• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت پر 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں منعقدہ تقریب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے مختصر خطاب میں بہت سی باتیں کہہ دی گئی ہیں اور بہت سے سوالات پیدا کردیئے گئے ہیں، جو باتیں انہوں نے کہہ دی ہیں، ان کے بارے میں اس طرح توقع نہیں کی جارہی تھی۔آصف علی زرداری نے ملٹری کورٹس کے قیام کے حوالے سے اپنی پارٹی کا دو ٹوک مؤقف بیان کردیا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ ملٹری کورٹس کے قیام کے حوالے سے قانون کی صرف اس صورت میں حمایت کریں گےکہ یہ قانون غلط استعمال نہ ہو۔ اسے سیاست دانوں، صحافیوں اور دانشوروں کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ کہیں وہ خود اور میاں محمد نواز شریف جیل نہ چلے جائیں کیونکہ اس طرح کا قانون جب پہلے آیا تھا تو وہ جیل میں تھے۔ یہ بات آصف علی زرداری نے کہہ تو دی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملٹری کورٹس سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں؟ اس سوال کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی آصف علی زرداری کا خدشہ بلاجواز ہے۔ اگرچہ آرمی چیف جنرل راحیل کے حوالے سے یہ بیان شائع ہوا ہے کہ ملٹری کورٹس میں صرف ان مقدمات کا فیصلہ کیا جائے گا، جو وفاقی حکومت ان کورٹس کو بھیجے گی لیکن وفاقی حکومت کیا مقدمات میں اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں ’’بلے‘‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ پشاور کے سانحہ پر انہیں بہت دکھ ہوا ہے لیکن 18 اکتوبر 2007ء کو شاہراہ فیصل پر بم دھماکے میں چار سو بچے شہید ہوگئے۔ اگر اس وقت ’’بلا‘‘ آپریشن کرنے کا فیصلہ کرتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ آصف علی زرداری کی اس بات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جن قوتوں نے پہلے آپریشن نہیں کیا تھا، وہ کون تھیں اور اب آپریشن کرنے والی قوتیں کون ہیں۔ آصف علی زرداری نے یہ بات بھی کہہ دی کہ ’’بلا‘ ضمانت پر ہے۔ وہ کبھی فوج کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی سیاست کرتا ہے۔ اگر بلّے کو سیاست کرنی ہے تو وہ فوج کو چھوڑ دے ورنہ فوج اس کے بارے میں بتائے کہ وہ کیا کررہا ہے۔ آصف علی زرداری کی یہ بات انتہائی معنی خیز ہے۔ انہوں نے ’’بلّے‘‘ کا فوج سے تعلق پیدا کیا ہے اور ’’بلےّ‘‘ کی سیاست کو فوج سے الگ کرنے کی بات کی ہے۔ آصف علی زرداری کی اس بات سے یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ کیا ’’بلا‘‘ کوئی بڑی منصوبہ بندی کررہا ہے اور کیا اس منصوبہ بندی میں فوج کی پوزیشن واضح کرنا ضروری ہے۔ آصف علی زرداری کے خطاب سے پہلے ’’بلے‘‘ کی سیاست پر کبھی کسی نے اس قدر سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا۔
گڑھی خدا بخش میں آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں مذکورہ بالا دو باتیں کرکے پاکستان کی مستقبل قریب کی سیاست کے بارے میں خدشات اور قیاس آرائیوں کو بھی تقویت پہنچائی ہے اور انہوں نے ملک کی سیاسی اور جمہوری قوتوں کو ایک طرح سے متنبہ بھی کردیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اعلان کے بعد پاکستان کی سیاست میں کئی نئے امکانات پیدا ہوگئے ہیں، جو اس جنگ سے پہلے نہیں تھے۔ آصف علی زرداری کی ان باتوں کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے بھی آصف علی زرداری نے تین مختصر باتیں کی ہیں لیکن تینوں باتوں میں کئی سوالات چھوڑ دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگوں نے ان کے اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات کے حوالے سے افواہیں پھیلائی ہیں لیکن پیپلز پارٹی افواہوں کے سمندر اور تیز ہوائوں میں بھی زندہ رہی۔ اپنے اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات کی افواہوں کے بارے میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کی۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اختلافات نہیں ہیں تو ان کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی اور کیا اختلافات کے حوالے سے صرف بات اتنی ہی کرنا تھی جس سے پارٹی کے کارکن بھی مطمئن نہ ہوسکیں؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بلاول بھٹو زرداری برسی کی تقریب میں کیوں شریک نہیں ہوئے؟ آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مخدوم امین فہیم نے پارٹی سے کبھی غداری نہیں کی اور انہیں امید ہے کہ مخدوم صاحب کبھی غداری نہیں کریں گے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مخدوم امین فہیم محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریب میں خود شریک ہوئے اور انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑیں گے تو کیا آصف علی زرداری کو مخدوم امین فہیم کے حوالے سے ان الفاظ اور اس طرح کے لہجے میں بات کرنی چاہئے تھی؟ مخدوم امین فہیم کے مختصر خطاب میں بھی ازخود کئی سوالات موجود تھے۔ آصف علی زرداری نے ایک اور اہم بات بھی کی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے گیارہ سال جیل کاٹی۔ ان کی سیاسی تربیت محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی۔ گیارہ سال کی جیل کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں پارٹی قیادت سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی۔ (وہ دراصل محترمہ بے نظیر بھٹو کی وصیت کا حوالہ دے رہے تھے۔) ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح کی ذمہ داری بڑی تکلیفیں جھیلنے کے بعد ملتی ہے۔ اس بات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری کو پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لئے اپنی قربانیوں اور تکالیف کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کیا ان کی قیادت کو کسی نے چیلنج کیا ہے؟ آصف علی زرداری نے یہ بات بھی کہی کہ انہیں گڑھی خدا بخش میں دفن ہونا ہے۔ گڑھی خدا بخش کے بغیر کوئی پارٹی، کوئی قیادت، کوئی سوچ یا کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن گڑھی خدا بخش کے بغیر کسی چیز کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس سے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارٹی کی قیادت گڑھی خدا بخش سے باہر جانے کی بات ہورہی ہے؟ مختصر خطاب میں بہت سی باتیں غیر متوقع اور معنی خیز ہیں اور ان باتوں میں بہت سے سوالات اور خدشات بھی ہیں۔ اس خطاب کے تناظر میں پاکستان کی سیاست کا نیا منظر نامہ سامنے آرہا ہے۔
تازہ ترین