• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے منظور کرکے ایک خط تنسیخ کھینچ دیا ہے ۔ ایک طرف پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے اور دوسری طرف وہ مٹھی بھر لوگ ہیں ، جوکسی بھی طرح قومی اتفاق رائے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ہمیں نہ صرف اس قومی اتفاق رائے کو برقرار رکھنا ہے بلکہ ہمارے پاس دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے علاوہ اور کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ہمیں بحیثیت قوم پارلیمنٹ کے فیصلے کو تحفظ فراہم کرنا ہے کیونکہ پارلیمنٹ کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہے ۔21 ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے دوران ، جو لوگ پارلیمنٹ میں نہیں آئے یا ترمیم کی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا ،ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ پوری دنیا کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ متفقہ ہے ۔ اس فیصلے میں کسی دباؤ کی وجہ سے تبدیلی کی گئی (یعنی 21 ویں آئینی ترمیم کی کسی شق کو رول بیک یا تبدیل کیا گیا)تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کمزور پڑ جائے گی اور ساتھ ہی ریاست پر بھی زد پڑے گی۔
بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ 21 ویں آئینی ترمیم کسی کے کہنے پر منظور کی گئی ہے ۔ اس تاثر میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اگر فرض کرلیں کہ کسی کی خواہش پر یہ ترمیم کی گئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ وقت کی مجبوری اور حالات کا تقاضا ہے ۔گزشتہ 14 سالوں کے دوران دہشت گردی نے پاکستان کو تباہ و برباد کر دیا ہے ۔ پاکستان کے عوام ہر حال میں دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ممتاز امریکی سیاہ فام رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ ایک وقت ایسا آتا ہے ، جب کسی کو لازماً ایک ایسا فیصلہ کرنا پڑتا ہے، جو نہ تو محفوظ ہوتا ہے اور نہ ہی دانشمندانہ یا مقبول فیصلہ ہوتا ہے لیکن اسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ اس کا ضمیر یہ کہتا ہے کہ یہ فیصلہ درست ہے ۔ ‘‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا آئین ایک زندہ نامیاتی جسم ( Living Organism ) کی طرح ہوتا ہے،جس میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں ۔آئین میں ترمیم کوئی گناہ نہیں۔ دنیا میں ہر جگہ آئینی ترامیم ہوتی ہیں ۔ 21 ویں آئینی ترمیم تو انتہائی مجبوری کے حالات میں مجموعی تحفظ کی خاطر کی گئی ہے اور یہ ترمیم دو سال کی مدت کیلئے ہے ۔ خدا کرے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں دو سال سے پہلے کامیابی نصیب ہو جائے ۔ ورنہ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ نہ صرف اس ترمیم کی مدت میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ سیاسی اور جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ آئین کے لئے بھی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 21ویں آئینی ترمیم نے قوم کو تقسیم نہیں کیا بلکہ اس ترمیم کی مخالفت کرنے والے ہی قوم کو تقسیم کر رہے ہیں ۔وہ مذہب کے نام پر ایک ایسا محاذ بنا رہے ہیں ، جو کسی نہ کسی حوالے سے دہشت گردوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکے۔ فرقہ ورانہ پس منظر رکھنے والے یہ مٹھی بھرلوگ اس محاذ پر اپنی صف بندی کر رہے ہیں ۔ اب ہمیں کسی لگی لپٹی کے بغیر اس حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہئے کہ کچھ ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان افرادی قوت اور وسائل کے حوالے سے مالا مال ملک ہے ۔ اس کی فوج انتہائی منظم ، تجربہ کار اور طاقتور ہے ۔ پاکستان ایک جوہری طاقت بھی ہے ۔ پاکستان میں جو ممالک اپنی ’’پراکسی‘‘ جنگ لڑ رہے ہیں۔وہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے در پے ہیں تاکہ لوگ پاکستان کی بجائے ان ممالک میں سرمایہ کاری کریں ۔ 