• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایکشن پلان کے ساتھ اور بھی بہت سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک اہم ترین کام، قوم کو خوف سے نکالنا ہے، خصوصاً بچوں کو۔ تین سال کی یُمنیٰ کا جملہ دل پر لگا۔ ’’میں اسکول نہیں جائوں گی، وہاں بچوں کو مار دیتے ہیں‘‘۔ پہلے تو لگا اس نے مارتے ہیں، پٹائی وغیرہ قسم کی کوئی چیز کہی ہے، جو اسکولوں میں عام ہے۔ مگر اس معصوم ، مگر سمجھدار بچی نے یہ جملہ دہرایا، ایک کپکپی سی بدن میں دوڑ گئی۔سانحہ پشاور سے ہزار میل دور، میر پور خاص میں،صرف ٹی وی پر خبریں سن کر دیکھ کر ایک بچی پر اتنا اثر ہو سکتا ہےتو ، ان بچوں کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوگی جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے ساتھیوں کو ہلا ک کیا گیا،خون میں نہلایا گیا۔ا ور پھر پورے ملک کے بچے، وہ بھی تو خوفزدہ ہوئے ہیں۔انہیں بھی، ان سب کو اور پوری قوم کو خوف کی اس مسموم فضا سے نکالنا ہے۔ اس کے لئے ماہرین کی مدد لی جائے،ٹی وی پر اس طرح کے پروگرام پیش کئے جائیں کہ آہستہ آہستہ قوم، اورخصوصاً بچے اس خوف سے نکل آئیں،درد تو بھلایا نہیں جاسکتا، دکھ بھی زندگی بھر کا ہے، اس کے اثرات تومگر کم کئے جا سکتے ہیں۔ یہ تو کر لیں۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ قوم کو مزید خوف میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ سارا دن اگر حفاظتی اقدامات کے حوالے سے، معاف کیجئے گا، غیر ذمہ داری کے ساتھ خبریں دکھائی اورسنائی جاتی رہیں تو ان کے اثرات منفی ہی ہوں گے۔ اسکولوں میں حفاظتی اقدامات کئے جا رہے ہیں، اسکولوں میں چھٹیاں بڑھادی گئی ہیں، دیواریں اونچی کی جا رہی ہیں، اساتذہ کو اسلحہ رکھنے کی اجازت ہوگی۔ یہ اور اس طرح کی خبروں سے لوگوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے،کسی نے سوچا؟ نہیںتو اب سوچیں۔ اور مثبت طریقہ اختیار کریں، حالات سے نمٹنے کے۔
اور ادھرآج کے پشاور پربھی ایک نظر ڈالیں۔ کہ حالیہ المنا ک سانحہ یہیں اس قوم پر ٹوٹا، یہیں ہمارے بچے ہم سے چھینے گئے، یہیں ہمارے مستقبل پر حملہ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس دردناک حادثے سے ہمارے اربابِ اقتدار نے کوئی سبق سیکھا ہوتا،کوئی موثر حکمتِ عملی اپنائی ہوتی،کچھ ایسے اقدامات کئے ہوتے کہ آئندہ قوم اس طرح کے حادثات سے محفوظ رہ سکتی۔ مگر ایسا ہوا نہیں، اور یہی افسوس کی بات ہے۔پشاورآج بھی نہ صرف غیر محفوظ ہے، بلکہ حفاظتی اقدامات کے نام پر جو طریقۂ کار اختیار کیا گیا ہے وہ اتنا کمزور ہے کہ اس سے کوئی بھی دشمن ،خاکم بہ دہن، کبھی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ذمہ داران کو بہت واضح خرابیاں نظر نہیں آتیں، اور دوسری طرف وہ ایسے اقدامات کرتے ہیںکہ نہ صرف عوام مشکلات کا، شدید مشکلات کا، شکار ہوتے ہیں،بلکہ ان اقدامات کے نتیجے میں، شہر کے مختلف علاقوں میں دن میںکئی بار،متعدد سڑکوں پر گاڑیوں کا اتنا ہجوم ہو جاتا ہےکہ کوئی بھی تخریب کاری خاصی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
