• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سال شروع ہوتے ہی بری خبریں ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے افضل توصیف کی خبر ملی جو لاہور میںاتنی خاموشی سے چلی گئی جو اس کی عادت نہیں تھی۔ جب لوگوں کو طرح طرح کےانعام دئیے جاتے تھے۔ تو وہ دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے مجھے فون کیا کرتی تھی۔وہ جسے کہتے ہیں کمیٹڈ ہونا۔ وہ نظریاتی طورپر بائیں بازو کی نمائندہ تھی۔ اس نے پیپلز پارٹی کے لئے بھی بہت کام کیا۔ اس نے پنجابی زبان کے فروغ کے لئے بھی قلمی ، علمی اور کتابی صورت میں بہت کام کیا۔ عجب طبیعت کی مالک تھی۔ غصہ اسکی رگ رگ میں بھرا ہوا تھا ۔ اینگری اولڈ وومن تھی۔میںکہتی تم لکھ کر غصہ نکال لیتی ہو۔ اتنا زیادہ بولا مت کرو مگرکبھی اس نے مصلحت سے کام نہیں لیا۔ بڑے بڑے لیڈروں کے سامنے کھل کر بات کی جب اس پر جہاز کے اغوا کے سلسلے میں کیس بنایا گیا۔ وہ کوئی پندرہ دن کے لئے انڈر گرائونڈ ہوگئی تھی۔ یہ دن اس کے لئے بڑے عذاب کے تھے۔ پھر وہی بپھری ہوئی شیرنی کے انداز میں باتیں کرنا ، مضمون لکھنا، جلسوں میںجانا۔ہر حکومت اس سے ڈرتی تھی۔ اس نے بھی تو کسی حکومت سے کوئی انعام و اکرام کے لئے سفارش نہیںکروائی تھی۔ ایک زمانے تک ڈاکٹر کنیز یوسف سے اس کی بڑی دوستی رہی پھر لیبیا کیس کے بعد، اس دوستی میں دراڑیں پڑگئیں۔ اس نے اپنے بھانجے ، بھتیجوںکو پالا، تعلیم دلائی اور ہوسکا تو نوکریاں بھی دلوائیں۔ بس جاتے وقت شور نہیں مچایا۔ اس کی قبر کی مٹی بہت خوش ہوگئی کہ اس میںایسا دیا رکھا گیا ہے جو اب تک روشن ہے۔
ابھی میں یہاں تک پہنچی تھی کہ سارے ملک سے ای میل آنے لگیں ہماری دوست نجمہ صادق کا آغا خان اسپتال میں انتقال ہوگیا ہے۔ نجمہ صادق زمین کی بیٹی تھی۔ پاکستان میںمچھیروں کے مسائل ہوں کہ منگلا اور تربیلا ڈیم کے متاثرین کا مسئلہ سمندری حیات اور مین گرورز کے اجڑنے کا سانحہ، نجمہ نہ صرف اخباروں میںان موضوعات پر این۔جی۔اوز کے علاوہ بہتر طور پر حکومت کی توجہ بھی دلاتی تھی۔ وہ بھی اونچی آواز میں بات کرتی تھی۔ کونسا اخبار تھا جس میں اس نے نہیں لکھا۔کبھی فالتو بات نہیں کی۔ تحقیق کے بعد اعداد و شمار کے ساتھ مسائل کو سامنے لاتی تھی۔ سمندری حیات ہو کہ کیٹی بندر پہ رہنے والے ماہی گیروں کے مسائل کہ میں نے خود دیکھا ہے یہ لوگ پانی ہی میںرہتے ، وہیں بچے پیداکرتے۔ ان کو وہاں رہتے ہوئے جو بیماریاں لگتی تھیں۔ ان کا تجزیہ نجمہ کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ نجمہ نے چاولوں کی پنیری لگاتے ہوئے زمین پر کھڑے پانی سے نکلتی بھاپ عورتوں کے گلے میں سیدھی جاتی ہوئی دیکھ لی تھی۔ پنیری لگاتی ہوئی عورتوں کی کمر میںکیا تکالیف ہوجاتی ہیں۔ ان تمام مصائب اور تکالیف کا تجزیہ نجمہ کبھی پمفلٹ میں، کبھی مضمون میں اور کبھی اپنی بیٹی کے ساتھ دستاویزی فلم میں بیان کیا کرتی تھی۔ اس کے مضامین کی بین الاقوامی سطح پر تعریف ہوتی تھی اور ان کا حوالہ دیا جاتا تھا۔
