• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اقتدار کی ہمیشگی چاہنے والوں کے الوادعی پل ہیں، یہ طاقتوروں کی کمزور گھڑیوں کی ایک جھلک ہے ، یہ بااختیاروں کے بے اختیار ہونے کے چند لمحے ہیں ، یہ امریکی کندھوں سے گرتے وقت کی بے بس ساعتیں ہیں ،یہ ہمارا گزرا کل ہے ، غور کریں تو یہی ہمارا آج ہے اور فلم ’’ڈومور‘‘ میں چھوٹے سے چھوٹے کردار کیلئے تڑپتے اپنے خود ساختہ بڑوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھ کر لگ یونہی رہا ہے کہ یہی ہمارا آنے والا کل بھی ہوگا ۔بات شروع کرتے ہیں مشرف سے اور بات کرتے ہیں تب سے کہ جب وزیراعظم گیلانی کے دورہ امریکہ میں صدر مشرف کو ہٹانے کا حتمی فیصلہ ہو گیا تھا۔’’ان خراب حالات پر میں چپ بیٹھنے والا نہیں ‘‘ ،گورنر ہاؤس کراچی میں پرویز مشرف تقریر کرچکے تھے،دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد ایک آدھ کے علاوہ سب سیاسی جماعتیں ایک ایجنڈے پرتھیں ۔ جنرل(ر) محمود درانی دو سفیروں کو ایوان ِصدر کی انتظار گاہ میں بٹھا کر مشرف سے اپنی گھنٹہ بھر کی میٹنگ میں انہیں چھوڑ چکے دوستوں کا فیڈبیک اور ایک اہم پیغام پہنچا گئے تھے ۔ صدر مشرف کے مواخذے کی باتیں اور اسمبلیاں ٹوٹنے کی چہ میگوئیاں ایک ساتھ جاری تھیں اور پرویز مشرف جن کے بارے میں کہا کرتے کہ ’’وہ میری جیب میں رہتا ہے ‘‘وہ اب جیب سے نکل کر انہیں’’ جاب لیس‘‘ کرنے کی اپنی تیاریاں مکمل کر چکا تھا۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا تو اگست 2007ء کے دوسرے ہفتے کی ایک شام صدر مشرف نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید کو ایوان ِصدر بلایا۔’’ اب مجھے کیا کرنا چاہئے‘‘جنرل طارق کے پہنچنے پر چند رسمی جملوں کے بعد صدر مشرف نے ان سے پوچھا ۔ آپ کے پاس کیا کیا آپشنز ہیں۔جواب دینے کی بجائے جنرل طارق نے سوال کیا۔ آپشنز تو کافی ہیں۔مشرف کا جواب انتہا ئی مختصر تھا ۔ جنر ل کیانی سے بات ہوئی،اُن کی کیا رائے ہے۔جنرل طارق نے دوسرا سوال کیا ۔اُس کی رائے.... وہ تو کچھ بولتا ہی نہیں ، جب بھی میں نے بات کی، ہاں کے آگے کچھ کہتا ہی نہیں۔مشرف اکتائے ہوئے لہجے میں بولے۔سر پھر میرا خیال ہے کہ اب آپ کے پاس باعزت آپشن ایک ہی رہ گیا ہے اور وہ استعفیٰ ہے۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد جنرل طارق نے صدر کو اپنی رائے سے آگاہ کیا۔ تمہارے خیال میں میرے پاس صرف یہی آپشن باقی بچا ہے۔ لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد صدرمشرف بولے ۔جی سر !جنرل طارق نے جواب دیا۔ اور پھر ملائشیاء کے مہاتیر محمد کو استعفیٰ نہ دینے کیلئے فون پر فون کرنے والے صدر مشرف نے 3دن بعد اپنی اس تقریر میں خود استعفیٰ دیدیا جسے وہ ہر صورت لائیو آن ائیر کرانا چاہتے تھے اور جسے کچھ لوگوں کے باہم مشورے کے بعد پرویز مشرف کو بتائے بغیر 30سیکنڈ کے وقفے سے صرف اس لئے نشر کیا جاتا رہا کہ صدر مشرف کا کوئی بھی غیر متوقع اعلان لائیو نہ جاسکے اور وفاقی دارالحکومت کے پنجاب ہاؤس میں (ن لیگ) اور زرداری ہاؤس میں پی پی بھی اس تقریر کے ختم ہونے تک صرف اس لئے دم سادھے بیٹھی رہیں کہ جاتے جاتے پرویز مشرف کہیں سب کچھ ہی ختم نہ کردیں ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ، اِدھر تقریر مکمل ہوئی ، سیاسی جشن شروع ہوا اور اُدھر اسٹاف کو الوداعی لنچ اور خود ایک چکن سینڈ وچ کھانے کے بعد مشرف گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہو گئے ۔
