• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا نہیں ہے۔ آج کا دن مبارک نہیں ہے، کسی بھی طرح، وزیراعظم صاحب۔ یہ ایک سیاہ دن ہے، آنے والا وقت بتائے گا۔ آج پارلیمان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیاہے، یا اپنے اختیارات سے ہاتھ دھو لئے ہیں۔ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا۔ ریاست کی اہم ترین دستاویز، آئین، میں اس طرح ترامیم نہیں کی جاتیں۔ ان پر بحث کی جاتی ہے، ان کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا جاتا ہے،آئین کی دوسری شقوں سے ان کا تقابل کیا جاتا ہے، موازنہ کیا جاتا ہے، تب کہیں آئین میں قطع و برید کی جاتی ہے۔ یوں چند گھنٹوں میں آئین کی شقوں کو کسی کے مقاصد کے مطابق صرف آمریت کے ادوار میں ہی ڈھالا جاتا ہے، جمہوری دور میں نہیں۔ آج پارلیمان میں جو کچھ ہوا، اس کے ارکان مستقبل میں اس پرشرمندہ ہوتے رہیں گے۔ عزیز دوست رضا ربانی نے تو اپنی شرمندگی کا اظہار کربھی دیا۔ مگر یہ کافی نہیں ہے۔ ووٹ اگر پارٹی کی امانت تھا تو وہ انہوں نے دے دیا، استعفیٰ تو ان کا اپنا ہے۔ ان حالات میں ربانی جیسے تجربہ کار پارلیمنیٹرین کو اپنا یہ اختیار استعمال کر ہی لینا چاہئے۔وہ کچھ کھوئیں گے نہیں، ان کی عزت میں اضافہ ہی ہوگا، جمہوریت کے لئے ان کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، ویسے بھی پارٹی انہیں مزید کچھ نہیں دے سکتی، نہ دے گی۔ ان جیسے آزاد خیال، جرأت مند لوگوں کے لئے اس طرح کی جماعتوں میں جگہ کہاں ہوتی ہے۔
ہوا کیا ہے؟ عوام کو کچھ بتایا گیا؟ پارلیمان میں ان کے کسی نمائندے کو،یا نمائندوں کی اکثریت کو، علم ہے آئین کی کس شق میں کیا ترمیم کی گئی ہے؟ ان میں سے کسی نے تھوڑی بہت توجہ اس کی باریکیوں پر دی، انہیں اس کا موقع دیا گیا؟ ایسا شاید کچھ بھی نہیں ہوا۔ آئین کی جس شق میں ترمیم کی گئی ہے وہ ایک بنیادی اہمیت کی حامل شق ہے۔ شق 175 میں کہا گیا تھا، آئین بناتے وقت اس کا اہتمام کیا گیا تھا، کہ عدلیہ پانچ سال میں انتظامیہ سے الگ کردی جائیگی۔ یعنی عدلیہ بتدریج انتظامی دبائو سے آزاد ہو جائے گی۔ ملک کی بدقسمتی کہ آ ئین کو بنے ہوئے پانچ برس نہیں ہوئے تھے کہ ملک پر آمریت کے سیاہ سائے چھا گئے ۔ ضیاء الحق نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کی مدت پانچ سال سے بڑھا کر 14سال کردی۔ انہیں بس ایک حکم نامہ جاری کرنا پڑا، اور مارشل لا میں ایسے حکم نامے جاری کرنا بہت آسان ہوتا ہے، روز کا معمول۔ یوں عدلیہ کو انتظامیہ کے دبائو سے آزاد ہونے میں کم از کم چودہ برس لگے، اور اس عرصے میں اس مقصد کے حصول کے لئے سپریم کورٹ کی اپنی تگ و دو بھی شامل رہی۔ پارلیمان نے اس شق کو صرف دو دن میں کافی حد تک معطل کردیا کہ اس کا اطلاق فلاں فلاں الزامات کے تحت چلنے والے مقدمات پر نہیں ہوگا۔ یوں جس کام میں چودہ برس لگے اور جسے آئین میں تحفظ بھی فراہم کیا گیا، اسے لمحوں میں ختم کر دیاگیا۔ کیا پارلیمان کے ارکان نے غور کیا کہ انہوں نے کیا کر دیا ؟ سادہ جواب نفی میں ہے، ورنہ وہ ایسا کیوں کرتے؟
ان ترامیم میں ایسا اور بھی بہت کچھ ہے جس کے معانی ابھی واضح نہیں ہیں۔ جن لوگوں نے اس قانون کا مسودہ تیار کیا انہیں بھی شاید اندازہ نہیں انہوں نے کیا کیا ہے۔ کیا صرف ایک واقعہ ، حادثہ زیادہ بہتر ہوگا، کی بنیاد پر آئین میں ترمیم کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ برس16 دسمبر کو قوم نے جس دردناک سانحہ کا سامنا کیا، جس طرح اپنے معصوم بچوں کوقتل ہوتے دیکھا، اس نے پوری قوم کو شدید صدمے سے دو چار کردیا۔ مگر کیا صرف اس کی بنیاد پر اتنا بڑا قدم اٹھایا جا سکتا ہے کہ سارا سول ڈھانچہ ایک طرف رکھ دیا جائے اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ ان لوگوں کے سپر د کردیا جائے جنھیں قانون اور اس کی پیچیدگیوں سے کوئی آگاہی نہیں۔ ایک دو ہفتوں کی تربیت سے کیا فوجداری قانون کی ساری باریکیاں فوجی عدالتوں کے سربراہوں کی سمجھ میں آجائیں گی؟ ایک عمر لگتی ہے ایک وکیل کو سیشن جج بننے میں ، اور وہ بھی کئی مراحل سے گزر کر اس قابل ہوتے ہیں کہ استغاثہ اور صفائی کے وکلا ءکے متضاد دلائل سن کر ، جہاں تک انسانی بساط میں ہو، کسی فیصلہ تک پہنچ سکیں۔ اور ان کے فیصلوں پر مزید نظرِ ثانی کے لئے، زیادہ تجربہ کار جج ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوتے ہیں، تاکہ ممکنہ حد تک درست انصاف فراہم کیا جا سکے۔ ایک بے گناہ کو سزا دینا ، سو بے گناہوں کو آزاد چھوڑ دینے سے زیادہ خراب ہے۔ اس لئے عدالتوں کی اتنی تہیں رکھی جا تی ہیں۔
