• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ مبادیات تبدیلی سے ماورا ہوتی ہیں۔ یہ رہے ہم اور ہماری دانائی۔ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر ِاعظم اپنے خطاب میں افغانستان کو عقلمندی کا درس دینا نہ بھولے۔ ارشاد ہوا، افغانستان کا امن کابل حکومت اور طالبان کے درمیان گفتگو میں مضمر ہے ۔ خدا کے لئے، افغانوں کے تمام دھڑے ہم سے تنگ آچکے ہیں، وہ پاکستان کے نام سے بھی نفرت کرتے ہیں، اور، درست یا غلط، ہمیں اپنے تمام مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں، لیکن ایک ہم ہیں کہ اُن سے مخاطب ہوئے بغیر ہمیں چین ہی نہیں آتا۔ ایسا کرتے ہوئے ہم اُن کی مزید نفرت سمیٹتے ہیں۔ ہمیں اُنہیں نصیحت کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ افغانستان کی جان چھوڑ دیں ۔ یہ اُن کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے تنازعات کیسے طے کرتے ہیں۔ اگر وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرنا پسند کرتے ہیں تو ٹھیک، کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کا سردرد ہے ، ہم نے اپنا ہاتھ کیوں بیلن میں دیا ہوا ہے ؟جو کچھ ہم نے افغانستان کے لئے کیا، اس کا اُنھوں نے کبھی شکریہ تک ادا نہیں کیا، آئندہ بھی نہیں کریں گے ۔ ہمیں اس بات کی سمجھ کتنے جوتے اور کتنے پیاز کھا کر آئے گی؟
سوال یہ ہے کہ جب وزیر ِاعظم نوا زشریف افغان مسائل کے گدلے پانی میں قدم رکھ رہے تھے تو کیا وہ اپنی مرضی سے ایسا کررہے تھے ؟ یہ اُن کی اپنی رائے تھی یا وہ ’’دوسروں‘‘ کا لکھا ہواا سکرپٹ پڑھ رہے تھے ؟اور آپ سب جانتے ہیںکہ ’’دوسروں‘‘سے کیا مراد ہے۔ اب اﷲ ہی جانتا ہے کہ ہم پر کس منحوس ستارے کا اثر ہے کہ ہم سبق سیکھنے کے لئے بنے ہی نہیں۔ دنیا جوتے مارتی ہے ، ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ بھونچال پہاڑوں کو اچھال دیتے ہیں، ہماری عقل پر پڑے ہوئے پتھر سرکنے کا نام نہیں لیتے ۔ خدا کے لئے افغانوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں، وہ جانیں اور اُن کے مسائل۔ اب کوئٹہ شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک جیسے دہرے کھیل کھیلنا موقوف کردیں۔ اُنہیں دوٹوک الفاظ میں بتائیں کہ اب وہ اپنی مقدس اور قابل ِ فخر افغان سرزمین پر تشریف لے جائیں، ان کے جانے سے ہمارا جتنا بھی نقصان ہوتا ہے ، ہو لینے دیں، ہم برداشت کریں گے ۔ نرم الفاظ میں گوش گزار کریں کہ ہم اُن سے محبت کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ آفاقی حقیقت بھی سمجھا دیں کہ محبت کو قربت تباہ کردیتی ہے ، فاصلہ اشتیاق بڑھاتا ہے ۔ ہم مشتاق رہنا چاہتے ہیں، بیزار نہیں۔ حقانی اور کوئٹہ شوریٰ سے فرمائیے کہ ہم دل پر پتھر رکھ لیں گے، بس آپ یہاںسے چلے جائیں۔
محترم و محتشم اشرف غنی اورابدالی ٔ وقت، عبداﷲ عبداﷲ جی بھر کے لڑیں، لڑتے رہیں، ہزاروں سال تک ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہیں، لیکن ہماری توبہ ، ہماری آنے والی نسلوں کی توبہ اگر ہم آنکھ اٹھا کر بھی سرحد پار دیکھیں ، یا ہلاک شدگان کے غم میں ہماری ایک رات کی نیند بھی خراب ہو۔ لیکن اس کے لئے قوم کے جذبات کو شعلگی دینے والوں اور نظریات اور اسی سے ملتے جلتے مبہم تصورات کے محافظوں کو اپنے کچھ سیکھے ہوئے اسباق بھولنے کی ضرورت ہوگی ۔ جی ایچ کیو،آئی ایس آئی، ایم آئی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور اسٹاف کالج کو اپنی فکری تطہیرکرتے اوراپنے سابق عقائد سے توبہ کرتے ہوئے یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ جہاں سے افغان سرحد شروع ہوتی ہے ، وہاں پاکستان کی تزویراتی حکمت ِعملی ختم ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد ہم ہاتھ جھاڑتے ہوئے نہایت کشادہ ضمیر سے امریکی کمانڈروں سے نظریں ملاتے ہوئے کہہ سکیں گے کہ بھائی وہ رہاافغانستان اور آپ جانیں اور آپ کا کام۔ جائیں اور افغان مسائل حل کراتے پھریں ۔یہ کام کرنے کے بعد، پھر اگر کوئی امریکی کمانڈر یا افغان سفارت کار حقانی کانام لے کر ہماری طرف انگشت نمائی کرے تو اُسے ایئرپورٹ کا مختصر ترین راستہ سمجھاتے ہوئے فوراً ملک چھوڑ نے کا کہیں۔
