• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابرا ر الحق بچپن سے ہی بہت ذہین تھا ۔ تیسری جماعت میں تھا کہ اس کی کلاس ٹیچرگھر آئی ۔اوپر سے مس کو نیچے دروازے پر کھڑا دیکھ کراس نے گھر والوں کو بتایا "Missunderstanding" ۔ اسکول میں کلاس ٹیچر جب بھی کوئی سوال کرتا یہ سب سے پہلے ہاتھ کھڑا کر دیتا اور پھر جب یہ فارغ ہو کر آتا تو سوال کا جواب دیا جاچکا ہوتا۔ایک بار ٹیچر نے اسے رونگٹے کھڑے ہو نا اور کلنک کا ٹیکہ کو جملوں میں استعمال کرنے کو کہا ۔ابرار نے دونوں الفاظ کو بالترتیب کچھ اس طرح جملوں میں استعمال کیا ۔گھر کی گھنٹی بجنے پر جب میں نے دروازہ کھولا تو باہر رونگٹاکھڑا ہوا تھااور ایک دن جب میں ا سکول سے واپس آیا تو محلے میں کلنک کے ٹیکے لگ رہے تھے ۔ابرار کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا۔بچپن میں اس نے کچھ کیسٹیں بھی ریکارڈ کیں۔مگر اس کے والد جو موسیقی کے سخت خلاف تھے ۔ اُنہوں نے ایک دن سب کیسٹیں ضائع کردیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پورا پاکستان چاہے بھی تو والد محترم کا یہ احسان نہیں اتار سکتا۔ بہت پہلے جب مردوں کی عابدہ پروین ،عطاء اللہ نیازی کو ایک شو کے 50ہزار ملے تو ابرار الحق بولا یہ کونسی بڑی بات ہے ۔مجھے تو بچپن میں اس سے بڑی آفر ہو چکی ہے ۔
تحقیق پر پتہ چلا کہ واقعی ابرار کواس سے بڑی آفر ہوئی تھی ۔مگر گانا گانے پر نہیں،گلوکاری ترک کرنے پر ۔ گلوکاری سے پہلے اِسے کوئی نہیں جانتا تھا۔اب لاکھوں لوگ اس کی عزت کرتے ہیں ،جس سے لگتا ہے کہ اب بھی اِسے کوئی نہیں جانتا ۔ابرار اور نسوار وہ نشہ ہے جسے سننے اور منہ میں رکھنے کیلئے بھی بندے کا نشے میں ہونا ضروری ہے ۔ ایک دوست کا خیال ہے کہ اگر آپ تھوڑی دیر کیلئے خوش ہونا چاہتے ہیں تو ابرارالحق کو سنیں اور اگر زیادہ دیر خوش رہنا چاہتے ہیں تو نہ سنیں۔اس کے تین کارنامے بڑے کمال کے ہیں۔ ’’کنے کنے جانا ایں بلو دے گھر ، بلو آن جی ٹی روڈ ،بہہ جا سائیکل تے ، مال ومال ، نعرہ ساڈا عشق اے اور تیرے رنگ رنگ‘‘او پر نیچے 6سپرہٹ کیسٹیںدوسرا صغر ا شفیع اسپتال اور تیسرا فوج میں بے حساب رشتے دار۔ایک بار جب وہ اپنے فوجی رشتہ دار گنوارہا تھا تو ایک گھنٹے کے بعدمجھے کہنا پڑا یہ تو ختم نہیں ہوں گے، مجھے ان چند افسران کے نام بتا دو جو تمہارے رشتہ دار نہیں ہیں۔ اِسے اپنے جٹ ہونے پر فخر ہے ۔ شناختی کارڈ پر مونچھوں والی تصویر کے ساتھ ابھی بھی اس کا نام چوہدری محمد ابرارالحق کاہلوں ہے ۔ ہم اسے ’’سریلا اور جوکیلاجٹ ‘‘ کہتے ہیں ۔جوکیلا انگریزی کے (Joke)کاپنجابی ترجمہ ہے اور ابرار اس طرح کی ’’تخلیقی وارداتیں ‘‘ کرتا رہتا ہے ۔ کبھی وہ ایچی سن میں پڑھاتا تھا اگر وہیں رہتا تو بہت ترقی کرتا یہ وہاں نہیں رہا تو ایچی سن ترقی کر گیا۔ مزاروں کا بہت احترام کرتا ہے ۔ایک بار مزار کے احاطے میں داخل ہوتے ہی بولا ’’آہستہ چلنا مزار شریف پر نیا نیا رنگ شریف ہوا ہے ‘‘۔ ویسے تو یہ بڑا صلح جو اور معاملہ فہم ہے لیکن ضد پر آجائے تو غلط ہونے کے باوجود مہینوں اپنی رائے اپنے لباس کی طرح نہیں بدلتا ۔
