• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیرے ساتھ جینا…تیرے ساتھ مرنا…
منہاج برنا، منہاج برنا…
ہم کتنے بدذوق ہیں کہ منہاج برنا کے ساتھ جینے کی قسمیں کھانے والے ابھی تک زندہ ہیں، وہ اس پرتشدد دور اور انتہا پسند عناصر کو برداشت نہ کرسکے اور آج ہمارے درمیان سےاٹھ گئے کہ وہ ایک حق گو، نڈر اور بے باک صحافی تھے۔ ہر حکومت کے زیر عتاب رہے… ہر دور کے حکمرانوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ ترقی پسند اقدار کی وکالت کی وہ اقدار جن کو آگے بڑھانے کی آج اشد ضرورت ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ماحول سےپیدا شدہ سوالات کا جواب تلاش کرنے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔ مجھے کل کی طرح آج بھی یاد ہے ایمسٹرڈیم میں انہوں نے ہالینڈ کی خوبصورتی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ دنیا بہت خوبصورت ہے اور ہمیں اس کو مزید خوبصورت بنائے رکھنے کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے۔ مجھے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آپ یہاں ہالینڈ میں بھی اپنے کام سے غافل نہیں ہیں۔‘‘ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہنے لگے ہم صحافت، ادب، فلسفہ اور ثقافت کے وسیلے سے لوگوں کو ساتھ لانے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ سماج کو بدلنے کا کام اکیلے نہیں ہوسکتا۔ مجھے تسلی ہے کہ آپ یہاں رہتے ہوئے بھی پاکستان میں موجود ہیں۔‘‘
منہاج برنا کا ذہن کتنا کشادہ اور بے لوث تھا کہ زندگی کا اس طرح جائزہ لینے کا اسلوب بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔ میں کئی بار سوچتا ہوں کہ آج جبکہ انسانوں کی تقسیم مذہب کی بنا پر ہونے لگی ہے اچھائی یا برائی سے نہیں۔ یہ انتہاپسند، مذہبی جنونی اور فرقہ پرست عناصر آپ کو کیسے برداشت کرلیتے ہیں شاید اس کی یہ وجہ ہے کہ آدمی کے اندر کی طاقت ان لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے جو ہتھیار لیے پھرتے ہیں۔منہاج برنا نے اپنی خدا داد صلاحیتوں، وسیع علم، ترقی پسندانہ سوچ اور جدوجہد سے صحافیوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔ وہ صحافیوں کی دو نسلوں کے استاد تھے، وہ صحافی اور صحافت کے مثالی کردار کیلئے تاحیات سرگرم رہے۔ وہ اپنی صحافت سے وابستگی، کلمہ حق اور بہادری کے لیے ملک گیر شہرت کے حامل تھے۔ ان کے انتقال پرملال سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ پر ہونا مشکل ہے۔ ترقی پسند منہاج برنا ہمارے عہد کے نہایت مقبول و ممتاز صحافی تھے انہوں نے شاعری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔’’مرثیہ چوتھے ستون کا’’ ادب کے شائقین کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔ میں نے بہت پہلے اڑتی اڑتی سنی تھی کہ منہاج برنا شعر بھی کہتے ہیں۔ میں نے سوچا جس طرح ان کی صحافت میں گہرائی، وسعت اور حریت فکروعمل ہے یقیناً شعروں میں ویسی وسعت ہوگی۔ جب انہوں نے ایمسٹرڈیم میں مجھے اپنی شاعری کی کتاب مرثیہ ’’چوتھے ستون کا‘‘ بھیجی اور اس پر اپنی رائے لکھنے کا حکم دیا تو اپنی رائے کا مزید احترام کرنے کو جی چاہا۔
منہاج برنا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے بانی صدر تھے۔ انہوں نے پاکستان ٹائمز، دی مسلم، نیوز ایجنسی اے پی پی اور امروز میں خدمات انجام دیں۔ ان کی صحافت کا عرصہ چالیس برس پر محیط ہے۔ تعلیم کے بعد انہوں نے بھی عملی زندگی کا آغاز آسمان صحافت کا قطب ستارہ نثار عثمانی کی طرح اسکول ٹیچر سے کیا۔ کچھ عرصہ ممبئی میں روزنامہ انقلاب سے وابستہ رہے بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سیاہ میں جب پریس پر پابندیاں عائد ہوئیں تو ان کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں ایک نمایاں نام منہاج برنا کا بھی تھا۔ میری ان دنوں برنا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا ’’شیر کس حال میں ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’اس وقت سب سے بڑا کام یہ ہے صحافیوں کا اتحاد کیسے برقرار رکھا جائے، کیسے مطالبات کے حصول تک تحریک بغیر روک ٹوک کے چلتی رہے لیکن بظاہر یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ جب جب صحافیوں کی کوئی بڑی تحریک شروع ہوتی ہے اس کو ایک سازش کے تحت منتشر کردیا جاتا ہے جس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہماری تحریک کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس قسم کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ گویا پوری تحریک دو یا تین گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے لیکن ہم ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ میں مطمئن ہو کرواپس ایمسٹرڈیم چلا آیا کہ مجھے برنا صاحب کی صلاحیتوں، جدوجہد اور اخلاص پر پورا یقین تھا۔
ان کی تحریریں نہ صرف صحافتی ذمہ داریوں کو پورا کرتی تھیں بلکہ دانشورانہ سطح پر بھی دعوت فکر دیتی تھیں، ان سے مل کر مجھے ترقی پسند تحریک کے معماروں کی یاد آجاتی تھی کہ ان میں تنگ نظری، تعصب یا فرقہ پرستی کا شائبہ تک نہ تھا میں کئی بار سوچتا ہوں کہ منہاج برنا جو کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے اور عملاً صحافتی کردار ادا کرنے سے قاصر تھے اگر آج بھی لکھنے لکھانے کے عمل کو جاری رکھتے تو قتل و غارت اور پرتشدد دور میں کیسے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے؟منہاج برنا صحافت سے منسلک ہو کر اپنے وقت کے سماجی و سیاسی سوالات کے جوابات کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے اور انہوں نے اپنی اس بے چینی اور تڑپ کو پورے جذبے کے ساتھ اپنی شاعری میں بھی پیش کیا۔ میرے حساب سے دل سے نکلی ہوئی بات، لفظ اور شعرو آواز دل تک پہنچنے کیلئے کسی وسیلے کی محتاج نہیں ہوتی۔ منہاج برنا ان صاحب کردار لوگوں میں سے تھے جو زبان و قلم پر پابندی کی صورت میں جگر کے خون میں انگلیاں ڈبولیتے ہیں اور حلقہ زنجیر پہ زبان رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ چاہے صحافت کی وادی پرخار ہو یا شعر و ادب کا میدان کار زار۔مجھے ان کی شاعری پڑھ کر فیض صاحب سے زیادہ حبیب جالب یاد آئے جن کے پاس میر کے 72نشتر تھے۔ منہاج برنا کے پاس 72نہ سہی 62تو ضرور رہے ہوں گے۔ سب جانتے ہیں کہ آمر جنرل ضیاء الحق اور منہاج برنا کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ کبھی یہ آگے اور وہ ناہنجار پیچھے پیچھے اور کبھی وہ ستم شعار آگے آگے یہ حریت پسند پیچھے پیچھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برنا صاحب اس آمر کا پیچھا کرتے کرتے آج دور… بہت دور نکل گئے … کہہ سکتا ہے کیا کوئی۔
تازہ ترین