• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس لشکری زبان کا کیا کریں جس کا نام اردو ہے۔ تحریک نفاذ اردو نے اعلیٰ عدلیہ میں درخواست دی کہ سرکاری دفاتر میں انگریزی کو قبول نہ کیا جائے۔ ہمارے بھائی لوگ بہت ہی سادہ منش ہیں۔ انگریزی دشمنی اچھی مگر اردو دوستی کے لئے بھی تو کچھ کرو۔ کرنا کرانا کچھ نہیں۔ بس الفاظ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ دنیا دیکھنے اور سمجھنے کے لئے انگریزی پر کم از انحصار تو کیا جاسکتا ہے۔ اب حال ہی میں ایم کیو ایم کے قائدین نے فرمایا ’’قائد کوئی نہیں فاروق ستار سربراہ ہیں‘‘ پہلے توقائد اور سربراہ کا فرق تلاش کریں جو زیادہ مشکل نہیں۔ فاروق ستار گجراتی مہاجر ہیں ان کی اماں جان تو اب بھی ان سے گجراتی میں بات کرتی ہیں۔ خاندان والے تارکین وطن ہیں وہ وہاں کی بھاشا بولتے ہونگے۔ بے چارے مشرقی پنجاب کے مہاجر جن کو پنجابی میں صرف ’’ہاں جی اور ناں جی‘‘ کہنا آتا ہے۔ وہ نہ اردو کے دعوے دار ہیں اور نہ ہی انگریزی کے خیرخواہ۔ مگر بلھے شاہ، بابا فرید، میاں میر کے بہت قریب ہیں۔
کوئی بھی بھاشا لوگوں کی آسانی کے لئے ہوتی ہے مگر مشکلات بھی پیدا کرتی ہے۔ ہمارے تمام سیاسی نیتا آجکل اردو میں ہی دھمکی اور تھپکی دیتے نظر آتے ہیں کچھ عرصہ پہلے ہی کی تو بات ہے۔ سابق صدر محترم اور نایاب سیاسی رہنما، پیپلز پارٹی کے سرخیل جناب آصف علی زرداری نے جوش اور جنون میں آکر فرمایا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ جب ان کا بیان میڈیا پر آیا تو انہوں نے کروٹ بدل لی۔ لاتعلقی کا اعلان نہ کیا مگر ان کے مشیر خاص سینیٹر رحمان ملک کا فرمان جاری ہوا کہ صاحب بصیرت حضرت آصف علی زرداری کی بات کسی اور تناظر میں تھی اور لوگ سمجھ نہیں پائے حضور جتنی آپ کی سمجھ بوجھ ہے تو اس نے ہی ان کے ڈھول کا پول کھول دیا ہے کہ ڈھول کس کے لئے بجایا جارہا ہے۔ یہ بتانے کو تیار نہیں۔ بس کہنا یہ ہے کہ ڈھول گلے میں ہے تو بجانا ضروری ہے۔ ایسے معاملات پر کسی اخلاقی یا سماجی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ پھر قانون پر قانون بنانا کہاں کا اصول ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کی پارلیمان نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالہ سے قانون سازی کی ہے۔ اس قانون میں مجرم اور جرم کی تعریف بڑی مبہم سی ہے۔ ایسا قانون بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ کسی کی توہین یا الزام تراشی پر تعزیرات پاکستان میں قانون موجود ہے۔ مگر اب اس جرم کو نیا رنگ دے کر سزا اور جرمانے میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ کیا سابقہ قانون اپنی حیثیت اور اہمیت کھو چکے تھے یا جرم کی نوعیت بدل گئی تھی۔ الزام اور توہین کے سلسلہ میں کوئی بھی عدالتی فیصلہ رہنمائی نہیں کرتا۔ ورنہ عموماً عدالتی فیصلے آسانی فراہم کرتے ہیں۔ اس نئے قانون کے بعد ہمارے بہت سارے ادارے عدالت کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ پھر شہادت کے قانون میں بھی تبدیلی کرنا ہوگی۔ آپ کا کوئی بھی شاعری یا ادبی حوالہ آپ کو ملزم بنا سکتا ہے۔ مثلاً اگر حبیب جالب کا یہ مصرع ؎
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
عوام میں سے کوئی اس مصرع کو دل پہ لے کر مقدمہ درج کرا دے کہ جالب کے اس مصرعے کو استعمال کر کے میری تذلیل کی گئی ہے اس پر مقدمہ درج کیا جائے تو مقدمہ درج ہوگا اور ضروری کارروائی کے بعد فیصلہ ہوگا، نیت صاف نہ تھی اس لئے جرم بنتا ہے اور پھر ایک عدالت سے دوسری عدالت تک کا سفر قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرے گا اور ایک دن یہ سوال عدالت کو پریشان کرے گا کہ نیت کے لئے علیحدہ قانون سازی کی جائے کیونکہ نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے۔اگر یہ کارروائی اردو میں ہوگی تو معاملہ خاصا پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ انگریزی میں ہوگی تو سابقہ قانون کی روشنی میں فیصلہ آسان ہوگا۔ مگر ایسے معاملات عموماً عدالت سے باہر ہی طے ہوتےہیں۔ جن کا ہمارے ہاں رواج نہیں۔ سو اب ایسے رواج کی ضرورت ہے نہ کہ کسی نئے قانون کی!
