• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشتہ ماہ چین میں ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ۔ چین کی ریاست منگولیا کی ایک عدالت نے اپنے اس فیصلے کو غلط قرار دے دیا ہے ، جو 18 سال پہلے دیا گیا تھا ۔ 1996ء کے اس فیصلے کے تحت ایک 18 سالہ نوجوان ہوگ جیلتو ( Hugjilto ) کو قتل اور عصمت دری کے ’’ جرم ‘‘ میں پھانسی دے دی گئی تھی لیکن اس فیصلے پر اس وقت شکوک و شبہات پیدا ہوئے ، جب 2005ء میں ایک اور شخص نے یہی جرم قبول کر لیا ۔ منگولیا ہائر پیپلز کورٹ نے اپنے اصل فیصلے پر نظرثانی کرکے نہ صرف اسے غلط قرار دے دیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ ہوگ جیلتو معصوم تھا اور اسے بے گناہ پھانسی دی گئی ۔ عدالت کی طرف سے باقاعدہ ایک بیان جاری کیا گیا ، جس میں کہا گیا کہ ’’1996 ء کا فیصلہ حقائق کے منافی تھااور اس فیصلے کے لیے شہادتیں ناکافی تھیں۔ ہوگ جیلتو قصور وار ثابت نہیں ہوئے ۔
چین کے خبر رساں ادارے ’’ شینہوا ‘‘ کے مطابق عدالت کے نائب صدر ( سربراہ جج ) نے پھانسی پانے والے نوجوان کے والدین کو 4850 امریکی ڈالرز زرتلافی بھی ادا کیا ۔ یہ رقم عدالت کی طرف سے نہیں تھی بلکہ عدالت کے سربراہ نے ذاتی طور پر ادا کی ۔ ریاست کی طرف سے بھی معاوضہ ادا کیا جائے گا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دن عدالت نے اپنے فیصلے کو غلط قرار دیا ، اس کے دوسرے دن ہوگ جیلتو کا جنم دن تھا ۔ اس کی ماں ، اس کے باپ اور بھائی نے پرانے عدالتی فیصلے کی کاپی لی اور اس کے جنم دن کے موقع پر اس کی قبر پر پہنچ گئے ۔ ماں باپ اور بھائی نے قبر پر کھڑے ہو کر خوب ماتم کیا اور فیصلے کی کاپی قبر پر رکھ کر جلادی ۔ اس منظر کی فوٹیج چین کے مختلف ٹی وی چینلز نے دکھائی ۔ ہوگ جیلتوئی کی ماں نے کہا کہ میرا بیٹا دوبارہ جنم لے گا ۔
یہ واقعہ نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کی عدالت اور انصاف کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ کسی عدالت نے ازخود اپنے فیصلے کو غلط قرار دیا ہو ۔ جن محترم جج صاحبان نے اپنی ہی عدالت کے فیصلے کو غلط قرار دیا ہے، انہیں اس بات کا یقیناً احساس ہو گا کہ ان کے اس اقدام سے چین کا نظام انصاف ایک سوالیہ نشان بن جائے گا لیکن انہوں نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کو غلط قرار دیا اور اس بات کی پروا نہیں کی کہ دنیا کیا کہے گی ۔ 18 سال پہلے والے فیصلے کو کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا تھا ۔ اس کے باوجود عدلیہ نے اپنے اوپر نا انصافی کے الزام کو خود ہی دھو ڈالا ۔ یہ ججوں کی اخلاقی جرأت اور اعلیٰ کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس سے چین کے نظام انصاف پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا ۔ اس کیس کی وجہ سے دنیا کو یہ پیغام بھی ملا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول کے باوجود عدالتیں آزاد ہیں اور یہ بھی پیغام ملا ہے کہ ناانصافی کا بوجھ اٹھا کر کوئی بھی معاشرہ بہتری کی جانب گامزن نہیں ہو سکتا اور ماضی کی ناانصافیوں پر آواز اٹھانا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔ چاہے یہ ناانصافی تاریخ میں کبھی بھی اور کہیں بھی ہوئی ہو ۔ چین کے لوگ کنفیوشس جیسے فلسفی اور مصلح کو اپنا ’’ عظیم استاد ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ ’’ زخم کی تلافی انصاف سے کرو… انصاف کے بغیر حوصلہ بھی کمزور ہوتا ہے … انصاف اور طاقت کو یکجا کر دو تاکہ جو مبنی بر انصاف ہے ، وہی طاقتور ہو اور جو طاقتور ہے ،وہی مبنی بر انصاف ہو۔ ‘‘ پاکستان میں بھی بے شمار عدالتی فیصلے ایسے ہیں ، جنہیں ’’ پلٹنے ‘‘ کی ضرورت ہے ۔ پاکستان نا انصافیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس وجہ سے شدید بحرانوں کا شکار ہے ۔ ان میں سے ایک اہم فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق تھا ۔ چین کے پھانسی پانے والے نوجوان ہوگ جیلتو کے ناکردہ گناہ کا پتہ تو 9 سال بعد 2005ء میں چلا لیکن ذوالفقار علی بھٹو پر تو پہلے دن سے وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر ایک ناکردہ گناہ تھوپا گیا ۔ بھٹو کے کیس کا فیصلہ سنانے والے بینچ میں شامل ایک جج جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے تو یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے ججوں پر دباؤ تھا ۔ اس اعتراف کے بعد تو عدالت کو از خود منگولیا کی عدالت کی طرح فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وفاقی شریعت عدالت نے بھی یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ اسلام میں وعدہ معاف گواہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ یہ فیصلہ رپورٹ کیا ہوا ہے ۔ اس فیصلے کے خلاف وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ۔ سپریم کورٹ نے بھی وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی رپورٹ کیا ہوا ہے ۔ وفاق نے وعدہ معاف گواہ کے بارے میںسپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی ۔ 18 سال گذرنے کے باوجود ابھی تک اس اپیل کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے ۔ ایک نہ ایک دن تو یہ فیصلہ عدالت کو کرنا پڑے گا ۔ اگر سابقہ فیصلہ برقرار رہتا ہے تو پھر بھٹو کو پھانسی دینے کا کیا جواز رہے گا کیونکہ پھانسی کے فیصلے کا انحصار صرف اور صرف وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر ہے ۔ وعدہ معاف گواہوں کی شرعی حیثیت کو چیلنج کرنے والے وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج اور ممتاز قانون دان شفیع محمدی کا کہنا یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہوں نے تو یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے قتل کیا لیکن یہ ثابت نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا ۔ اسلام میں جو شخص جرم کا اعتراف کرتا ہے ، اسے ہی سزا ملتی ہے اور جس کے خلاف وہ بیان دیتا ہے ، اس پر جرم ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ قانون شہادت میں بھی کوئی ملزم پولیس یا ریاست کی حراست میں کسی دوسرے کے خلاف بیان دے تو دوسرے شخص کو اس وقت تک ملزم تصور نہیں کیا جا سکتا ، جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ۔ نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے ۔ جب نواب قصوری کا لاہور میں قتل ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو ملتان میں تھے ۔ بھٹو کیس پر نظرثانی کے لیے بھی صدر مملکت نے بھی سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوایا ۔ اس پر کئی سماعتیں بھی ہوئیں لیکن پھر معاملہ پراسرار التواء میں چلا گیا ۔اگر بھٹو کیس پر نظرثانی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تو وہ کم از کم وفاقی حکومت کی اس اپیل کا فیصلہ کر لیا جائے جو 18 سال سے زیر التواء ہے ۔ یہ ایک ایسا اہم کیس ہے ، جس پر نظرثانی کرنے کے لیے قانون اور انصاف کے تحت ہر جواز موجود ہے ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو تو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہے اور ہزاروں انسانوں کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں ۔ ان کے خلاف سول عدالتیں فیصلے نہیں کر پا رہی ہیں ، جس کی وجہ سے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں ۔ عظیم استاد کنفیوشس نے ہی کہا تھا کہ ’’ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ جو عذاب بھگت رہے ہیں ، وہ ماضی کی نا انصافیوں کا خمیازہ ہے ‘‘ ۔ اس مرتبہ بھی 5 جنوری کو ذوالفقار علی بھٹو کا 87 واں جنم دن گذر گیا ہے لیکن وہاں کسی نے ان کی پھانسی کے فیصلے کی کاپی نہیں جلائی ۔ جس 5 جنوری کو ان کے مقبرے پر فیصلے کی کاپی جلائی جائے گی ، اسی دن سے ہی پاکستان میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ختم ہو جائے گی ۔
تازہ ترین