• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو پنجابی کا محاورہ ہے، ترجمہ :بکھرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا(انہیں اب بھی سمیٹا جاسکتا ہے)اچھا ہوا، وزیراعظم صاحب نے وزارتِ داخلہ کو 21ویں آئینی ترمیم پر مذہبی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کردی۔ کہا جاتا ہے اِدھر 21ویں ترمیم پر مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات پر ان سے گفتگو جاری تھی، مفاہمت کے امکانات پیدا ہوگئے تھے، اُدھر قومی اسمبلی میں ترمیم پر رائے شماری شروع ہوچکی تھی۔
پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں 21ویں آئینی ترمیم کی منظوری اس لحاظ سے متفقہ تھی کہ ایوان میں موجود کسی رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ تحریکِ انصاف نے اسمبلی سے استعفے دیئے ہوئے ہیںجن کی رسمی منظوری کا معاملہ اسپیکر صاحب کے چیمبر میں زیرِ التوا ہے۔ اس کے 6’’باغی‘‘ ارکان ایوان میں موجود تھے لیکن انہوں نے ترمیمی بل کی حمایت کی نہ مخالفت۔( 2008کے انتخابات کے بائیکاٹ کے باعث تحریک انصاف سینٹ میں نمائندگی سے محروم ہے)۔ پارلیمینٹ سے باہر تحریکِ انصاف نے ترمیمی بل سے کسی اختلاف کا اظہار نہیں کیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت ِ اسلامی نے ایوان میں رائے شماری کا حصہ بننے (حمایت یا مخالفت) کی بجائے abstainکیا (گریز کا راستہ اختیار کیا)۔ ظاہر ہے، یہ مخالفت سے کم تر معاملہ تھا… اور یوں 21ویں آئینی ترمیم کی ’’اتفاق رائے سے منظوری‘‘ کا راستہ ہموار ہوا۔
مولانا کی دعوت پر گزشتہ روز اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کا اجتماع ہوا جس میں مشرف دور کی متحدہ مجلس عمل کی بعض جماعتیں بھی تھیں، ان میں مسلم لیگ(ن) کے دیرینہ اتحادی، جمعیت اہل حدیث کے سنیٹر پروفیسر ساجد میر بھی تھے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مولانا کا لب و لہجہ آتشیں نہیں بلکہ متوازن تھا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر کانفرنسوں، سیمیناروں اور مختلف اجتماعات کے ذریعے ’’محدود ردعمل‘‘ کی بات کی۔ ڈی چوک میں دھرنے کی نوبت بہت بعد میں آئے گی۔ جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، جیو نیوز پر وزیراعلیٰ شہبازشریف سے مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات اور21ویں آئینی ترمیم پرمولانا (اور دینی جماعتوں ) کے تحفظات پر تبادلۂ خیال کی بریکنگ نیوز چل رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ فوری انصاف کے لئے خصوصی عدالتوں کے قیام کے بنیادی تصور سے متفق ہیں۔ اختلاف دہشت گردی کو مذہب اور مسلک سے منسلک کرنے پر ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے کہ یہ بات ایسی بے معنی و بے بنیاد بھی نہیں۔ دہشت گردی ، دہشت گردی ہے، یہ کسی مسلک و مذہب کی بنیاد پرہویا علاقے، زبان اور نسل کی بنیاد پر۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ’’اجماع امت‘‘ ہوچکا، ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ یا احمد بلال محبوب کے پلڈاٹ سے سروے کرالیا جائے شاید 98% سے بھی زیادہ لوگ دہشت گردی کو آہنی ہاتھوں کے ساتھ جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے حامی ہوں گے لیکن ان ہی میں سے بہت سوں کو مولانا کی اس بات میں بھی وزن محسوس ہوگا کہ قائداعظم کی زیارت ریذیڈنسی کو تباہ کرنے اوریہاںبانی ٔ پاکستان اور ان کی ہمشیرہ محترمہ کی تصاویر کو پاؤں تلے روندنے، ٹرینوں پر راکٹ برسانے اور ریل کی پٹڑیوں کے نیچے بم نصب کرنے ، بسوں کو روک کر شناختی کارڈ چیک کرنے اور پنجابیوں کو گولیوں کا نشانہ بنادینے، کوئٹہ میں مرد وزن کی تفریق کے بغیر پنجابی ڈاکٹروں اور پروفیسروںکو قتل کردینے تعلیمی اداروں میں پاکستان کے قومی ترانے کی ممانعت کرنے اور بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے ’’عسکریت پسند ‘‘ دہشت گردوں کی فہرست سے باہر کیوں؟
’’روشنیوں کے شہر‘‘میں ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری، بوری بند لاشوں اور ٹارچر سیلوں کے اندھیرے مسلط کرنے والے کیا دہشت گرد نہیں؟ مولانا کیسا عام فہم اور معنی خیز فقرہ کہہ گئے، داڑھی اور پگڑی والے شیو کر اکے اپنا نام اجمل پہاڑی اور صولت مرزا رکھ لیں۔