رسم و رواج زبانوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اعلیٰ نوکر شاہی سے چند مہینے پہلے فارغ ہونے والے ہمارے ادیب دوست اقبال دیوان مجھے ٹیلی فون پر بتا رہے تھے۔ نوکر شاہی میں زبان اور علاقے کے حوالہ سے بڑی دلچسپ صورت حال ہوتی ہے۔ اگر افسر اعلیٰ اردو بولنے والا مہاجر ہے تو خیر نہیں۔ آپ اس کے پاس جائیں اور مدد کی درخواست کریں وہ بتائے گا سو قانون میں سے 99 تو تمہارے معاملے میں مدد کرسکتے ہیں۔ مگرایک قانون ایسا ہے جو میرے اختیارات کو سلب کرتا ہے اور مجھے بھی مروا سکتا ہے۔ تو بس آپ کی مدد ہوگئی۔
دوسرا افسر اعلیٰ مشرقی پنجاب کا پناہ گزین یا مقامی پنجابی ہے۔ آپ نے اس سے مدد کی درخواست کی۔ وہ آپ کا کیس دیکھنے کے بعد بولے گا 99 قانون تو مدد کے لئے مشکوک ہیں مگر ایک قانون سے تمہارا کام ہو سکتا ہے سو آپ خوش نصیب ہیں۔ تیسرا آفیسر بااختیار پٹھان ہے آپ نے پشتو میں مدد کی بات کی۔ وہ بولے گا چھوڑو قانون و نون کام کرائو۔ درخواست لائو، دیر کیوں کرتے ہو، اب بلوچی افسر بے چارہ آپ کی درخواست کو دیکھ کر بولے گا چھوڑ جائو مشورہ کروں گا کہ کام کیسے ہوسکتا ہے۔ بس ایسی نوکر شاہی سے ہماری سرکار چل رہی ہے۔ اشرافیہ کا مسئلہ کبھی رکتا نہیں۔ سیاست دان اپنے اپنے کھیل تماشوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بس رہ گئے عوام تو ان کو جمہوریت کی ٹھنڈی ہوا کا دلاسہ دے کر وقت گزارا جارہا ہے۔
عوام بے چارے اس بے چارگی کے سمندر میں مسلسل غوطے کھا رہے ہیں۔ جمہوریت ان کو ڈوبنے دیتی ہے نہ کنارے لگاتی ہے۔ ایک طرف بھارت جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آگ لگی ہے۔ وہاں پر لوگ پاکستان زندہ باد اور ہمارے پرچم کو بلند کررہے ہیں اور اپنےہاں کچھ لوگ پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتے نہ شرماتے ہیں نہ کتراتے ہیں بلکہ قائد کےوفادار ان کی رفاقت کے احترام میں سربراہ بن جاتے ہیں۔ منافقت اور دروغ گوئی سے الفاظ کےمطلب بدل جاتے ہیں۔ لوگوں کوزندہ باد اور مردہ باد کہنے کا حق دے دو۔ قائد ہوگا تو زندہ رہے گا اب ان مسائل کا حل جمہوریت کے ذریعے تو ملنے سے رہا۔ پہلے گھر کی حفاظت کرو۔ جو زبان اور عقیدے نے کمزور کر رکھی ہے۔ اپنے اپنے عشق نے لوگوں کو عجیب درد میں مبتلا کر رکھا ہے۔
عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ
درد سے درد کی دوا کیجئے!
حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اورعوام بے چارگی کے سمندر میں ڈوبتے جارہے ہیں اورکنارہ بھی نہیں نظر آرہا۔


.
تازہ ترین