ڈاکٹر یونس بٹ کا کہنا ہے کہ’’ بندہ ایک ماہ ہاسٹل میں رہے تو اُسے ہر عورت خوبصورت لگنے لگتی ہے اور ایک سال رہے تو ہر خوبصورت چیز عورت لگنے لگتی ہے‘‘۔ لیکن یہ بہت شرمیلا ہے کہ ابھی تک کسی کے سامنے عورت کا ’ایکس رے ‘نہیں دیکھ پاتا ،لہٰذا تنہائی میں دیکھتاہے ۔ با توں باتوں میں ہر کسی کو شیشے میں اتار لیتا ہے(ہرکسی سے مراد عورت ہی ہے )مگر نیک اتنا ہے کہ عورتوں کی موجودگی میں جوتوں سے آگے کچھ نہیں اتار سکتا ۔جوتوں سے یاد آیا کہ پانچ وقت کا نمازی ابرار جوتے گاڑی میں رکھ کر مسجد ننگے پاؤں جاتا ہے ،وجہ پوچھی تو کہنے لگا نماز پڑھتے ہوئے جوتا آگے رکھنے سے نماز نہیں ہوتی اور پیچھے رکھنے پر جوتا نہیں ہوتا ۔جیسے ایک مرتبہ استاد احسان دانش نے اختتام مشاعرہ پر جب جوتا تلاش کرنے میں کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تو خالد احمد بولے’’ استاد آپ جوتا تلاش کر رہے ہیں یا پسند کر رہے ہیں‘‘۔ ابرار الحق نے تحریک انصاف جوائن کی تومیرا ایک دوست بولا گلوکار کا سیاست میں آنا ایسے ہی ہے جیسے قوال خود وجد میں آجائے ۔
اس کے آنے سے پہلے تحریک انصاف کو اچھا سمجھنے کی واحد وجہ عمران خان تھا۔اس کے آنے کے بعد یہ وجہ واحد سے جمع ہوگئی ہے۔اب دعا ہے کہ یہ وجہ کبھی تقسیم نہ ہو ۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ آج ملک بچانے کی خاطر جولوگ جو ق در جوق عمران خان کے ساتھ مل رہے ہیں وہ پہلے کہاں تھے۔دوست بولا پہلے یہ سب انہی کے ساتھ تھے کہ جن سے آج یہ ملک بچا رہے ہیں ۔ ابرا ر الحق کو تحریک انصاف جوائن کر لینی چاہئے تھی کیونکہ اب وہ عمر کے اس حصے میں ہے کہ جہاں بندہ کرینہ کپور کے پاس جا کر بھی صرف ووٹ ہی مانگتا ہے۔ایک وقت تھا ابرارالحق گانے گایا کرتا تھا لیکن اب اسٹیج پر آکر لطیفے سناتا ہے۔لہٰذا پہلے جو گانوں پر ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہو جایا کرتے تھے۔اب وہی بڑی سنجیدگی سے سب لطیفے سن رہے ہوتے ہیں۔ اس کی حسِ مزاح کمال کی ہے۔
ایک مرتبہ کہنے لگا اگر تمہیں کتے اور کتیا میں فرق معلوم کرنا ہو تو ایک پتھر مارو اگر بھاگا تو وہ کتا ہو گا اور اگر بھاگی تو کتیا ہو گی۔ ایک بار اسلام آباد ائیر پورٹ پر ایک لڑکے سے منہ ماری ہوگئی۔اب لڑائی میںمکالمہ بازی کچھ اس طرح سے ہوئی۔لڑکا:کھڑا کھڑا تجھے تماشہ بنا دوں گا۔ابرار :کیوں مداری ہے تو ۔لڑکا : تیرے دانت نکال کر ہاتھ میں پکڑا دوں گا ۔ابرار: کیوں ڈینٹسٹ ہے تو۔لڑکا : ایسی پھینٹی لگاؤں گا کہ سب کچھ ہضم ہو جائے گا۔ابرار: کیوں ہاجمولا ہے تو ۔لڑکا : اب انگلی اٹھائی تو میرا ہاتھ اٹھ جائے گا ۔ابرار: کیوں بھکاری ہے تو۔لڑکا : ایک لات ماری تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے ۔ابرار: کیوں گدھا ہے تو ۔لڑکا ( تنگ آکر) جاتجھے چھوڑ دیا۔ ابرار: کیوں جیلرہے تو۔