یہیں پہ مجھے ایک ایسے ادیب کی موت بھی یاد آگئی جس نے پورے دو سال اپنی بیوی یعنی فرخندہ لودھی کی خبر گیری کی۔یہ شخص تھا ڈاکٹر صابر لودھی۔ فرخندہ کے لئے صابر نے نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی۔ اس کا ہرکام کپڑے بدلنے سے نہلانے تک، سب وہ اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ہر محفل میں وہ دونوں اکھٹے آتے تھے۔ فرخندہ کے رخصت ہونے کے بعد، صابر لودھی مضمحل رہتا تھا۔ کہیں اکیلے جانے سے گریز کرتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا اسٹاف اسے بلاتا، کہتے کہ تھوڑی دیر لائبریری ہی میں گزار لیا کرو۔ مگر فرخندہ کا دکھ اس کی رگوں میںپھیل گیا تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بیویوں کے مرنے کے بعد بہت سےشوہر اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے ہیں۔ ہمارے ادب میں تو ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ محمد کاظم بھی تو بالکل خاموشی سے دنیا سے گئے تھے۔ اتنا علم خاص کر عربی زبان و ادب کا علم اس شخص کے پاس تھا۔ کچھ لکھا، کچھ لوگوں کو بتایا جیسے امجد اسلام امجد کی عربی زبان کے اردو تراجم میں بہت مدد کی ۔ عربی ادب پر کتابیں بھی وہ بھی قاسمی صاحب کے کہنےپر لکھیں۔ قاسمی صاحب کے کہنے پر رشید ملک صاحب نے موسیقی پر کمال تحقیق کی۔ یہ لوگ خاموشی سے زندگی کا ورق پلٹ گئے۔کراچی سے ہماری دوست ش فرخ اور ہلڈا سعید نے روتے ہوئے نجمہ صادق کو یاد کیا۔ طاہرہ عبداللہ نے بھی میرے ساتھ نجمہ کی تعریف کی تو اس کی آواز بھرا گئی۔ خاور ممتاز اور کوثر ایس۔کے۔ اس کے گھر ہی تھیں جب فون کیا۔ ویف کی میٹنگ ہو کہ زراعت کے کسی موضوع پر بات ہو، نجمہ نے ہمیشہ غریب کا شتکاروں کے نقطہ نظر کو پیش کیا۔ نجمہ کے جانے کے بعدلگتا ہے کہ اب ہماری نسل کی باری آگئی ہے۔ممکن ہے ہم سے بعد کی نسل کو ہماری محنتوں اور کوششوں کا علم ہو ورنہ جب میں جناح سپر مارکیٹ میں لفنگوں کی طرح نوجوانوں کو لڑکیوں کا پیچھا کرتے دیکھتی ہوں تو مایوس ہونے لگتی ہوں مگر جب زہیب جیسے کم عمر بچوں کو برطانیہ کی یونیورسٹیوں میںداخل ہوتے دیکھتی ہوں تو سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔نجمہ کے مرنے پر پشاور میںشہید ہونے والے سارے بچے یاد آگئے ہیں۔ افضل توصیف زندہ ہوتی تو سب سے پہلے پشاور پہنچتی۔ یہی حال نجمہ کا تھا۔ ہم دانشمندی کے میدان میںغریب ہوتے جارہے ہیں۔
تازہ ترین