• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں ایک نہایت محترم و مقتدر کالم نگار نے اپنی تحریر میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو ’’کرپشن‘‘ کے جزیرے کا مکین ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ بھٹو صاحب کے دشمنوں نے ان کی ’’مسلمانی چیک‘‘ کرنے سے لے کر ان کے والدین تک ان کے والدین سے لے کر زندگی تک ہر الزام تک، انہیں ہدف بنائے رکھا لیکن کم از کم میرے علم میں نہیں، ان پر ’’کرپشن‘‘ کا داغ لگانے کا ارتکاب کبھی کیا گیا۔ یہ کسر محترم و مقتدر برادر کالم نگار نے پوری کر دی کہ تاریخ الزامات و دشنام طرازی کا کوئی خانہ خالی نہ رہ جائے۔ آپ کا کہنا ہے۔ ’’اور تو اور ہمارے ہاں روپے پیسے کے معاملے میں دیانت دار سمجھے جانے والے حکمران بھی اپنا دامن صاف نہیں رکھتے۔ ایک نیک نام سمجھے جانے والے حکمران کے دور میں شمالی پہاڑی علاقوں میں زلزلہ آیا، اس سانحے پر غیر ملکی دوستوں نے ہماری مدد کی خصوصاً عرب ملکوں نے، لیبیا کے کرنل قذافی اس حکمران کےخاص دوست تھے، انہوں نے امدادی چیک اپنے اس دوست کے نام بھیجا جو انہوں نے اپنے نام جمع کرا دیا اور اس کی بھاری رقم بھی اپنے پاس ہی رکھ لی۔ وہ نہ تو کسی بڑے کاروباری خاندان سے تھے نہ ہی بڑے جاگیردار تھے۔ زمیندار تھے مگر درمیانے درجے کے، ان کی اس خفیہ دولت کا پتہ ان کے انتقال کے بعد چلا جب اس دولت پر ان کے پسماندگان میں لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا اور یہ خاندانی تنازعہ اس قدر بڑھ گیا کہ وارثوں میں سے ایک بھائی کی کسی وجہ سے موت ہی واقع ہو گئی۔‘‘ اب یہاں متعدد سوالات موجود ہیں مگر قومی امانتوں کے حوالے سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی چند باتیں ان کی زبانی سنتے ہیں، جن کا محترم برادر نے اپنی تحریر میں گو نام نہیں لیا بہرحال اول و آخر ان کا ٹارگٹ بھٹو صاحب ہی ہیں کہ 1970ء سے آج تک، بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں دائیں بازو کی ذہنی و سیاسی شکست اس کی روح کا وہ نامراد گھائو ہے جو کسی طرح بھرنے میں آتا، اس مکتب فکر کے سینئر ترجمانوں کی عمریں بیت گئی ہیں،میں جو ان سے عمر اور صحافت دونوں میں جونیئر ہوں، بوڑھا ہو چکا ہوں، ان حضرات کی صورتحال کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں، خیر پہلے ا س موضوع پر بھٹو صاحب کا زبانی تفصیلی بیانیہ پڑھ لیں۔
مرحوم کا کہنا ہے ’’1970ء کے انتخابات کے دوران میں جب ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا ایک غیر ملکی مجھ سے ملنے کے لئے آیا۔ جب تعارف اور رسمی تکلفات ختم ہو گئے تو اس شریف آدمی نے مجھے بتایا کہ اسے اس کے صدر نے انتخابات میں میری مدد کی پیشکش کے ساتھ بھیجا ہے۔ اس پیشکش کے آگے میرا ردعمل کیسا تھا؟ اس واقعہ کے ٹھیک چار دن بعد لاہور کے چند وکیلوں نے میرے اعزاز میں انٹرنیشنل ہوٹل میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ میں نے اس مذکورہ صدر کو مشرق وسطیٰ کے تصفیے ’’راجرز پلان‘‘ قبول کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ میری تقریر کے ایک ہفتہ یا اس سے زائد وقت کے بعد کراچی میں میری رہائش گاہ پر اس ملک کا سفیر مجھے ملنے کے لئے تشریف لایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے صدر نے میری تقریر پڑھی تھی اور انہوں نے اپے سفیر کو اس ہدایت کے ساتھ روانہ کیا تھا کہ وہ مجھے بتائیں کہ میں نے یہ تنقید کر کے ان کا دل توڑ دیا ہے۔ میں نے ان کے سفیر کو جواب دیا کہ وہ میرا پیغام بہ صد احترام ان تک پہنچا دیں کہ انہوں نے یہ پلان قبول کر کے میرا دل توڑا تھا۔ لاتعداد مثالیں ہیں۔ حال ہی کی ایک مثال یہ ہے کہ جب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ خلاد اکتوبر 1976ء کو پاکستان تشریف لائے تھے انہوں نے مجھے ایک رولز رائیس کار تحفے میں دی اور یہ اصرار کیا کہ یہ ایک ذاتی تحفہ ہے جو صرف میری ذات کے لئے ہے۔ میں نے تہہ دل کے ساتھ اس فیاضانہ تحفے کا شکریہ ادا کیا تاہم یہ کار فوری سرکاری املاک میں رجسٹر کرا دی۔ اگر گورنر جنرل غلام محمد ہز میجسٹی شاہ ابن سعود کی کیڈلک اپنے لئے لے سکتا تھا تو میں بھی یہ رولز رائس اپنے لئے رکھ سکتا تھا۔ میں کوئی ولی نہیں ہوں اور نہ ہی میں کوئی اتنا بڑا گہنگار ہوں جتنا مجھے یہفوجی حکومت ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ان تمام برسوں میں میں اپنی نیک نامی کے حفاظت کے لئے بہت تگ و دو کرتا رہا ہوں۔ میرے اندر بہت ساری خامیاں ہیں۔ میں نے عظیم الشان عوامی اجتماعات کے اندر اپنی ان کمزوریوں کا برملا اعتراف کیا ہے لیکن میں ایک کرپٹ انسان نہیں ہوں۔ مجھے اذیت دینے والوں نے پاکستان کے نام کی تذلیل کی ہے! ‘‘
ناقابل یقین نکتہ ہے، جس مریضانہ ترین ذہنیت نے، بھٹو صاحب کے تختہ دار کو سرفراز کئے جانے کے بعد، ان کی ’’مسلمانی چیک‘‘ کرنے کی قلبی بدصورتی میں جنم لیا تھا، وہ بھٹو صاحب کے خلاف شائع کردہ ’’وائٹ پیپر‘‘ میں کرنل قذافی کا چیک کیسے بھول گئی؟ کاش! یہ مقدمہ دوبارہ شروع ہو، متنازع گہنگار کی بے گناہی ان کی تہمت تراش بیہتمت کا کفن ثابت ہو، وہ تاریخ میں سرخرو کیا جائے جس نے پاکستان کے ناقابل تسخیر ہونے کی بنیاد رکھی، اور یہتو جرأت نہیں شقاوت کا برہنہ مظاہرہ ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کی المناک موت کو کسی بھی کیفیت یا نوعیت کے تحت بدگمانی کے شاخسانے پر مبنی اس وقوعے کے ساتھ نتھی کیا جا سکتا ہے! میرے دوست نے کبھی کیا روحانی سی سچائی کا اظہار کیا تھا ’’جب تک 1970ء کی پوری نسل، اگلے جہان کو نہیں سدھار جاتی اس دھرتی کا باشندہ نارمل ہونے سے رہا۔‘‘
میڈیا کے پاس ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے سلسلے میں ایک اور صحافتی شغل بازی کی مصروفیت بھی موجود ہے، وہ ہے بلاول بھٹو کے اپنے والد گرامی ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری سے اختلافات وغیرہ، مزید جتنے جملے لکھے جاتے ہیں، انہیں بھی وغیرہ کے بلیک معمول میں غرق کر دینا چاہئے۔ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو کے پریس ترجمان جناب بشیر ریاض کا، اسی تناظر میں مجھے ایک خط بھی موصول ہوا، چند سطور حذف کرنے کے بعد، میں پہلے وہ خط قارئین اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں!