میرا ایک دوست کہتا ہے کہ گزشتہ چار سال سے ابرارالحق فن کی بہت بڑی خدمت کر رہا ہے۔میں نے پوچھا کیسے ،کہنے لگا نئی البم میں دیر کر کے ۔ چند ماہ پہلے ایک شاپنگ مال میں ایک لڑکا مسلسل خواتین کو گھورے جا رہا تھا ۔ابرار نے اُسے اپنی نظروالی عینک پیش کر دی ۔حیران وپریشان لڑکے نے شکریہ ادا کرنا چاہا تو ابرار بولا ’ ایک گھنٹے سے ہر عورت کو خراب نظروں سے گھوررہے ہو اس سے تو بہتر ہے کہ تم عینک ہی پہن لو ‘‘۔ مگر اب ابرارالحق نظر والی عینک بڑی سنبھال کر رکھتا ہے ۔کیونکہ اس کی شادی ہوگئی ہے ۔
بقول سرفراز شاہد :۔
جب سے عینک لگی ہے نظر والی
زہر لگتی ہے مجھ کو گھر والی
ویسے بھی شادی اس وقت مشکل میں ہوتی ہے جب آپ کی بیوی یہ کہے کہ آپ کو تو بس ایک ہی چیز میں دلچسپی ہے اور آپ کو یاد نہ آئے کہ وہ کونسی چیز ہے ؟ ایک کہاوت ہے کہ لو میرج ہو تو بندہ اپنی گرل فرینڈ سے شادی کرتا ہے اور لو میرج نہ ہوتو کسی دوسرے کی گرل فرینڈ سے ۔ ابرار کہتا ہے کہ کنفیوژن سے بچنے کیلئے دونوں سے کر لینی چاہئے ۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ابرارالحق سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا ’’کامیاب شادی کیلئے دو چیزیں بہت ضروری ہیں ایک تو بیگم سے جو بھی وعدہ کرو پورا کرو اور دوسرا بیگم سے کوئی وعدہ ہی نہ کرو‘‘۔ ایک بار بڑا سیانا سا منہ بنا کر بولا’’بیوی اگر ساتھ ہو تو صبر کرو اور اگر ساتھ نہ ہو تو شکر کرو‘‘۔
عمران خان کی دوسری شادی کی افواہوں پر چند دن پہلے جب میں نے اِسے کہاکہ اس عمر میں شادی کرنا ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی اور کے پڑھنے کیلئے کتاب خرید لیں یا چوک میں نلکا لگوا دیں ۔کہنے لگا ’’کسی دھوکے میں نہ رہنا کپتان Magically مکمل فٹ ہے ‘‘۔ دوستو! مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ابرار الحق اگر لاہور میں ہو تو اکثر ساری ساری رات ماں کی قبر پر ہوتا ہے، لاہور سے باہر ہوتو کسی درگاہ یا کسی مسجد کے تاریک کونے میں بیٹھا ملتا ہے اور سب سے چوری تہجد سے سورج نکلنے تک نماز اور تسبیحات میں لگا رہتا ہے ۔لیکن ابرار الحق کو جب ایک دن میں نے اللہ تعالیٰ سے بچوں کی طرح فرمائشیں کرتے سنا، ایک روز مسجد نبوی میں حضور ؐ کی محبت میں چیخیں مارمار کر روتے اور ایک شام مولانا طارق جمیل کے سامنے قبر کے خوف سے تھر تھر کاپنتے دیکھا ،تب سے تو مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی بھی ہوتی ہے اور فخر بھی کہ روضہ رسول ؐ کے اندر جا کر درودوسلام کی سعادت حاصل کرنے والا ابرار الحق میرا دوست ہے ۔
تازہ ترین