حالیہ ترامیم سے یہ پتہ نہیں چل رہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی جاسکے گی یا نہیں۔ ماضی میں اپیل کا حق نہیں تھا۔ اب اگر انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجائش رکھنی چاہئے۔ اگر کوئی بے گناہ اس نام نہاد عدالتی طریقہ سے سزا پا گیا، اور پھانسی چڑھا دیا گیا تو اس کے خون کا حساب کون دے گا؟ پارلیمان کے ارکان؟ یا اس ترمیم کے لئے دبائو ڈالنے والے ؟ دہشت گرد اپنے گناہوں کا عذاب تو بھگتیں گے، اس میں کوئی شبہ نہیں، اللہ نے اس پر وعید دی ہے، مگر کسی حکومت کے ہاتھوں، کسی با قاعدہ ادارے کے ہاتھوں کسی بے گناہ کا قتل، ایک بد ترین اقدام ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے یا ہونی چاہئے، اس کا کام اپنے بچوں کی حفاظت کرنا ہے، بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنا نہیں۔ اور اگر انصاف فراہم نہیں کیا گیا، بے گناہوں کو سزائیں دی گئیں، جیسا کہ ماضی میں ہوا، تو جان لیں، اس ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، بلکہ، میرے میں منہ میں خاک، مزید بڑھے گی، اور نقصان پہنچائے گی۔ جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں امن بھی نہیں ہوتا، ہو نہیں سکتا کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اور وہ جو کسی نے کیا خوب کہا، پہلے اچھے طالبان تھے اور برے طالبان، اب اچھے دہشت گرد ہیں اور برے دہشت گرد۔ تو یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے کہ ا س قانون کا اطلاق صرف مذہبی یا فرقہ وارانہ دہشت گردوں پر ہو گا؟ صرف وہ دہشت گرد قابلِ مواخذہ ہوں گے جو اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ کریں گے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ دہشت گردی، دہشت گردی ہے اور قابل مواخذہ جرم، کوئی بھی کرے، مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔ جو قوم پرست، لسانی یا دوسرے گروہ اگر دہشت گردی میںملوث ہوں تو ان پر بھی مقدمہ چلنا چاہئے، انہیں کیوں استثنیٰ دیا گیا ہے؟ کوئی وضاحت اس کی بھی تو کوئی کرے۔ صرف مذہبی گروہوں کو نشانہ بنانا کسی اور کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے، حکومت پاکستان کا نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا ہوا ہے اچھا نہیں ہوا۔ ایک آخری بات۔ ان فوجی عدالتوں پر سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔ ان کے فیصلوں کو پرکھنے کی، یہ دیکھنے کی کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں یا نہیں۔ اس کے لئے اعلیٰ عدالتوں سے درخواست کی جانی چاہئے کہ وہ راہ نمائی کریں۔ جب نواز شریف نے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بنائی تھیں تو اعلیٰ عدلیہ نے انہیں ہائی کورٹ کے ایک انتظامی جج کے ما تحت کردیا تھا۔ اب تک ہیں، اس سے بہت سے بے گناہوں کی جان بچ گئی۔ فوجی عدالتوں پر بھی اعلیٰ عدالتوں کا نظر ثانی ، نگرانی کا بندو بست ہو نا ضروری ہے۔ جناب وزیر اعظم، آج کا دن مبارک دن نہیں ہے۔ یہ تو ایک سیاہ دن ہے، جب عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا، انہیں مطعون کیا گیا، براہ راست اور باا لواسطہ۔ مبارک دن وہ ہوگا جب ملک سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ فوجی عدالتیں بھی لپیٹ دی جائیں گی۔ اور فرض کریں، حالانکہ اس کے امکان بہت ہیں، اگر دو سال میں آپ ، جیسا آپ نے کہا، ’’گند‘‘ ختم نہیں کر سکے، تو کون کس کو جوابدہ ہو گا؟ اس عرصہ میں جو خرابہ آپ کے اقدامات کر چکے ہوں گے ان کا جواب کون دے گا؟ اور یہ فوجی عدالتیں کیا واقعی آپ دو سال بعد ختم کردیں گے؟ آپ کر سکیں گے؟
تازہ ترین