• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
5؍ جنوری 2015ء !
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 87ویں سالگرہ منائی گئی!
پاکستان کے خونریز ماحول کی تند رو سرخ آندھیوں میں عظیم لیڈر کی سالگرہ زندگی کے پیغام، تاریخ کی صداقت اور بھٹوز کے قدرتی جینز کی صدائے صداقت سے لدی پھندی تھی۔ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے علمبرداروں سے لے کر روس کے ’’فاتحین‘‘ تک ’’روس کے فاتحین‘‘ سے لے کر افواج پاکستان اور دوسرے ریاستی اداروں کے جانبازوں سمیت مذہبی دہشت گردی کا شکار تقریباً 82000 پاکستانیوں کو ’’شہید‘‘ قرار نہ دینے کے والے ’’اقامت دین‘‘ کے ’’مدعیوں‘‘ تک گزرے‘‘ یہ قریب قریب 35برس‘‘ اس سالگرہ کی عدالت میں ملت اسلامیہ پاکستان کے لہو اور زوال کا کشکول پکڑے، سوالیہ نشان بنے کھڑے تھے! ملت اسلامیہ پاکستان کے لہو اور زوال سے بھرا یہ کشکول پاکستان میں خود ساختہ مذہبی تعبیروں اور دہشت گردی سے جنم لیا ہوا نشانِ عبرت ہے!
عظیم مفکر، اسٹیٹس مین اور قومی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی 87ویں سالگرہ کے اس لمحے میں ہم ان راہوں کے شناختی سفر پہ روانہ ہو سکتے ہیں جن راہوں کا اس رہنما نے تذکرہ کرتے ہوئے اس خوار و زبوں قوم کو خبردار کیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کوٹھڑی سے اطلاع دی تھی!
’’حالات بڑی سنگدلی کے ساتھ حتمی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کا انجام انتہائی بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ اسپین بھی اس طرح کے تصادم سے دوچار ہو چکا ہے۔ چالیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہسپانوی عوام کو اس وقت کی یادیں ایک ڈرائونے خواب کی طرح آج بھی ڈراتی ہیں، اسپین آج بھی ان زخموں کی وجہ سے لڑکھڑا رہا ہے۔ مغربی مورخ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسپین سے اسلام کا نام مٹانے میں فرڈنینڈ اور ازا بیلا کا ہاتھ ہے۔ اسلام اپنے غرناطہ تک اس وجہ سے پہنچا کہ مسلم دمشق نے غداری کی اور اس کے خلاف حسد سے کام لیا تھا۔ اسپین پاکستان کو دو طرح سے انتباہ کرتا ہے۔ ان میں سے ایک انتباہ فوج اور عوام کے درمیان متوقع تصادم کے بارے میں ہے اور دوسرا اس اسلامی ریاست کے خاتمے کے متعلق ہے۔ ہسپانوی کہتے ہیں ’’اسپین زندہ باد‘‘ جبکہ پاکستانی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کہتے ہیں۔ پاسق اور اندلس اسپین ہیں بلوچستان اور سندھ کی طرح ہیں!‘‘
’’فوج کا منتخب حکومت کا تختہ الٹنا ایک ناخوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ یہ اپنے پیچھے ایک خوفناک ورثہ چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی پاک سرزمین فوجی بغاوتوں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ اگر فوجی بغاوتیں سیاسی ڈھانچے کا مستقل حصہ بن جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرجھائے ہوئے پھول کی آخری پتی بھی نیچے گر جائے گی، اس کا مطلب ہو گا ایک مکمل خاتمہ! بہت سی قومیں لافانی زمانے سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں حتیٰ کہ ابدی قومیں اس قسم کی مہم جوئی اور غلط مہم جوئی سے خود کو خطرے میں نہیں ڈال سکتیں۔ دو عالمی جنگوں کے بعد آزاد ہونے والی ریاستیں بھی اپنے اتحاد کے ساتھ اس قسم کا جواء نہیں کھیل سکتیں۔‘‘