تو کیا 21ویں آئینی ترمیم پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق یا جناب ساجد میر سمیت دیگر مذہبی رہنما پاکستانی طالبان کے ہمدرد اور ان کی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں؟ پاکستانی طالبان دہشت گردی کے لئے مذہبی بیانیہ (Narrative) اختیار کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ کسی سیکولر بیانیے سے نہیں، مذہبی بیانیے ہی سے کیا جاسکتا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن، جناب سراج الحق اور اسی طرح کی دیگر دینی شخصیات کا دم غنیمت ہے کہ وہ اپنے ’’ہم مسلک‘‘ پاکستانی طالبان کے برعکس آئین پاکستان سے کامل وفاداری کا اظہار کرتے اور شریعت کے نام پر تشدد کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ وہ نفاذِ شریعت کے لئے ’’بُلّٹ‘‘ کی بجائے ’’بیلٹ‘‘ پر یقین ہی نہیں رکھتے اس کا پرچار بھی کرتے ہیں اور اسی پر عمل پیرا بھی ہیں۔ وہ تبدیلی کے لئے تشدد کی مذمت اورآئینی و جمہوری راستے کی حمایت اور وکالت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ مؤقف اور یہ طرزِ عمل اِن کے ’’ہم مسلک‘‘ طالبان کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے جس کے لئے انہیںمولانا کو راستے سے ہٹانے سے بھی گریز نہیں رہا۔ مولانا خیبر پختونخوا میں 2بار اورکوئٹہ میں ایک بار خود کش حملوں میں بال بال بچے۔
16دسمبر کو سانحہ ٔ کوئٹہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فیصلہ کن مرحلے پر وزیراعظم کی کوششوں سے قومی اتفاقِ رائے کا جو اہتمام ہوا، اسے بہرصورت قائم رکھنا چاہئے۔ احسن اقبال کا یہ بیان خوش کن ہے کہ عمران خاں ہنی مون منائیں، 18جنوری سے قبل جوڈیشل کمیشن بنادیں گے۔ باقی رہے ہمارے وہ دانشور دوست، جو اس موقع پر بھی وزیراعظم سے اپنی نفرت کو دبا اور چھپا نہیں پائے اور اس کے لئے بے پرکی اُڑانے اور رائی کے بغیر بھی پہاڑ بنانے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتی لیکن پاکستانی عوام بہت باشعور ہیں اور ان کاحافظہ بھی اتنا کمزور نہیں جتنا ہمارے ان دانشور دوستوں نے فرض کر لیا ہے ۔ ان میں سے ایک نے گزشتہ روز لکھا، 16دسمبر کو پشاور میں معصوم بچے گولیوں سے بھون دیئے گئے تو چترال سے کراچی تک سکتے کی کیفیت تھی، اس دوران میاں صاحب مبینہ طور پر ایک عرب کمپنی خریدنے کے لئے بات چیت کرتے رہے اور وہ بھی ایوان وزیراعظم میں ۔ 16دسمبر کا سانحہ ابھی کل کی بات ہے، پاکستانی عوام اور خود فاضل کالم نگار کے قارئین کو بھی یاد ہے کہ 16دسمبر کو وزیراعظم اس سانحہ کی خبر پاتے ہی پشاور روانہ ہوگئے تھے۔ وزیراعظم توانائی پر کابینہ کمیٹی کے 5 ویں اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اس سانحہ کی اطلاع ملتے ہی انہوں نے وزیرداخلہ سے فوری رابطے کے علاوہ اُسی لمحے پشاور جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی روانگی اور پشاور میں ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات الیکٹرونک میڈیا مسلسل دکھاتا رہا۔ اس روز وزیراعظم کی دیگر مصروفیات میں2بجے سہ پہر وزیراعلیٰ شہبازشریف ، چوہدری نثار علی خاں، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق سے میٹنگ کے علاوہ پونے چار بجے پٹرولیم کے وزیرمملکت جام کمال سے ملاقات بھی تھی لیکن یہ سب کچھ ملتوی کردیا گیا۔
وزیراعظم نے 17دسمبر کی پہلے سے طے شدہ مصروفیات بھی ملتوی کر دی تھیں ۔ اس روز آل پارٹیز کانفرنس کے لئے انہوں نے پشاور کے گورنر ہاؤس کا انتخاب کیا تھا کہ سانحہ اسی شہر میں ہوا تھا اور قصۂ زمین برسرِزمین کے اس اہتمام سے ساری دُنیا اور خود دہشت گردوں کو سخت ترین میسج دینا مقصود تھا۔
16دسمبر کو اس سانحہ کے بعد بھی پرائم منسٹر ہاؤس میں عرب کمپنی خریدنے کے لئے بات چیت کی کہانی کالم نگار موصوف کو کس نے سنائی؟ ویسے ایک دور میں وہ افسانے بھی لکھتے رہے ہیں(روس کے خلاف جہاد میں دلوں کو گرمانے والے ان کے افسانے ہمیں اب تک یاد ہیں)۔ تو کیا عرب کمپنی کی خریدوفروخت کی بات کو ایک افسانہ سمجھ لیا جائے؟
تازہ ترین