اور یہ تجویز وزیر خارجہ شوشما جی کی طرف سے آئی ہے۔ تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی تحریک بھی ہے۔ اور تو اور گاندھی جی کے قاتل کو محب وطن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ تاج محل کے حوالے سے بھی بیانیہ تبدیل ہونے جا رہا ہے، کہ اسے قدیم مندر کی بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے۔ گائو ماتا کے بارے میں نئی نئی تحقیقات سامنے آ رہی ہیں۔ اسکے دودھ سے لیکر موت تک سے بے پناہ فوائد کشید کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انہیں کرپشن سے لیکر پیچش تک کا شافی و کافی علاج قرار دیا جا رہا ہے۔ گو یہ سب نریندر جی کی آشیر باد سے ہو رہا ہے۔ مگر منصب کا تقاضا ہے کہ پس منظر میں رہیں۔لہٰذا لو پروفائل میں ہیں۔ مگر اسکے باوجود پچھلے ہفتے لوک سبھا میں اپوزیشن نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے بی جے پی کی مہم جوئی ریاست کے سیکولرتشخص کو پامال کر رہی ہے۔ انہیں یاد دلایا گیا کہ ابھی تو ان کے دامن سے مسلم کشی کے 2002والے دھبے ہی نہیں دھل سکے۔ یہ ہند توا گھر واپسی اور کنورشن کی مہم جوئی نیا چاند نہ چڑھا دے۔
خالص اور پوتر ہندو دیش کی خواہش کے نتیجے میں ہی کوئی ایک صدی پیشتربرصغیر میں شدھی کی تحریک بھی چلی تھی۔ اس وقت اس مہم میں آریا سماج والے پیش پیش تھے۔مسلمان رعیت پر دبائو بڑھانے کیلئے ہندو والیان ریاست بالخصوص بھرت پور اور کشمیر کے راجائوں سے مدد حاصل کی۔ خوف وہراس اور تحریص و ترغیب کا حربہ استعمال کیا گیا ۔
آریا سماج والوں نے بھی فتوحات کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے اور نہایت طمطراق سے بتا یا تھا کہ صرف راجستھان سے ایک لاکھ ملکانہ راجپوتوں کو ہندو بنا لیا گیا ہے۔ مگر جب دہلی ، لاہور اور دیگر بڑے شہروں سے مسلمان علماء و مبلغین نے متاثرہ علاقے کادورہ کیا، تو عقدہ کھلا کہ راجپوتوں کا یہ قبیلہ عقیدے میں مسلمان تھا اور مسلمان ہے۔ محض ہندوآبادی میں گھرا ہونے کے سبب بعض ہندووانہ رسم و رواج ان میں در آئے تھے۔ علماء ومبلغین کے سمجھانے پر انہوں نے بتایا کہ یہ سب لاعلمی کا نتیجہ ہے اور وہ ان مشرکانہ رسوم کو بھی ترک کر دیں گے۔ خواہشوں کے گھوڑے دوڑانے پر پابندی تو نہیں۔ مگر بھارت کے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے ہاں بسنے والے مسلمان اور عیسائی ملک کی کل آبادی کا کم و بیش ایک چوتھائی ہیں۔ بیس کروڑ سے زائد انسانوں کو ہندو بنانے کا ان کا خواب قیامت تک پورا ہونے والا نہیں۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی بھاگ دوڑسعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ صبر کا گھونٹ کڑوا سہی، مگر پینا پڑے گا۔ جو بھاری پتھر ان کے پورکھ نہ اٹھا سکے، انہیں بھی چوم کر پیچھے ہٹ جانا چاہئے۔
تازہ ترین