• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا پیارا وطن دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال ہے۔ مادی وسائل، بہترین موسم، دریا، پہاڑ، صحرا، بندرگاہیں، میدان، لہلہاتے کھیت، ہر قسم کے پھل اور میوہ جات، اناج، غلہ، گرما، سرما، خزاں، بہار، کون کون سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس وطن کی صورت میں عطا نہیں کی ہیںاور ہم بنی اسرائیل کی قوم کی طرح ہر قد م پر رب العزت کی نا شکری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ چھیاسٹھ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ہم کوہلو کے بیل کی طرح مسلسل دائرے میں چکر لگا رہے ہیں اور منزل ہر لحظہ ہم سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ معاشی نظام پہلے سے ظالمانہ صورتِ حال کی عکاسی کر رہا ہے ۔ عوام خوشحال ہونے کی بجائے غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ صد حیف !کہ اس وقت ہماری نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ کراچی ، لاہور ، اسلام آباد ، فیصل آباد و پشاور کی چکا چوند روشنیوں کو دیکھنے کی بجائے کاش ہم جنوبی پنجاب ، چولستان ، تھل اور تھر کے ساتھ ساتھ بے آب و گیاہ بلوچستان کے وسیع و عریض علاقہ (جس میں غربت زدہ بلوچیوں ) کی طرف توجہ مرکوز کرتے ۔ اس بار ہم تھر کی غربت ، قحط ، پیاس ، بھوک ،بے بسی اور اسکے منطقی نتیجے کے طور پر وہاں کے بسنے والے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کی اموات سے پیدا ہونیوالی سنگین صورتحال پر لکھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ اموات قدرتی آفات کا نتیجہ ہیں؟ یا ہماری غیر منصفانہ ، غیر محب وطن معاشی پالیسیوں، سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی سنگدلی، بے حسی، بدانتظامی ، کرپشن اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں؟ ذمہ داران سے جب بھی مادرِ وطن کے تھر واسیوں کی زبو ںحالی پر سوال کیا جائے تو اسے محض موسمی خرابی ، بارش کی کمی، نمکین اور کڑوے پانی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ کیا کڑوا پانی انہیں اس سال ہی ملتا تھا۔ یا صدیوں سے وہ یہ کڑوا پانی پی رہے ہیں۔ اور پھر قیامِ پاکستان سے لے کے آج تک اس کڑوے پانی ( جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے) کا نعم البدل میٹھا پانی مہیا کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سلسلہ میں آج کے سائنسی دور میں میٹھے پانی کی فراہمی کیا کوئی کارِ دارد ہے؟ یا محض نیت کی خرابی اور کمیشن خوری کی ہوس جس میں حکومت اور خود اس کی بیوروکریسی بری طرح لت پت مردار خور گِدھوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تھر کے موجودہ بے بسی پر مبنی حالات جس میں غربت،جہالت، بیماری، غیر صحت مندانہ ماحول ، بے روزگاری، اموات، بھوک اور پیاس جیسے گھمبیر شرمناک مسائل تھر کی زمین پر ماتم کناں ہیں۔ ان مسائل کے حل میں گورننس کس حد تک ذمہ دار ہے؟ تھر (22000مربع کلومیٹر پر محیط)صوبہ سندھ کا وسیع و عریض ضلع ہے۔ جو تھر کول اور نگر پارکر کی پہاڑیوں میں مدفن معدنیات سے مالا مال ہے۔ جو نہ صرف تھر بلکہ صوبہ سندھ اور پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ تھر میں امسال 2014ء میں ہونے والی اموات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نوزائیدہ بچوں اور مائوں میں موجود غذائی قلت کی بنا پر اموات شرمناک حد تک بڑھتی سطح کو چھو رہی ہیں۔ گزشتہ 93 روز میں مرنے والے بچوں کی تعداد 300سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور یومیہ پانچ سے دس اموات ہر صاحب فکر اور صاحب دل پاکستانی کیلئے سوالیہ نشان ہیں۔ وائرل انفیکشن اور غذائی قلت کی بنا پر 5000 سے زائد بھیڑ بکریوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ جس کے تدارک کیلئے تھر کی تقریباً نصف آبادی بشمول جانوروں کے پانی کی تلاش میں بیراج کے نزدیکی علاقوں میں ہجرت کر چکے ہیں۔ صحرائی دنیا کی حسین ترین مخلوق ’’مور‘‘ بوند بوند پانی کی پیاس اور بھوک کی وجہ سے گزشتہ تین سالوں سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ گوداموں میں پڑی گندم پڑی کی پڑی رہ گئی۔ صاف پانی کی ہزاروں بوتلیں بغیر تقسیم کیے گوداموں کی زینت بنی رہیں اور زائدالمیعاد ہوگئیں۔ جو گندم تھر واسیوں میں تقسیم کی گئی اس میں مٹی کی مقدار برابر شامل تھی۔ حکومت سندھ کی جانب سے ادویات کی خریداری کے لئے مختص جو 50 ملین روپے دیئے گئے اس میں سے 21.4ملین روپے کا ادویات کی بجائے فرنیچر خریدا گیا۔ جو محکمہ اینٹی کرپشن کے زیرِ تفتیش ہے۔ پانچ موبائل ڈسپنسریز کی عوامی خدمات میں کارکردگی کی بجائے ڈپٹی کمشنر تھر کا اسے ذاتی اے ۔سی کار کے طور پر استعمال میں لانا چہ معنی دارد !لاکھوں روپوں کی سرکاری گرانٹ کی موجودگی میں مٹھی ڈپلو اور نگر پارکر کی واٹر سپلائی لائن کا بحال نہ کرنا انتظامی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر تھر اور ڈپلو کے دفاتر میں گندم کی تقسیم اور آر او پلانٹس کی تنصیب میں پائی جانے والی نا انصافیوں ،اقرباء پروری اور ناجوازیوں کے خلاف ہزاروں درخواست ہائے کا دائر کیا جانا انتظامی ناکامی ، غیر ذمہ دارانہ ، غیر منصفانہ سیاسی گٹھ جوڑ کا آئینہ دار ہے۔ غیر جانبدارانہ تحقیق سے یہ امر واضح ہوا کہ تھر کے بدترین حالات کو بہتر بنانے کے لئے حکومت سندھ اگرچہ دیر سے بیدار ہوئی مگر کہیں کہیں سنجیدہ بھی نظر آئی۔
لیکن افسوس بہتر نتائج برآمد نہ ہو سکے اور قوم کو اپنے غذائی قلت کا شکار پھول جیسے بچوں کی اموات کی خبریں ہر پہر اور ہر روز پہلے سے زیادہ بد تر حالت میں قوم کو سنائی دیں۔ ذمہ دار ان ،افسران اور سیاسی شخصیات کے آپس کے گٹھ جوڑ کی بنا پر حکومت کی طرف سے مختلف مدآت میں آنے والی رقوم بری طرح خورد برد کرتے ہوئے کمیشن خوری کی نظر ہوتی رہیں۔ تھر کی چھ تحصیلوں کے اندر صحت کی سہولتوں کا بدترین فقدان ہے ۔ ان چھ تحصیلوں میں مختلف محکمہ جات کی افسران اور ملازمین کی تعداد دس ہزار سے بھی زائد ہے۔ جو پاکستان کے غریب ترین ضلع کی مالیات پر بھاری بوجھ ثابت ہورہے ہیں کیونکہ ان کی بے حسی اور غیر انسانی طرزِ عمل نے عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ افسوس کہ تھر کی موجودہ صورتحال پر گورننس کے نقطہ نظر سے کسی بھی سول سروس نے کبھی سوچا تک نہیں کہ اس علاقے کی سسکتی ہوئی زندگی کو موت کے منہ میں جانے والی جانوں اور افلاس کی بنا پر عبرت ناک انجام تک پہنچنے والے انسانوں کو کس طرح بہتر معیارِ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
ہمیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ جو کام سندھ حکومت کو کرنے چاہئیں تھے وہ پنجاب کی سول سروس کے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل احمد خاور شہزاد نے کئی ماہ کی عرق ریزی کے بعد ہمیں بتائے جو حکمرانوں اور عوام کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ انہوں نے نہایت محنت، جانفشانی، جذبۂ حب الوطنی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا بروقت احساس کرتے ہوئے تھر پر غیرمعمولی اور ٹھوس تحقیق کی جو آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ ہم ان کی تحقیق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے‘ ہم ان کی اس کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس میں انہوں نے حالات و واقعات کا نہایت معروضی انداز میں تجزیہ کیا اور تھر کی بے بس زندگی کو خوشنما زندگی میں تبدیل کرنے کیلئے قابل عمل ٹھوس اقدامات کی سفارشات بھی پیش کیں۔
تازہ ترین