’’میرے نزدیک پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس المعروف پاکستان قومی اتحاد) کی تشکیل حیران کن نہیں تھی۔ میں ماضی کی مثالوں کو دیکھتے ہوئے اس کی توقع کر رہا تھا۔ جب میں مورخہ 23؍ اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہا تھا تو میں نے کہا تھا:
’’یہ دیسی یا علاقائی سطح کی سازش نہیں ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بہت گہری اور بڑی سازش ہے‘‘ میں بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا اور بعد میں ہونے والے واقعات بھی اس سازش کو ثابت کرتے ہیں انہوں نے صحیح وقت پہ کاری ضرب لگائی ہے۔ اور مزید یاد کرو، ذوالفقار علی بھٹو، بطور پاکستانی قائد ہماری ذات، ہماری دھرتی اور ہمارے مستقبل کے لئے جرأت اور امید کا کیسا استعارہ تھا، اس کے بیانئے سے ہمارے خون میں حیات نو کے ولولے ٹھاٹھیں مارنے لگتے، آج اس کے ان لفظوں کو ایک بار پھر خود پہ وارد کر کے دیکھو، تم پر کیا گزرتی ہے؟ بھٹو کی آواز آ رہی ہے۔
’’نکتہ یہ ہے کہ اس امر کو تلاش کیا جائے کہ کیا دھوکہ دہی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کیا صرف ایک شخص سے خدا کی طرف سے ودیعت کردہ اور عوام کی طرف سے تفویض کی گئی عزت اور صلاحیتوں کو چھیننے کے لئے دھوکہ بازی کا معمار، دغا بازی کا استاد، شر کا سودا گر بننا اور گمراہی کا لبادہ اوڑھ لینا ضروری ہے؟ میرا مقام ستاروں پر رقم ہے۔ میرا مقام بندگانِ خدا کے دلوں میں ہے۔ آج پاکستان کے عوام اپنے آپ کو تنہاء اور کٹا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے مسائل اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ ان کے دکھ انتہاء کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ میرے لئے بے قرار ہیں، وہ میری قیادت کی ضرورت کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ میں ان کی کمی محسوس کر رہا ہوں اور ان کے لئے میرے احساسات کی انتہاء کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
میں کسی ایسی کارروائی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا جس سے میری محبوب دھرتی کے عوام کو ذرہ بھر تکلیف پہنچے۔ وقت ہی بعد میں بتائے گا کہ کس نے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچایا۔ بعد میں کیوں؟ وقت نے ابھی بتانا شروع کر دیا ہے۔
’’سازشیوں نے افلاطون کے ’’فلسفی بادشاہ‘‘ کو ہٹا دیا۔ اس ٹولے نے ارسطو کے ’’سیاسی حیوان‘‘ کو ہٹایا۔ شکاری کتوں نے کارلائل کے ’’ہیرو‘‘ کو ہٹایا۔ انہوں نے سٹیج کو مسخروں اور بھانڈوں سے بھر دیا اور ابھی تک وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کی سلامتی کا ذکر کر رہے ہیں؟‘‘
’’ہمارے جیسا ملک جو اپنے بے شمار مسائل کی طرح انتہائی پیچیدگیوں کا حامل ہے ایسی احمقانہ اور مہلک غلطیوں کے تال میل سے نہیں چلایا جا سکتا جن کی وجہ سے یہ حکومت اپنے مختصر اور تاریک دور کے دوران بدنام ہو چکی ہے… دستور کو عجائب گھر میں ڈال دیا گیا ہے اور کوڑوں کو پارلیمنٹ کا متبادل بنا دیا گیا ہے… معیشت کو رہزن وڈیروں اور لٹیرے مڈل مین کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔‘‘
