• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ درست ہے کہ سانپ نکل جائے تو لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اپنی غلطیوں کی اصلاح کےلئے ضروری بھی ہوتا ہے کہ لکیر پیٹی جائے۔ آئین میں اکیسویں ترمیم کا بل اگرچہ ایکٹ آف پارلیمنٹ بھی بن چکا لیکن اس کو موضوع بحث بنانے کا مقصد جمہوریت پسندوں کے ان غیر جمہوری رویوں کی نشان دہی کرنا ہے جن میں تبدیلی نہ لائی گئی تو پارلیمنٹ کی بالا دستی،اس کے کردار اور اہمیت کے حوالے سے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے آئین میں ترمیم جیسا انتہائی اہم بل جس طرح چند گھنٹوں میں منظور کیا، پارلیمانی کی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔اس بل کی منظوری کے وقت میاں رضا ربانی جیسا جمہوریت پسند خصوصی عدالتوں کی حمایت کرتے ہوئے سچ مچ رو بھی دیا۔ یہاں اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ بنیادی انسانی حقوق سے میل نہ رکھنے والا قانون منظور کرتے ہوئے کیا پارلیمنٹ نے واقعی وہ کردار ادا کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اکیسویں آئینی ترمیم کے بل پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں معمول کی بحث نہیں کرائی گئی بلکہ چند پارلیمانی رہنماؤں کو اپنے جذبات کے اظہار کا محدود موقع فراہم کیا گیا۔ایسا اس لئے ہوا کیوں کہ قائد ایوان وزیر اعظم نواز شریف بغیر کسی رکاوٹ کےاس بل کی جلد از جلد منظوری چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے جب کل جماعتی کانفرنس کے دوران قطعیت کے ساتھ فرمایا تھا کہ خصوصی عدالتوں کے قیام کے آئینی ترمیمی بل پر پارلیمنٹ میں بحث کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ گنجائش تو لاشعوری طور پر انہوں نے ملک میں جمہوریت کی علامت یعنی پارلیمنٹ کی ؛اہمیت؛ بھی واضح کردی تھی ۔ اسی پارلیمنٹ کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس نےیہ ترمیم منظور کر کے اپنی ہی ناک کٹوالی ہے۔
یہ بیان دے کر بلاول نے اپنے والد آصف زرداری کی جانب سے آئینی ترمیمی بل کی حمایت کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی لیکن جاننے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ باپ بیٹے کے یہ اختلافات اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں جس کے ذریعے مستقبل پر کمند ڈالنےکی سعی لاحاصل کی جارہی ہے۔پارلیمنٹ اور جمہوریت جس کے بارے میں سرونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ’’ جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے لیکن یہ ان تمام نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جاچکے ہیں‘‘۔ اس میں شبہ نہیں کہ حقیقی جمہوریت میں خود مختاری عوام کے پاس ہوتی ہے جس میں وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ یہی نمائندے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے عوامی اور ملکی مفادات میں ایسے قوانین بناتے ہیں جن میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ ابراہم لنکن نے جمہوریت کو عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے اور عوام کےلئے سے تعبیر کیا تھا۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کو جمہوریت کی علامت سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے سوتے عوام سے ہی پھوٹتے ہیں جنہیں طاقت کا سرچشمہ کہا جاتا ہے لیکن شاہراہ دستور پر واقع جب اس عمارت سے اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد یہ واقعی انتہائی بے وقعت اور لاچار محسوس ہوئی۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو غیر اہم بنانے کا یہ کام کسی اور نے نہیں بلکہ خود اس میں بیٹھنے والوں نے کیا۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک کے غیر معمولی حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں،یہ بھی درست ہے کہ اہم فیصلوں کے لئے ملک کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ تفصیلی مشاورت کی گئی لیکن اس کا قطعا یہ مطلب نہیں تھا کہ پارلیمنٹ کی اس انداز میں نفی کی جاتی کہ اسے آئینی ترمیم کی منظوری جیسے انتہائی اہم معاملے کے لئے بھی صرف ایک ربڑ اسٹیمپ کےطور پر استعمال کیا جاتا۔ وزیر اعظم نے تو اے پی سی میں جو کہا سو کہا لیکن حیرت اور افسوس ہے جمہوریت کے ان علمبرداروں پر جو دن رات جمہوریت کی مالا جپتے نہیں تھکتے، ہر روز ایوان میں کھڑے ہو کر پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئےاپنی قربانیاں گنواتے اور جتاتے ہیں لیکن کسی نے ایک لمحے کےلئے بھی اختلاف رائے کی جرأت کی اور نہ یہ مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کو اس پر جامع بحث کرنی چاہئے۔ قومی اسمبلی میں ہر وقت جمہوریت کا درس دینے والے محمود اچکزئی نے خاموشی اختیار کی تو جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والی پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو بھی چپ لگ گئی،پارلیمانی بالا دستی پر یقین رکھنے والے فاروق ستار نےبھی نے خاموش رہنے میں عافیت جانی تو اقلیتی ارکان کی رائے کااحترام کرنے والے چوہدری شجاعت حسین نے احتجاج کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ ہمیشہ آئین کی پاسداری کو مقدم سمھنے والے افرا سیاب خٹک نےآواز بلند نہیں کی تو پارلیمانی مشاورت کو مسائل کا حل سمجھنے والے مولا فضل الرحمٰن کی زبان نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا ،انہوں نے اگرچہ بعد میں بل پر کرائے جانے والی رائے شماری میں حصہ نہ لے کر ثابت کر دیا کہ وہ آنکھیں بند کر کے عمل نہیں کرسکتے۔ ماضی میں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے پر آستینیں چڑھانے والے چوہدری نثار نے اس بار لب کشائی نہیں کی تو اپنی پارٹی کے نام میں وطن کا لفظ استعمال کرنے والے آفتاب شیر پاؤ بھی اپنے پارلیمانی ساتھیوں کو نظر انداز کرنے پر سراپا احتجاج نہ بنے۔ سیاسی حریفوں کے درمیان مفاہمت قائم کرنی اور روٹھوں کو ایوان میں واپس لانے کے لئے دن رات ایک کرنے والے سراج الحق کی زبان گنگ ہو گئی تو ریاست کو ماں کا درجہ دینے والے اعتزاز احسن بھی اسی ماں کی بے توقیری پر نہ بول سکے،ایک ایک نشست کے ساتھ اہمیت اختیار کرنیوالوں کو اپنے ہم نشستوں کو غیر اہم سمجھا جانا بھا گیا تو پارلیمنٹ کو جعلی سمجھنے والے شاہ محمود قریشی نے بھی وزیر اعظم کے الفاظ کو اپنے مؤقف کی تائید تصور نہ کیا۔ کاش ان جمہوریت پسندوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے ضمیر کی آواز سن لیتا اور پارلیمنٹ کی بے توقیری پر لبیک نہ کہتا لیکن بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جب حقائق آشکار ہو جایا کرتے ہیں ۔ جی ہاں تلخ سچ یہی ہے کہ جمہوریت کی علامت ،اس پارلیمنٹ کی اہمیت؛ بس اتنی ہی ہے کہ وزیر اعظم نے پورا ایک سال اس کے ایوان بالا میں آنے کی زحمت گوارا نہیں کی،انہیں ایوان میں لانے کے لئے گزشتہ سال اپریل میں سینیٹ کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کی گئی لیکن ان پر بھی آج تک عمل درآمد نہ ہو سکا۔ جمہور کی علامت اسی پارلیمنٹ کے یہ مناظر بھی اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ قوم کو خون کے آنسو رلانے والے معصوم بچوں کی المناک شہادت پر قومی اسمبلی میں بحث ہوتی ہے تو کورم تک پورا نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ کی کاروائی اتنی ہی مؤثر ہے کہ قومی اسمبلی 77 قراردادیں پاس کر چکی ہے لیکن کسی ایک قرارداد کے مطابق اقدامات نہیں کئے جاسکے۔ یہ اعزاز بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ہی حاصل ہے کہ قائمہ کمیٹیوں پر ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کے باوجود ان کی سفارشات پر عمل درآمد لازمی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف وفاقی وزیر سینیٹروں کے شدید احتجاج کے باجود ببانگ دہل کہتے ہیں کہ قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت ان پر لازم نہیں ہےپارلیمنٹ کی کارکردگی کو جانچنے والے غیر سرکاری ادارے فافن کی رپورٹ کے مطابق احتجاجی دھرنوں کے دوران جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا تھا تو دو سے انیس ستمبر تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں صرف 11 فیصد ارکان پارلیمنٹ نے بحث میں حصہ لیا تھا اور مشترکہ اجلاس کے دوران بھی ارکان کی حاضری کا تناسب اوسطا 23 سے 32 فیصد تھا۔ یقینا یہ حقائق تلخ ہیں اور اپنی انہی کمزوریوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کو اہم نہیں سمجھا گیا لیکن مت بھولیں کہ جب وزیر اعظم اور ارکان پارلیمنٹ خود اپنے ادارے کو غیر اہم جانیں گے تو دوسرے اس کی اہمیت کا ادراک کیونکر کریں گے۔جمہوریت کو مظبوط اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لئے اس میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا جائے۔ اسے کمزور کرنے کی بجائے اسے مضبوط کیا جائے۔ یہ نہ بھولیں کہ احتجاجی دھرنوں نے جب حکومت کی چولہیں ہلا دی تھیں تو اسی پارلیمنٹ نے جمہوریت کو جلا بخشی تھی اس لئے سب جمہوریت پسندوں سے گزارش ہے کہ اس شاخ کو مت کاٹیں جس پر بیٹھے ہیں۔
تازہ ترین