• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسداد دہشت گردی کا لائحہ عمل تیار ہوچکا۔ ضروری آئینی و انتظامی معاملات طے کئے جاچکے۔ قوم اس عزم کے ساتھ میدان میں اتری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہر قیمت پر جیتنی ہے۔ انشاء اللہ اس آزمائش سے ضرور سرخرو ہوکر نکلیں گے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس روایتی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ایک جنگ ہمیں اقتصادی دہشت گردی کے خلاف بھی لڑنی ہے اور جیتنی ہے۔ بدعنوانی، کرپشن، اقربا نوازی اور قومی اثاثوں کی لوٹ مار جیسے جرائم کی بیخ کنی اس لئے ضروری ہوگئی ہے کہ معاشی اور سماجی تفاوت کی خلیج تیزی کے ساتھ وسیع ہوتی جارہی ہے۔ محرومین کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہوچکا، اور 99% عوام کی تقدیر 1% نام نہاد و اشرافیہ کی مٹھی میں بند ہوکر رہ گئی ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ چند برس پہلے بنک قرضوں کی معافی کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ 1985ء سے لیکر 2002 تک محض سترہ برسوں میں معاف کئے جانے والے قرض کا تخمینہ ایک کھرب روپے سے زائد کا ہے۔ یہ رہا اصل زر، اس میں حسب ضابطہ سود اور لیٹ ادائیگی کا جرمانہ بھی شامل کرلیا جائے، تو اس وقت یہ رقم دس کھرب روپے کے لگ بھگ ہوگی، یعنی دس ارب ڈالر۔ قومی وسائل پر ڈاکہ زنی میں یہ واردات محض سترہ سو افراد نے کی تھی۔ اور یہ معافی اس لئے نہیں ہوئی تھی کہ مقروض واقعی دیوالیہ ہوگئے تھے اور قرض کی ادائیگی سے قاصر تھے۔ ایسی کوئی بات نہیں، وہ اب بھی اربوں میں کھیلتے ہیں اور اس دوران ان کے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اس سمے جبکہ سرکار بڑے بڑے کام کرنے جارہی ہے، لوٹ کے اس مال کی ریکوری پر بھی کچھ توجہ دے، تو قوم شکر گزار ہوگی۔ یہ فائیو اسٹار لٹیرےاندر سے بے پناہ بودے ہوتے ہیں۔ جسمانی اذیت تو دور کی بات، دو راتوں کی بے آرامی برداشت نہیں کرسکتے۔ چند برس پیشتر ایک ایسے ہی جرم میں ایک اسٹیل فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو کو اہلیہ اور دو بیٹوں سمیت چند ہی روز حوالات کی ہوا کھانا پڑی، تو دہائی دی تھی کہ واجب الادا قرضہ کے عوض اپنی تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہیں۔ قوم نے بہت برداشت کرلیا، مزید کی اس میں سکت نہیں رہی۔ رشوت، سفارش، کرپشن اور لوٹ مار والے نظام پر سے عوام الناس کا ایمان اٹھ چکا۔ کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ انہیں قربانی کا درس دینے والے خود کیا کیا چاند چڑھارہے ہیں۔ جنہیں رہنمائی سونپی گئی، رہزنی پر اتر آئے اور جنہیں امانت دار بنایا گیا، پرلے درجے کے خائن نکلے۔ قائداعظمؒ کے اٹھارہ کروڑ فرزندوں پر منکشف ہوچکا کہ ان کے بابا نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان کے باعزت رہن سہن کا پورا انتظام کردیا تھا۔ وہ تو لٹیرےبیچ میں آگئے، جنہوں نے جھاڑو پھیردی۔
انہیں احساس ہوچکا کہ وہ بے گھر اس لئے ہیں کہ ان کے حصے کے چند مرلے لٹیروں کے ہزاروں کنال پر محیط محلات اور فارم ہائوسز میں ضم ہوگئے۔ ان کا لخت جگر ناخواندہ اس لئے رہا تاکہ کسی اور کا شہزادہ لاکھ دو لاکھ ماہانہ خرچ والے اسکول میں پڑھ سکے، یا پھر بیرون ملک ملین، دو ملین ڈالرز سالانہ کا خرچہ افورڈ کرسکے۔ ان کی لائق فائق اولادوں کو چند ٹکے کی نوکری اس لئے نہیں ملتی، تاکہ بادشاہوں کے نیم خواندہ بھانجے بھتیجے دو چار ملین ماہانہ کا کنٹریکٹ پاسکیں۔ ان کیلئے شفاخانوں میں اسپرین کا کال اس لئے پڑتا ہے تاکہ کوئی نام نہاد ایلیٹ لندن کے کرامویل ہاسپٹل میں فلو کا علاج کرواسکے۔ ہمارا بھی عجب کلچر ہے۔ پانچ دس ہزار کا ہاتھ ماریں تو جیل جائیں، ارب دو ارب لوٹ لیں تو وی آئی پی قرار پائیں، سرکار کےدربار میں رسائی ہو اور بیوروکریسی آپ کے اشاروں پر ناچے۔ عدالت سے واسطہ پڑجائے، تو چوٹی کے وکیل خدمت کیلئے حاضر ہوں۔ جوہر بداعمال کی ایسی ایسی تاویل لائیں کہ ڈوب مرنے کو جی چاہے۔ یاد رہے کہ چند برس پیشتر جب قرضوں کی معافی کی بحث چلی تھی، تو جرم کی گمبھیرتا پر دھیان دینے کی بجائے، اسے آئینی موشگافیوں میں الجھا دیا گیا تھا۔ نامی گرامی وکلا دور کی کوڑی لائے تھے کہ اس سے آئین کے آرٹیکل 38 کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی (مذکورہ آرٹیکل Promotin of Social and Economic Development of People شہریوں کی سماجی اور معاشی بہبود سے متعلق تھے) گویا کہ لٹیروں کا یہ فعل عین آئینی ہے۔ سبحان اللہ، ایسی منطق پر قربان جائیے۔ اور این آر او National Reconciliation Ordinance کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اکتوبر 2007 میں صدر پرویز مشرف کی طرف سے مفاہمت کے نام پر قوم کو دیا گیا یہ تحفہ بھی تو بدترین قسم کی اقتصادی دہشت گردی کی ذیل میں آتا ہے۔ نامی گرامی سیاستدانوں، اعلیٰ افسروں اور دیگر کے پورے چودہ برس (یکم جنوری 1986 تا 12اکتوبر 1999) پر پھیلے ہوئے تمام کالے کرتوت بیک جنبش قلم حرف غلط کی طرح مٹادیئے گئے تھے۔ جن میں کرپشن، خوردبرد، منی لانڈرنگ، قتل اور دہشت گردی جیسے قبیح جرائم بھی شامل تھے۔ قومی مفاہمت کے اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والے 8041 افراد میں سابق صدور، وزرائے اعظم، اسپیکرز، گورنرز، وفاقی و صوبائی وزرا، غرض ایک سے ایک بڑا نام موجود ہے۔ گو دسمبر 2009 میں سپریم کورٹ نے این آر او کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔ مگر اس کی اثر آفرینی ہنوز برقرار ہے اور متعلقین اس کے ثمرات سے بدستور مستفید ہورہے ہیں۔ قومی مفاہمت کے نام پر قتل، دہشت گردی، کرپشن، منی لانڈرنگ جیسے خوفناک جرائم کی معافی کوئی آسانی سے ہضم ہونے والی چیز نہیں، جبکہ سپریم کورٹ بھی اس کے خلاف فیصلہ صادر کرچکی ہے۔ ایسے میں اس نام نہاد مفاہمتی دستاویز کو کیا نئے سرے سے جانچنے کی ضرورت نہیں؟پھر ٹیکس چوری بھی تو اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ دہائی خدا کی اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد ایک ملین سے بھی کم۔ جن میں سے بھی اکثریت محض چند ہزار روپے ادا کرنےکی روادار ہے۔ ان کا بادشاہوں جیسا لائف اسٹائل ان کے ٹیکس ریڑن کا منہ چڑاتا ہے۔ ہمارے اکثر حکمرانوں اور قانون سازوں کا شمار بھی اسی لاٹ میں ہوتا ہے۔ جب قانون بنانے والے ہی قانون شکنی پر تل جائیں تو خیر کی توقع عبث ہے۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کو بات ذرا دیر سے سمجھ آتی ہے۔ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں بھی انہوں نے بہت دیر کردی۔ وہ تو شاید اس جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ یہی معاملہ اقتصادی دہشت گردی کا بھی ہے۔ اس کی حدت اور شدت کا بھی احساس نہیں کیا جارہا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خون خرابے والی دہشت گردی کا خاتمہ اقتصادی دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ موخرالذکر کا ازالہ ہوگا تو اول الذکر بھی دم توڑ جائیگی۔ اقتصادی دہشت گردی کی بیخ کنی قوم کیلئے ایک نئی صبح کی نوید ہوگی۔
اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو نام نہاد اشرافیہ کی اقتصادی دہشت گردی سے بچانے کے لئے یوں تو ایک سے ایک بڑھ کر قانون موجود ہے۔ مسئلہ عملدرآمد کا ہے جو درست طور پر نہیں ہو رہا۔ کسی زمانے میں صرف اینٹی کرپشن کا محکمہ ہوا کرتا تھا اور لوگ اسے کرپشن کی جڑ قرار دیا کرتے تھے یعنی کہ محکمہ کرپشن کے خاتمے کی بجائے اسکے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ اب تو ایف آئی اے سے نیب سمیت نہ جانے کیا کیا کچھ میدان میں آگیا ہے۔ مگر لوٹ کھسوٹ ہے کہ تھمنے میں ہی نہیں آتی۔ معاملہ لاکھوں کروڑوں سے نکل کر اربوں تک جا پہنچا ہے اور متعلقہ محکموں کی کارکردگی کایہ عالم ہے کہ قومی مجرموں کو نشانہ عبرت بنانے کی بجائے ان کے ساتھ پہلے بارگیننگ کے نام پر سودا بازی ہوتی ہے اگر کوئی لٹیرا اس بدنصیب قوم کا ایک کروڑ لوٹ کر چالیس لاکھ روپے کی واپسی کی حامی بھرلے تو معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس چالیس لاکھ میں سرکاری اہلکاروں کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ’’ون ون سچویشن‘‘ چور اور سپاہی ہر دو کے مفاد میں ہے۔
فوجی عدالتوں کا قیام اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوم کے عزم کی غماض ہے۔ قومی قیادت کا اتفاق رائے سے فیصلے کرنا خوش آئند ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف قانون پوری قوت کیساتھ حرکت میں آئیگا۔ اکیسویں آئینی ترمیم بیشک وقت کی اہم ضرورت تھی جیسا کہ عرض کیا جا چکا، اقتصادی دہشت گردی کیخلاف قوانین تو پہلے سے بھی موجود ہیں لیکن اگر ضروری سمجھا جائے تو لگے ہاتھوں اٹھارہ کروڑ بے بس انسانوں کو نام نہاد اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رکھنے کیلئے اگر بائیسویں کی ضرورت بھی محسوس ہو تو عوامی مفاد میں کچھ مضائقہ نہیں۔
تازہ ترین