مگر پہلے پشاور کے ہوائی اڈے کا حال ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ہوائی اڈے پر پچھلے دنوںکئی بار تخریب کاری کی کوشش کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں بعض غیر ملکی فضائی کمپنیوں نے پشاور کے لئے اپنی پروازیں بند کردی ہیں۔ تو اس کے بعد کیا ہونا چاہئے تھا؟ کیا اس کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت ہے؟ حفاظتی اقدامات بہتر کرنے کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے ہر ہوائی اڈے پر ایسے ramp بنے ہوئے ہیں جن پر گاڑیوں کو ذرا سا روک کر ان کے نیچے کے حصے کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہاں کوئی بم وغیرہ تو نہیں لگا ہوا۔ اس ramp پر کیمرہ ہوتا ہے اور بلب۔ دنیا کے سارے ادارے جب حفاظتی اقدامات کی تربیت دیتے ہیں تو عام لوگوں کو بھی یہ سکھایا جاتا ہے کہ اگر آپ نے اپنی گاڑی تھوڑی دیر کے لئے اکیلی چھوڑدی ہے تو واپس آکر اس کے نچلے حصے کا جائزہ لیں کہ کچھ لگا ہوا تو نہیں ہے۔ عام طور پر، کسی مصروف مقام پر، کسی دہشت گرد کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ پلاسٹک بم کو بہت احتیاط سے گاڑی کے نیچے اتنا دور لگا سکے کہ ایک نظر میں اس کا پتہ نہ چلے۔ وہ چلتے چلتے، مقناطیس کے ساتھ کوئی بم، کوئی دھماکہ خیز مواد لوہے کے کسی پرزے کا ساتھ لگا سکتا ہے۔ آپ ایک نظر میں ہی اسے تلاش بھی کر سکتے ہیں۔ جب آپ واپس آئیں تو ذرا سا جھک کر نیچے دیکھ لیں، مڈ گاڑد دیکھ لیں۔ اور اگر کوئی غیر معمولی چیز نظر آئے تو دور ہٹ جائیں او ر پولیس کو اطلاع دیں۔ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہوائی اڈوں پراسی طرح کی چیزوں کو تلاش کرنے کے لئے، ramp بنے ہوئے ہیں۔
پشاور ہوائی اڈے کے ramp خراب ہیں۔
نہ ان کے کیمرے کام کرتے ہیں ، نہ بلب جلتے ہیں۔وہ پہلی نظر میں ہی ٹوٹے پھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں اتنی واضح خرابی، خامی نظر نہیں آتی، اور وہ بھی اس شہر کی جہاں ابھی اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے کہ قوم کافی عرصہ تک اس کے غم سے نجات نہیں پا سکے گی۔ ایک ریمپ کو ٹھیک کرنے میں کیا خرچ آئے گا اور کتنا وقت لگے گا کہ انہیں ٹھیک نہیں کیا جا رہا۔ اسی ہوائی اڈے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں اپنے پیاروں کا خیر مقدم کرنے کے لئے آنے والے ہر شخص سے بیس روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے کسی اور ہوائی اڈے پر تو ایسا نہیں ہوتا۔ پشاور کا اڈہ کیا کسی اور سیارے پر واقع ہے؟ کیا وہاں سول ایوی ایشن کے سوا کوئی اور ادارہ اس اڈے کا ذمہ دار ہے؟ یہ کیسے لوگ ہیں کہ ایک ہی ملک میں الگ الگ نظام، الگ الگ رویہ رکھتے ہیں۔ کوئی ٹھیکیدارہوگا جس کا پیٹ ان غریبوں کی جیب سے چھینی ہوئی رقم سے بھرتا ہو گا، اور اس میں کئی دوسرے بڑے بھی شریک ہوں گے۔