جناب بشیر ریاض رقم طراز ہیں:۔
محترم سعید اظہر صاحب!
السلام علیکم
آپ نے اپنے تازہ کالم (بدھ 17؍ دسمبر2014) ’’ زرداری اور بلاول اختلافات کے حقائق‘‘ میں صحیح صورتحال بیان کی ہے۔ جس کے لئے آپ کا شکریہ لیکن افواہ بازی کا سلسلہ پھر بھی جاری رہے گا کیونکہ بھٹو مخالف عناصر کا یہ ذہنی مشغلہ ہے۔
اپنے اس کالم میں آپ نے فراخدلی سے میری تحسین و تعریف کی ہے اور بعض احباب کے اعتراض کا بھی ذکر کیا ہے۔ یقین کیجئے میں خود کو اس کا مستحق نہیں سمجھتا۔ اس لئے مجھے بھی یہ شکایت ہے کہ آپ اتنی شفقت کیوں فرماتے ہیں۔ مجھے نمود و نمائش اور شہرت کی کبھی بھوک اور خواہش نہیں رہی اپنے کاز سے وابستگی اور اس کی بجا آوری میرے لئے سب سے بڑی وجہ تسکین ہے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جناب آصف علی زرداری کے دور صدارت میں آپ نے ایک روزنامہ میں یہ لکھا تھا کہ مجھے سرکاری ایوارڈ نوازا جائے اور میں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ اگلے کالم میں لکھیں کہ مجھے کوئی سرکاری ایوارڈ نہیں چاہئے۔ میرے لئے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید مجھے اپنے خاندان کا فرد سمجھتی تھیں ان کا بھرپور اور مکمل اعتماد حاصل تھا۔ آپ نے دوسرا کالم لکھا اور میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ اپنے گزشتہ کالم ’’بلاول بھٹو کی نئی ٹیم‘‘ میں آپ نے میرے بارے میں جن جذبات کا تعریفی اظہار کیا ہے پڑھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ آیا میں اس کا مستحق ہوں۔ آپ اسے میرا اعتراض بھی کہہ سکتے ہیں اور اس سے ان احباب کو بھی ذہنی سکون ملنا چاہئے کہ ’’ایک فرد کی اتنی تفصیل کیوں؟‘‘
میری کسر نفسی ہی میری شناخت ہے شکریہ!
(مخلص بشیر ریاض 18؍ دسمبر 2014)
پتہ نہیں کس خمیر سے تیار شدہ دماغ ہیں جن کی سطح نے ارتقاء سے منہ موڑنے کی قسم اٹھا رکھی ہے، بالغ نظری سے محرومی کے لئے مستقل دعا گو رہتے ہیں، بیٹا کہہ رہا ہے ’’میرے والد کمان ہیں، میں تیر ہوں‘‘، یہ اس بیان سے اگلے روز، لڑاکا عورتوں کی طرح، اپنے اپنے قلم کے ساتھ چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں ’’نہیں نہیں! وہ دیکھو پیپلز پارٹی میں دراڑ پڑ رہی ہے، آگے ہو کے دیکھو،‘‘ ’’آگے ہو کے، اللہ کے بندو کیا دیکھنا، خبروں کے لئے تمہارے پاس مواد نہیں، معیار کوئی رہا نہیں، کاغذ کا پیٹ بھرنا ہے، اس کی تواضع رطب و یابس سے ہی کرو گے، تمہارے اخباری کشکول میں اور ہے ہی کیا؟
تازہ ترین