’’لوگوں کے دلوں میں اتنی محبت اور عقیدت ایک گہنگار سیاستدان کے لئے نہیں ہو سکتی۔ یہ سب ایک ایسے شخص کے لئے تھا جسے اس کے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی۔ مجھے وہ لمحہ یاد ہے کہ جب ہماری جیپ گائوں سے روانہ ہوئی۔ میرے کانوں میں جئے بھٹو کے نعرے گونجتے رہے اور یہاں تک کہ ہم ان نعروں کی دسترس سے دور نکل آئے۔ شاید یہ سچ تھا کہ میں اس دھرتی کے لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا اور اس طرح کا منظر دوسروں کے لئے ایک انوکھی چیز تھی۔ ہو سکتا ہے کہ دوسروں کے لئے یہ ایک فرسودہ جملہ ہو جب میں یہ کہتا ہوں کہ ’’میں ہر گھر اور بارش میں ٹپکنے والی چھت کے نیچے بولا جانے والا لفظ ہوں۔ میرا رشتہ اس دھرتی کے پسینے اور دکھ سے ہے۔ لوگوں کے ساتھ میرے ابدی تعلق کو فوجیں کبھی نہیں توڑ سکتیں… پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی میرے پیروں کے نشان نظر آتے ہیں۔ میرے نشان ہر اس اینٹ اور گارے پر ہیں جو اس ملک کی تعمیر نو بلکہ تعمیر میں استعمال ہوا۔‘‘
اور اب ذوالفقار علی بھٹو کے اس بیانئے کو آنکھوں کی تپش، دلوں کی حسرت، ذہنوں کی ناتمامیوں اور خوابوں کی مسماریوں کے دریچوں میں سجا لو جس میں تم، میں، ہم سب پاکستانی اپنا حال، اپنا پاکستان، اپنا معاشرہ، ابلتا، لڑھکتا اور پھسلتا دیکھ رہے ہیں، اس نے کہا کہ بلکہ شاید ’’فرمایا‘‘ تھا؟
’’یحییٰ خان پاکستان کو ایک دفعہ توڑنے کا ذمہ دار تھا۔ پاکستان کو دوسری دفعہ توڑنے کی ذمہ داری ضیاء الحق پر ہو گی… عوام کو ایک دھچکا لگانے کی ضرورت تھی۔ برطانوی سامراج کی غلامی کے وارث اس دھچکے کے لئے شکر گزار ہیں جو نہ تو کرزن نے نہ ہی ویول نے دیا۔ وہ ان کوڑوں اور ایذا رسانی کے بھی شکر گزار ہیں جنہیں نہ تو لنتھیگو اور نہ ہی ڈلہوزی نے روا رکھا، اس سے بڑھ کر وہ اس تذلیل کے بھی شکر گزار ہیں جو صرف ہڈسن اور نکلسن نے ہی کی، ملک سے انتقام لینے کی یہ عظیم الشان کارکردگی ہے!
اور یہ بیانیہ، ایک ماتمی جلوس کے روپ میں یہاں پہ خاموش ہوتا ہے:
’’ملک میں موجودہ صورتحال بالکل مختلف ہے۔ عوام بیمار ہیں اور مارشل لا سے اکتا چکے ہیں۔ پہلا مارشل لا ان کے لئے ایک ’’امید‘‘ تھا، دوسرا مارشل لا ایک ’’المیہ‘‘ تھا اور تیسرا مارشل لا ایک ’’تماشا ‘‘ ہے اور چوتھے مارشل لا کو مسلط کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہے گا۔
مجھے ’’ماڈرن میکاولی‘‘ کا نام دیا جاتا رہا ہے لیکن اس ماڈرن میکبتھ کے متعلق کیا خیال ہے جو سزا ملنے کے خوف سے جان بوجھ کر ایسی خونین اور غلط راہ پر چل نکلا ہے جہاں سے واپسی نہیں ہو سکتی، میرا وقت جیل میں گزر جائے گا، آپ کا وقت دفتر میں گزر جائے گا، تاریخ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں، ان کو بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘
تاریخ کے فیصلے کی گھڑیاں پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سر پر کھڑی ہیں۔ بھٹوز روایت شکنی، بغاوت، تخلیق، ترقی پسندی، لبرل ازم، جدیدیت، شجاعت ونڈری، علم و ارتقاء تصنیف و تالیف، شاعری اور تاریخ کا گہوارہ، علامت، کیریئر اور ثبوت ہیں، وہ بھٹوز نہیں ہیں جو سلمان تاثیر کی برسی پر ان مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ نہ کسی چوک نہ کسی کونے میں، کندھے سے کندھا ملاتے ہیں جنہوں نے مرحوم گورنر کے قاتلوں کے خلاف، استطاعت بھر احتجاجی جلوس نکالے نہ وہ پیپلز پارٹی ہے؟ پھر تاریخ کا کوئی دوسرا پہیہ بھی ہے؟
تازہ ترین