• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسے سانحہ پشاور کے شہید بچوں کے خون کا کرشمہ ہی سمجھنا چاہیے کہ نہ صرف پوری قوم جاگ اٹھی بلکہ ساری قومی قیادت نے ہر قسم کے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری یکجہتی کیساتھ دہشت گردی کے سامنے صف آراء ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ایسے مواقع ہماری تاریخ میں کم کم ہی آئے ہیں۔ یہ تو پہلی دفعہ ہوا کہ پارلیمنٹ کی نمائندگی کرنے والی تمام جماعتیں صرف دو ہفتوں میں تین بار مل بیٹھیں ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ صورتحال کی سنگینی کا احساس صرف حکومت یا پاکستان کی مسلح افواج کو نہیں،پوری سیاسی قیادت کو ہے۔ بطور وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ذمہ داری تو تھی ہی لیکن کسی بھی سیاسی جماعت نے انکے ہاتھ مضبوط کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔آصف علی زرداری، عمران خان، سراج الحق، الطاف حسین،مولانا فضل الرحمان، محمد خان اچکزئی ، اے۔ این۔ پی، حاصل بزنجو، اعجاز الحق، چوہدری شجاعت حسین،قبائلی اراکین سب نے یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دیااور یہ عہد کیا کہ اس جنگ میں حکومت اور مسلح افواج کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔
سب سے مشکل مرحلہ فوجی سربراہی میں قائم کی جانے والی فوری سماعت کی عدالتوں کا تھا۔ کسی بھی سیاسی جمہوری حکومت کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے ساری بحث کو اس ایک جملے میں سمیٹ دیا کہ ــ" غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیںـ" ۔ 2 جنوری کی آخری اے۔پی۔سی میں جنرل راحیل شریف نے بھی یہی جملہ دہرایا۔ وزیر اعظم نے سینیٹ سے خطاب میں نہایت عمدگی سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے واضح کیاکہ ہم کس طرح کے غیر معمولی حالات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انسانی حقوق انکے لئے ہوتے ہیں جو انسانیت پر یقین رکھتے ہوں۔ عسکری اور سیاسی قیادت بالآخر اس نکتے پر متفق ہو گئیں کہ پاکستان میں حالات واقعی غیر معمولی ہوچکے ہیںاور اگر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔
فوجی عدالتوں پر تنقید کرنے والوں کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہیے۔ انکے پاس ٹھوس دلائل ہیںاور انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا پورا حق ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک آئینی عدالتی نظام رکھنے والی ریاست میںاس طرح کا غیر معمولی نظام اچھا نہیں لگتا۔ لیکن دلیل یہی ہے کہ اب تک ہم اپنے روایتی قانونی عدالتی نظام کے ذریعے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہے۔کہا جاتا ہے کہ قانون اور انصاف کا تقاضا تو مجرم کو سزا دینا ہوتا ہے لیکن اسکا دوسرا اور نہایت اہم تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کو نصیحت ہو اور وہ جان لیں کہ اس طرح کے کاموں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔بد قسمتی یا ہمارے نظام کے کل پرزوں کی خامیوں کے باعث دہشت گرد من مانی کرتے رہے لیکن انہیں اپنے انجام تک پہنچانے والے اپنا کام نہ کر سکے۔ جب دہشت گردی کی بھیانک وارداتیں کرنے والے قانون کے شکنجے
میں نہ آسکے تو انکا حوصلہ بڑھتا چلا گیا اور دوسری طرف قانونی نظام کی کمزوریاں بھی آشکار ہوتی چلی گئیں۔
یہی سبب ہے کہ اب فوری سماعت کی عدالتوں کا قیام ضروری سمجھا گیا ہے۔ یہ عدالتیں ماضی کی فوجی عدالتوں سے بہت مختلف ہیں۔عام طور پر ماضی کی عدالتیں غیر جمہوری دور میں فوجی ڈکٹیٹر قائم کرتے رہے ۔ ان عدالتوں میں مخالف سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ پہلی دفعہ یہ عدالتیں قومی اتفاق رائے سے قائم ہونے والی آئینی اور قانونی ترامیم کے ذریعے بن رہی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سول حکومت کسی بھی معاملے پر فوج کو اپنی مدد کیلئے بلا لیتی ہے۔ یہ اختیار خود آئین پاکستان نے بھی سول حکومت کو دے رکھا ہے۔ ماضی میں لا تعداد بارفوج کو زلزلوں یا سیلاب کیلئے بلایا گیا۔ اسی طرح اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران بھی فوج کو ٓآئین کے آرٹیکل 245 کے تحت بعض حساس عمارتوں کے تحفظ کیلئے طلب کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب بھی اسی آئینی آرٹیکل کے تحت ہو رہا ہے۔ اب کے حکومت اور آئینی ماہرین نے سوچا کہ خصوصی فوجی عدالتوں کیلئے شاید آرٹیکل 245کافی نہیں۔لہذٰا آئین میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی گئی۔ لیکن دراصل معاملہ یہی ہے کہ فوج خود عدالتیں نہیں لگا رہی بلکہ ایک منتخب جمہوری حکومت فوج کو ایک خصوصی کام کی خاطر اپنی مدد کیلئے بلا رہی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ فوج یا فوجی عدالتیں اپنے طور پر کسی فرد یا تنظیم کے خلاف مقدمہ نہیں چلا سکیں گی ۔یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس رہے گا کہ وہ کونسا مقدمہ ان فوجی عدالتوں کے پاس بھیجتی ہے۔ اسکے علاوہ ان سنگین جرائم کا تعین بھی کر لیا گیا ہے جن کے مقدمات یہ عدالتیں سنیں گی۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان عدالتوں کی معیاد کا آئینی ترمیم میں ہی تعین کر لیا گیا ہے۔لکھ دیا گیا ہے کہ دو سال بعد یہ عدالتیں بغیر کسی آئینی ترمیم کے خود ہی تحلیل ہو جائیں گی ۔ ان شرائط سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ عدالتیں سیاسی مخالفین کیلئے استعمال نہیں ہو سکیں گی اور نہ ہی ایک خاص مدت کے بعد ہمارے آئینی نظام کا حصہ رہیں گی۔
مولانا فضل الرحمان اور جناب سراج الحق نے ہر اے پی سی میں شرکت کی اور باقی جماعتوں کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے تمام ترامیم کی تائید بھی کی۔ لیکن بعد میں انہوں نے نقطہ نظر تبدیل کر لیا۔اگر انہیں آئینی ترامیم سے اتفاق نہیں تھا تو پارلیمنٹ میں جا کر نہ صرف اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیئے تھا بلکہ ترامیم کے خلاف ووٹ بھی دینا چاہیئے تھا۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں حضرات قوم پر اپنا موقف بھی واضح نہیں کر سکے۔ اگر ترامیم کے مطابق اسلام یا ملک کا نام دہشت گردی اور فرقہ واریت کے لئے استعمال کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لایا جا رہا ہے تو دونوں حضرات کو اس پر اختلاف رائے کے بجائے خوش ہونا چاہیے۔ دونوں جماعتوں کے اختلافی نقطہ نظر نے قومی اتفاق و اتحاد کی فصیل میں دراڑ ڈالی ہے۔ جس سے اگر کوئی فائدہ ہوا بھی ہے تو وہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو ہوا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ زیادہ دور جانے کے بجائے اپنے نکتہ نظر پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اجتماعی قومی دھارے کا حصہ بن جائیں۔ اگر انہیں ایک ڈکٹیٹر کے زمانے میں اسکے تمام غیر آئینی اقدامات کا ساتھ دیتے ہوئے سترھویں ترمیم کی حمایت کرنے میں کوئی حجاب نہیں تھا تو دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے 21 ویں ترمیم کا کڑوا گھونٹ بھی بھر لینے میں کیا مضائقہ تھا؟
اب عوام کی نظریں اس بات پر لگی ہیں کہ یہ عدالتیں کس قدر تیزی کیساتھ کام کرتی ہیں؟ حکومت کس طرح دہشت گردوں کو ان عدالتوں کے کٹہرے میں لاتی ہے؟ مجرم کیونکر اپنے کئے کی سزا پاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دہشت گردی کے مرض پر قابو پانے میں کتنی مدد ملتی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے متفقہ طور پر طے کئے گئے بیس نکاتی ایکشن پلان پر کس طرح عمل ہوتا ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام تو محض ایک نکتہ ہے اس پلان کے انیس اور نکات بھی ہیں۔ اگران نکات پر بھی پوری سنجیدگی اور تیز رفتاری سے کام نہ ہوا تو ہم کچھ دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے میں تو کامیاب ہوجائیں گے لیکن دہشت گردی کے مرض پر پوری طرح قابو نہیں پا سکیںگے۔ حکومت، فوج اور سیاسی قیادت نے یکسو ہو کر بہت ہی زور دار اور مثبت پیغام دیا ہے۔سیاسی اور فوجی قیادت کی یکسوئی اگر حقیقی معنوں میںقومی یکسوئی میں بھی ڈھل جائے تو دہشت گردی پر کاری وار کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ اس پلان کو قومی ایکشن پلان کہا گیا ہے لہذٰا معاشرے کے تمام طبقات سمیت پوری قوم کا فرض ہے کہ وہ اسے اپنا پلان سمجھ کر اپنی قیادت کا بھرپور ساتھ دے۔
تازہ ترین