• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے 71ویں جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران جہاں کرہ ارض کے اسٹرٹیجک، سماجی اور معاشی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ بڑی طاقتوں کی محاذ آرائی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تشویش انگیز پہلوئوں پر مبذول کرائی وہاں مظلوم کشمیری عوام کا مقدمہ بھی مدلّل، مدبرانہ اور متوازن انداز میں پیش کیا جو تقریباً سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کے نفاذ کے منتظر ہیں جن میں ریاست جموں و کشمیر کے باسیوں کو عالمی ادارے کی نگرانی میں کرائی جانے والی آزادانہ وغیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا حق دیا گیا ہے مگر نئی دہلی کے حکمراں ان قراردادوں پر عملدرآمد کی بین الاقوامی ذمہ داری اور سلامتی کونسل میں کئے گئے بھارتی وعدے کی پاسداری کی بجائے کشمیری عوام پر تین نسلوں سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہہ کر عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی توہین کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کبھی بھارت میں شامل نہیں رہی بلکہ ہندوستان کئی بار کشمیر سے آنے والے حکمرانوں کے زیرنگیں رہا ہے اور 1947ء میں برطانوی استعمار کی رخصتی کے وقت برٹش انڈیا کی دو ملکوں میں تقسیم کے لئے جو فارمولا وضع کیا گیا تھا اس کے تحت مسلم اکثریت کی حامل ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر نئی دہلی کے حکمرانوں نے من مانے طور پر اپنی فوجیں ریاست میں اتار کر ایک طرف پاکستان کے لئے دریائی پانی کے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیاد ڈالی دوسری جانب کشمیری عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی وہ کوشش کی جس کی ریاستی عوام نے اپنے قبائلی حامیوں کی مدد سے مزاحمت کی اور کشمیر کے ایک حصے کو آزاد کراکر جب سری نگر کی طرف بڑھے تو بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اپنی فوج کو ہتھیار ڈالنے کی خفت سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ میں جاکر واویلا کیا اور عالمی برادری کے روبرو یہ وعدہ کیا کہ کشمیری عوام استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے وہ نئی دہلی کے لئے قابل قبول ہوگا۔ اسی لئے کشمیر کی حیثیت آج تک بھارت کے تمامتر ہتھکنڈوں کے باوجود برٹش انڈیا کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کی ہے۔ کشمیری عوام کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا حق خودارادیت حاصل کرنے کی جدوجہد کئی نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی تین نسلوں سے جاری ہے اور 8؍جولائی کو 21؍سالہ نوجوان رہنما برہان وانی کے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے بعد کشمیری عوام کا بہیمانہ صبر لبریز ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف وہ پہلے پاکستانی رہنما ہیں جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر میں 76روز سے جاری کرفیو، 100سے زیادہ افراد کے قتل، ہزاروں افراد کے پیلٹ گنوں سے نابینا ہونے اور لاتعداد افراد کے معذور ہونے کے باوجود اپنے گھروں سے نکل کر گلی کوچوں میں آزادی آزادی کے نعرے لگانے والے کشمیری عوام کی تحریک کے لئے انتفاضہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ قبل ازیں یہ لفظ مقبوضہ فلسطین میں جاری اس جدوجہد کے بارے میں استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کے نتائج کی طرف ایک اشارہ جنرل اسمبلی کے اسی اجلاس میں امریکی صدر بارک اوباما کے خطاب کے ان الفاظ سے ملتا ہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ اسرائیل کے لئے زیادہ دیر تک فلسطین پر قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے نہ صرف پاکستان میں اس برس سے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق ملنے کے وقت تک آنے والی ہر عیدالاضحی کو کشمیریوں کے نام کرنے کا اعلان کیا ہے اور اپنے اقوام متحدہ کے دورے کو ’’کشمیرمشن ‘‘سے موسوم کیا ہے بلکہ ان کا خطاب ماضی میں کی گئی پاکستانی لیڈروں کی ان تقریروں سے مختلف ثابت ہوا ہے جن میں مسئلہ کشمیر کا ذکر سرسری طورپر ملتا رہا۔ میاں نواز شریف نے نہ صرف جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف موثر انداز میں پیش کیا بلکہ مذکورہ اجلاس میں اور اس سے قبل چین، ترکی، اٹلی اور سوڈان کی طرف سے پاکستانی موقف کی جس طرح کھل کر تائید کی گئی اس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں خاصی مدد ملی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 8جولائی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں عوامی ابھار کی جو نئی لہر اٹھی ہے اس میں دی گئی قربانیاں عالمی سطح پر رنگ لاتی محسوس ہورہی ہیں۔ میاں نواز شریف نے عالمی برادری پر واضح کیا کہ تنازع کشمیر کے تصفیے کے بغیر بھارت اور پاکستان کے درمیان معمول کے تعلقات ممکن نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کی تحقیقات اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ذریعے کر اکر مجرم پائے جانے والوں کو سزا دی جائے، کشمیر کے سیاسی اسیروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے ،اورکشمیری لیڈروں کے بیرونی دوروں پر عائد پابندی ختم کی جائے، سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کروائے، جنرل اسمبلی بھارت سے اس کے کئی بار کئے گئے وعدوں کی پاسداری کروائے اور مقبوضہ وادی کو غیر فوجی علاقہ بنایا جائے۔ اگرچہ وزیراعظم نواز شریف کا پورا ہی خطاب غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے مگر ان کے اس انتباہ کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے کہ بیرونی سرپرستی میں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیراعظم نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ بات چیت کی پیشکش کرکے اور ایٹمی تجربات محدود کرنے کے لئے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرکے پاکستان کی اس خواہش کا اعادہ کیا ہے جس اظہار برصغیرمیں قیام امن کے لئے باربار کیا جاتا رہا ہے مگر بھارت کی طرف سے شرائط عائد کرنے اور حیلوں بہانوں سے بات چیت سے گریز کی حکمت عملی کے باعث جنوبی ایشیا مسلسل تنائو کی کیفیت میں ہے۔ بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ برصغیر کے عوام کو مستقل طور پر کشیدگی کی کیفیت میں مبتلا رکھنا کسی طور پر بھی پاکستان اور بھارت سمیت خطے کے مفاد میں نہیں۔ مسئلہ کشمیر کو اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کشیدگی کے بجائے دوستی و امن کی علامت بناکر خوشحالی کا وہ دور واپس لایا جاسکتا ہے جس کے باعث ایک وقت میں جنوبی ایشیا پوری دنیا کے لئے کشش اور دلچسپی کا خاص مرکز رہا ہے۔


.
تازہ ترین