1946میں انڈین سول سروس جوائن کرنے اور زندگی کے آخری دنوں میں مذہبی ہو جانے والے ایوب خان کے رائٹ ہینڈ الطاف گوہرنے ایک دفعہ بتایا (یہ واقعہ اُنہوں نے اپنی بائیو گرافی میں بھی لکھا ہے) کہ ’’ 10سال تک سیاہ و سفید کے مالک ایوب خان کی ایوان ِ صدر سے روانگی کا منظر بڑا ہی درد ناک تھا۔ ان الوداعی لمحوں میں ہم صرف تین لوگ ان کے ساتھ تھے ۔ ایک میں ،ایک اے ڈی سی اور ایک ملٹری سیکرٹری (جنرل رفیع) ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خان گاڑی میں بیٹھے ،پھر اترے اور دوبارہ ایوان صدر کے اندر چلے گئے ۔تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر آئے تو ان کے ہاتھوں میں کچھ کاغذات اور چند کتابیں تھیں جو اے ڈی سی کو پکڑا کر وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھے۔ گاڑی اسٹارٹ ہوئی۔ اُنہوں نے کھڑکی سے منہ نکال کر خدا حافظ کہا۔گاڑی گیٹ کی طرف بڑھی جہاں گارڈز نے آخری مرتبہ اپنے صدر کو سرکاری سیلوٹ کیا ۔لیکن ہمیشہ کیلئے ایوان اقتدار سے رخصت ہوتے وقت صدر ایوب خان کے چہرے کی وہ سلوٹیں اور لرزتے ہونٹ میں آج تک نہیں بھلا پایا ‘‘۔
بھٹو نے6سات سنیئر فوجی افسران کو نظر انداز کرکے آپ کو آرمی چیف بنایا مگر آپ نے انہیں پھانسی دیدی کیوں ؟ جنرل ضیاء الحق کا انٹرویو کرتے ہوئے بی بی سی کے مائیکل شارلٹن نے جب یہ سوال کیا تو ضیاء الحق برجستہ بولے ! اُس کی پھانسی قدرت کا فیصلہ تھا اور یہ اُس کی قسمت میں لکھا جاچکا تھا۔ آپ کا اپنی قسمت کے بارے میں کیا کہنا ہے ۔آپ کو معلوم ہے کہ قدرت نے آپ کیلئے کیا فیصلہ لکھ رکھا ہے ؟اس سوال پراُس دن کوئی واضح جواب دینے کی بجائے ایک لمبا لیکچر جھاڑنے والے ضیاء الحق جب 17اگست 1988ء کی صبح چکلالہ ائیر بیس سے بہاولپور (ٹامیوالی ) کیلئے روزانہ ہورہے تھے تو انہیں کیا معلوم تھا کہ آج ان کے فیصلے کا دن بھی آن پہنچا ہے ۔ بہاولپور میں آدھے دن کی فوجی مصروفیات اور عصر کی نماز پڑھ کر روانہ ہوتے وقت جنرل ضیاء کی نظر جس جس پر پڑی اُنہوں نے اُس اُس کو اپنے جہاز میں واپس جانے کی پیشکش کی ۔اور یوں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل ،امریکی فوجی مشن کے سربراہ بریگیڈئیرجنرل واسم اور بہت سارے پاکستانی اعلیٰ فوجی افسران اپنے جہاز یا واپسی کے ٹکٹ ہونے کے باوجود صدر صاحب کے جہاز میں بیٹھ گئے ۔مگر چونکہ وائس آف آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے فیصلے کا دن ابھی نہیں آیا تھا لہٰذا جنرل ضیاء کی دعوت پر وہ بولے ’’ سر میرے پاس اپنا جہاز ہے اور میں نے واپسی پر ملتان سے ہوکر آنا ہے‘‘۔ تین بجکر 30منٹ پر اڑان بھرنے والا صدر ضیاء کا طیارہ 3بجکر51منٹ پر جب زمین سے ٹکرا رہا تھا تو مجھے نہیں لگتا کہ فیصلے کےان لمحوں میں صدر ضیاء کو بی بی سی کے مائیکل شارلٹن یا اُس کا سوال یاد ہوگا۔ گزشتہ ماہ دبئی میں ایک ڈنر پر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ 5سال اسٹاف آفیسر کے طورپر کام کرنے والے اس سابق بیوروکریٹ سے ملاقات ہوگئی جو صدر ضیاء کی وفات سے اب تک بیرون ملک مقیم ہیں ۔ باتیں شروع ہوئیں اور جب بات ضیاء الحق پر پہنچی تو فریش سلاد کے ساتھ چکن باربی کیو کھاتے کل کی طرح آج بھی چاق و چوبند یہ بیوروکریٹ بولے ’’ہر دوسری رات اپنی بیٹی زین کے ساتھ وی سی آر پر انڈین فلم دیکھنے والے ، والدہ کو پیر دبائے بغیر نہ سونے والے ،بیگم (شفیقہ ) سے’’ ہنی مون‘‘ جیسی محبت کرنے، انتہائی اچھے ٹینس پلیئر اور برے گالفر جنرل ضیاء الحق کاوہ واقعہ سناتا ہوں جو آج تک نہ میں بھلا پایا اور نہ کبھی بھلا پاؤں گا‘‘۔کہنے لگے ’’بھٹو کو 5جولائی 1979ء کو پھانسی دی گئی۔جبکہ 4جولائی صبح 10بجے سے رات 11بجے تک میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھا۔ مجھےکسی ملاقات،کسی ٹیلی فون کال یا ضیاء الحق کی باڈی لیگونج سے یہ محسوس تک نہیں ہوا کہ اگلے چند گھنٹوں میں اتنا بڑا واقعہ ہونے والا ہے ۔ معمول کی آخری میٹنگ کے بعد رات 11بجے ضیاء الحق کو آرمی ہاؤس میں گھر والے حصے میں چھوڑ کر میں اپنے کمرے میں آکر سو گیا۔مگر صبح اٹھ کر جنگ اخبارپڑھا تو میں حیران رہ گیا کہ گزشتہ رات نہ صرف بھٹو کو پھانسی دیدی گئی ،میت سی ون تھرٹی پر لاڑکانہ پہنچا دی گئی،جنازہ ہو گیا بلکہ انہیں دفنا بھی دیا گیا۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے ۔ 5جولائی کی اسی صبح ہم نے دفتر خارجہ کی بریفنگ میں شرکت کرنا تھی۔ ہم معمول کے مطابق صبح 10بجے جنرل ضیاء الحق کو لینے آرمی ہاؤس پہنچے تو وہ اُس صبح بھی بالکل نارمل لگ رہے تھے ۔ ہم راولپنڈی سے اسلام آباد روانہ ہوئے تو صدرضیاء کی گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر میں جبکہ پچھلی سیٹ پرجنرل کے ساتھ بیٹھے ملٹری سیکرٹری انہیں اُس دن کی مصروفیات کے حوالے سے بریف کررہے تھے لیکن پھر اچانک گاڑی میں خاموشی چھا گئی ، میں نے ہلکا سا سر گھما کر پیچھے دیکھا تو مجھے ملٹری سیکرٹری دعا کے انداز میں دونوں ہاتھ اُٹھائے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے نظر آئے ۔(بعد میں ملٹری سیکرٹری نے بتایا کہ ضیاء الحق کے کہنے پر ضیاء اور وہ(دونوں ) بھٹو صاحب کیلئے فاتحہ خوانی کر رہے تھے )خیر انہیں دیکھ کر میں نے بھی ہاتھ اُٹھا لئے ۔انہی لمحوں میں میری نظر سامنے پڑی تو مجھے جیل کی وہ عمارت نظر آئی جہاں گزشتہ رات بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ۔ جونہی ہماری گاڑی جیل کے مرکزی دروازے کے سامنے پہنچی تو ضیاء الحق کی آواز گونجی "How unfortunate"اور پھر اگلے ہی لمحے ہماری گاڑی آگے نکل گئی اور جیل پیچھے رہ گئی۔
تازہ ترین