مگر یہاں تک پہنچنے میں آپ کو کافی سے بھی زیادہ وقت لگے گا۔ راستے میں ایک جگہ کسی سیکورٹی ادارے کی چیک پوسٹ ہے۔ وہاں کس طرح کی چیکنگ کی جاتی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جو نظر آتا ہے وہ یہ کہ آگے اور پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہے، جو وقفہ وقفہ سے رینگتی ہیں۔ یہاں اتنی گاڑیاں جمع ہو جاتی ہیں کہ اگرکوئی کچھ کردے تو خاصا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ سارا دن جو نقصان یہاں ہوتا ہے وہ وقت کا ہے۔ آہستہ آہستہ ، چیک پوسٹ پر تعینات اہلکار ایک ایک گاڑی چیک کرتے ہیں۔کارڈ دکھائیں۔ کارڈ ٹیکسی کے ڈرائیور نے اپنا دکھایا، مسافر سے کچھ نہیں پوچھا گیا۔ یہ مرحلہ ایک طویل انتظار کے بعد طے ہوا۔ اطمینان کی ایک سانس ابھی لی ہی تھی کہ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا اصل مرحلہ تو ابھی آئے گا، ہوائی اڈے کی چیکنگ کا ، وہاںزیادہ وقت لگتا ہے۔ ہوائی اڈہ قریب ہی ہے۔ چیک پوسٹ سے تھوڑا ہی آگے، گاڑیوں کی لمبی قطاریں، ایک ساتھ تین تین ۔ گاڑیاں یہاں بھی رک رک کے رینگ رہی تھیں۔ روزانہ، سارے دن ایسے ہی ہوتا ہے۔ ٹیکسی نے اب اس نئی قطار میں رینگنا شروع کردیا۔ پرواز کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ رینگنا ختم ہی نہیں ہوتا۔ قطار کا دوسرا سرا آگے، کہیں بہت آگے ہے۔ گھڑی کی رفتار تیز ہے، گاڑی کی رفتار کم۔ اعصابی تنائوہے کہ بڑھا جاتا ہے۔ گاڑی بالآخر ہوائی اڈے کے گیٹ تک پہنچتی ہے۔ چیکنگ ہو رہی ہے۔کیا لا جواب سوال ہے۔کیوں آئے تھے؟ شادی تھی۔کہاں جا رہےہیں؟کراچی۔ اُدھرکہاں جا رہے ہیں؟ ہاتھ کا اشارہ ہوائی اڈے کی طرف تھا۔ ایئر پورٹ۔ جائیں۔گاڑی کی اور کوئی چیکنگ نہیں کی گئی۔ اس کے اندر کیا بھرا ہوا ہے، پیچھے بہت سے ڈبے رکھے ہوئے ہیں، ان میں کیا ہے؟گاڑی کے نیچے توکچھ نہیں لگا ہوا؟ کوئی دلچسپی شاید ان معاملات سے نہیں ہے۔ تو پھر کیسی چیکنگ اور اس کا فائدہ؟ وقت ضائع ہوا۔ بمشکل پرواز مل سکی۔ بہت سے تو رہ گئے ہوں گے، رہ جاتے ہوں گے۔
دن بھر شہر کے مختلف علاقوں میں ایسی ہی ناکہ بندی رہتی ہے۔ اگر کوئی اہم شخصیت آ رہی ہے تو اور مشکل ۔ اس کے راستے کی ساری سڑکیں بند، جو اب پورے ملک کا وی آئی پی کلچر بن گیا ہے، یہاں بھی اسی دھوم دھام سے ہے۔ لیکن عام حالات میںبھی جس طرح ناکہ بندی کی جاتی ہے، چیک پوسٹوں پر چیکنگ کی جاتی ہے، اس کا فائدہ کم، نقصان زیادہ ہے۔ اس کا کوئی بہتر متبادل تلاش کرنا چاہیئے۔ چیکنگ ضرور ہو، مگر اس طرح کہ لوگوں کو اذیت محسوس نہ ہو، انہیں گھنٹوں سفر میں ضائع نہ کرنے پڑیں۔ اور اس ہجوم میں وہ جس مسلسل اذیت اور خوف کا شکار رہتے ہیں، اس سے انہیں نجات ملے۔ یہ روز روز کی، دن میں کئی بار کی اذیت، آگے چل کر بہت منفی اثرات مترتب کر سکتی ہے۔ قوم کو سکون کی ضرورت ہے، امن کی ضرورت ہے، انہیں بھی پیشِ نظر رکھیں۔
تازہ ترین