جنرل اسمبلی میں وزیر ِاعظم کی تقریر میں افغانستان کا حوالہ غیر ضروری بھی تھا اور غلط بھی۔ ہمیں افغان عوام کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے تھا۔ یہ تو تھی مغربی سرحد، جہاں تک مشرقی سرحد کا تعلق ہے تو اگر قومی جذبات کے محافظ دوکام کرلیں تو ہمارے نصف کے قریب بھارتی مسائل ختم ہوجائیں گے ۔ پہلا یہ کہ کسی اعلیٰ سطحی، بااختیار وفد کو عزت ماً ب ، قبلہ حافظ سعید صاحب کی خدمت میں بھیج کر استدعاکی جائے کہ وہ پاکستان بھر کی فلاحی تنظیموں کے تاحیات سربراہ بن جائیں۔ جماعت الدعوۃ امدادی اور فلاحی کام کرنے کا قابل ِ رشک نیٹ ورک رکھتی ہے ۔ سیلاب ہوں یا زلزلے ، اس کے کارکن اور رضاکارسب سے پہلے متاثرہ علاقوں تک پہنچتے ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی الخدمت تنظیم کی کارکردگی بھی فلاحی کاموں میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والی تنظیموں سے بہت بہتر ہے ۔ یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وقت بدل گیا ہے، جہاد کاایک عشرہ تھا، لیکن وہ لد چکا ۔ نیز کشمیر کی آزادی، جو ہم سب کی آرزو ہے ، اُس طریقے سے ممکن نہیں جو جماعت الدعوۃ اور کچھ دیگر تنظیموں نے اپنایا ہوا تھا۔ قبلہ حافظ صاحب کی پاکستان سے محبت شک و شبہ سے بالا تر ، لیکن بصد احترام اُن کے گوش گزار کیا جائے کہ پاکستان کی سب سے بڑی خدمت فلاحی کاموں کی انجام دہی ہے ۔ تاہم ضروری ہے کہ یہ پیشکش قومی سلامتی کے محافظوں اور قوم کے جذبات کی کشتی کے ناخدائوں کی طرف سے آئے ۔
اس کے بعد باقی رہ جاتے ہیں ہمارے مجاہد ِ اوّ ل وآخر، جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر۔ اُن کی اپنے مشن کے لئے استقامت ، عزم اور دلیری پر کوئی سوال نہیں،اور پھر اُن کے ساتھ تہاڑ جیل میںیقیناََ بھارتی حکام نے تکلیف دہ سلوک روارکھا ہوگا۔ قندھار ہائی جیکنگ کے نتیجے میں اُنہیں بھارتی قید سے رہائی ملی، چنانچہ اُن کی رگوں میں جہاد ہی لہو بن کر دوڑتا ہے۔نام نہاد جہاد اور اس کے مسخ شدہ تصور کے پھیلنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ جب افغانستان میں سوویت فورسز کو لہولہان کرنے کے بعد سی آئی اے اور ہمارے امریکی دوست منہ پھیر کر چلتے بنے تو ہم یہ عملیت پسندی اپنانے سے قاصر رہے ۔ ہم جہاد اور اس سے وابستہ گروہوں سے فکری اور جسمانی طور پر پیچھا نہ چھڑا سکے ۔ مولانا مسعود اظہر کی توجہ افغان محاذ کی بجائے بھارتی محاذ کی طرف ہے ، لیکن اس جذبے کے پیچھے محرک افغان محاذ ہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مولانا کو دوٹوک الفاظ میں بتادیا جائے کہ اب پرانے خبط سرپر سوار رکھنے کی گنجائش نہیں۔ یہ درست ہے کہ فضا میں جنگ کی گونج باقی، پرانی دشمنیاں بھی ختم نہیں ہوئیں، لیکن جنگ کا طریقہ تبدیل ہوچکا ہے ۔ کسی کی صلاحیتیں اور تجربہ ضائع کرنا درست نہیں، چنانچہ مسعود اظہر کے ’’ٹیلنٹ ‘‘ کو بھی ضائع نہیں جانا چاہیے ۔ اُنہیں اسپیشل فورسز میں شامل کرلیا جائے ۔ یہی پیش کش حز ب المجاہدین کے سید صلاح الدین کے لئے بھی ہونی چاہیے ۔ تاہم ان حضرات کو اپنی وضع قطع قدرے تبدیل کرنی پڑے گی۔ یہ کوئی نئی یا انوکھی پیش رفت نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا ہے کہ مارشل ٹیٹو کے جنگجو یوگوسلاویہ کی فوج میں شامل کرلئے گئے ، کاسترو کے گوریلے کیوبا کی فوج کا حصہ بن گئے ، چینی انقلاب کے دوران ہی پیپلز لبریشن آرمی تشکیل پاگئی ، اور ہمارے جہادی تو ان سے بڑھ کر جنگ آزمودہ ہیں۔ پاک فوج کوان کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ پہلے ہی طالبان کے خلاف جنگ میں مصروف ہے ۔ بس ضرورت اس امرکی ہے کہ ان جہادیوں کو بتایا جائے کہ اُن کو سکھائے گئے نظریات اب قصہ ٔ پارینہ ہیں، اب اُن کے سامنے ایک نئی دنیا ہے ، اور ان کے وطن کو اُن کے تجربے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے سامنے پہلے ہی مسائل کا انبار لگاہوا ہے ۔ اگر ہم اپنے ماضی کا کچھ بوجھ ہلکا کرلیں تو موجودہ اور نئے چیلنجز سے نمٹنا آسان ہوگا۔


.
تازہ ترین