21 ویں ترمیم کی مخالفت کرنے والے کیا اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے ، اس میں فرقہ واریت کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔ 21 ویں آئینی ترمیم میں دہشت گرد کی تعریف کے معاملے پر شور مچانے کی وجہ سب کو سمجھ آ رہی ہے ۔ اس ترمیم کو متنازع بنانے والے قوم کی خدمت نہیں کر رہے۔ یہ فوج اور اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش ہے ۔ 1971ء میں ہم نے فوج کو متنازع بنایا تھا ، جس کا انتہائی خطرناک نتیجہ نکلا ۔ ہمیں اب اس صورت حال سے بچنا ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ خطرناک موڑ پر آچکی ہے ۔ یہ جنگ مختصر مدت کی نہیں بلکہ طویل ہے۔سب سے زیادہ تشویش ناک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے پیچیدہ مسائل ہیں۔ مجھے اب بھی اس بات کا خوف ہے کہ اس پیچیدہ صورت حال میں سیاسی نظام اور سویلین حکومت کیلئے خطرات بھی پیدا ہو سکتے ہیں ۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جس قومی جنگ کااعلان کیا ہے، اس کے پاکستان کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس جنگ کی وجہ سے سیاسی اصطلاحوں اور الفاظ کے معانی ومفاہیم بھی بدل جائیں گے۔ یہ امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں، جن میں موجودہ منتخب حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے۔یہ جنگ دو دھاری تلوار ہے۔جو اس جنگ میں درست حکمت عملی اختیار کرے گا، وہی سیاسی طورپر باقی رہے گا۔
ہمارے ہاں زیادہ ترسیاسی و مذہبی جماعتیں اس جنگ کے لئے تیار نہیں تھیں اور جنگ کے بعد کے حالات کے لئے بھی وہ تیاری نہیں کررہیں۔ یہ جنگ تو فوری مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو جنگ کے بعد مستقل امن کے لئے تیاری کرنی چاہئے جس میں غربت افلاس، ناانصافی، تعلیم اور ایک متبادل روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہو گا۔ بعض سیاسی جماعتیں خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی کھلی مخالفت کرتی رہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیتی رہی ہیں۔ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے انتہا پسندگروپوں کے ساتھ بالواسطہ یا براہ راست رابطے بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اس جنگ کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ بہ حالت مجبوری وہ اس جنگ کی حمایت کر رہی ہیں۔ جوسیاسی قوتیں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور جنگ کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں ، وہ بھی اس صورت حال کے لئے تیار نہیں تھیں، جو پاک فوج کی طرف سے فوری طور پر جنگ شروع کرنے کے فیصلے کے بعد پیدا ہوئی۔ اب ان سیاسی جماعتوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے اور وہ فوج کو اختیارات دینے کے لئے کس حد تک جاسکتی ہیں۔ جیسے جیسے یہ جنگ آگے بڑھے گی، ویسے ویسے جنگ کی حامی اور مخالف سیاسی و مذہبی جماعتوں میں اختلافات جنم لیںگے اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔اس طویل جنگ میں بہت کچھ توقع کے برعکس ہو سکتا ہے۔
مزید تباہی سے بچنے کے لئے ہمارے پاس جنگ جیتنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمیں دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کا تحفظ کرنا ہے اور پارلیمنٹ کے فیصلے کی روشنی میں مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کا بھرپور ساتھ دینا ہے ۔ ان مٹھی بھر لوگوں کو تنہا کرناہے جن کے لئے انتہا پسندی ایک کاروبار ہے۔اس جنگ میں صوبائی حکومتوں کا کردار زیادہ اہم ہے ۔ پولیس اور دیگر سول سکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں گورننس کو بھی بہتر بنانا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کسی بھی مرحلے پر سیاسی حکومتوں کو عوام میں اپنا اعتماد ختم نہیں کرنا چاہیئے ۔ اگر ایسا ہوا تو نتائج بہت خطرناک ہوں گے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی بھی ضروری ہے اور نظام کو بھی بچانا ہے ۔
تازہ ترین