• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند سال قبل امریکی ریاست میسا چوسٹس کی عدالت میں قتل کے ایک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہورہا تھا کیونکہ فلپ چزم (Philp Chism)نامی قاتل کی عمر اس وقت صرف 14سال تھی ،جب اس نے قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔امریکی قوانین کی وجہ سے الجھن پیدا ہوگئی تھی ۔ایک قانون کے مطابق 14سال کی عمر کا لڑکا بالغ ہوتا ہے جبکہ دوسرے قانون کے مطابق نابالغ ہوتا ہے ۔مسئلہ یہ تھا کہ قاتل کو بالغ سمجھ کر سزا دی جائے یا نابالغ مجرم کی حیثیت سے اس کی سزا میں نرمی کی جائے ۔یہ مسئلہ طویل عرصے تک حل نہ ہوسکا تووہاں کے ماہرین قانون نے اس الجھن سے نکلنے کے لیے چین کے عظیم فلسفی کنفیوشس سے رجوع کیا ۔چین اور امریکا کا فاصلہ سات ہزار کلومیٹر ہے اور کنفیوشس ڈھائی ہزار سال پہلے
اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے ۔کنفیوشس کے فرمودات سے ہی آخر یہ مسئلہ حل ہوا اور قاتل کو نابالغ قرار دے کر سزا سنائی گئی ۔چین کے لوگ کنفیوشس کو اپنا ’’عظیم اُستاد‘‘ کہتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں استاد سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔امریکیوں نے بھی دنیا کو یہ راہ دکھائی ہے کہ جب آپ کسی مشکل میں پھنس جائیں تو اُستاد سے رجوع کریں ۔پاکستان بھی ایک مشکل سوال میں الجھا ہوا ہے ۔وہ سوال یہ ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہورہی اور کیا 21ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی ؟اس سوال کا درست جواب حاصل کرنے کے لیے آئیے اُستاد سے پوچھتے ہیں۔
عظٰیم اُستاد کنفیوشس نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’جب زبان درست نہیں ہوتی ہے تو جو کچھ کہا جاتا ہے ،اس کا مطلب وہ نہیں ہوتا ۔جب مطلب وہ نہ ہو جو کہا جائے تو جوکام لازماً کرنا چاہیے ،وہ کام نہیں ہوپاتا اور جب لازماً ہونے والا کام نہیں ہوپاتا ،تب حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور فن کو زوال آجاتا ہے ۔جب انصاف گمراہ ہوتا ہے تو لوگ بے یار و مددگار الجھن میں جکڑے جائیں گے ۔لہذا جو کہا جائے ،اس میں کوئی ابہام اور ناانصافی نہ ہو ۔یہ معاملہ ہر چیز سے بالاتر ہے ۔‘‘استاد کے اس دانشمندانہ قول میں ہمارے سوال کا جواب موجود ہے ۔
21ویں آئینی ترمیم میں جو زبان استعمال کی گئی ہے ،اس پر نہ صرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سرعام اعتراض کیا ہے بلکہ ملک کے وسیع تر حلقے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔مذکورہ آئینی ترمیم کے تحت نہ صرف فوجی عدالتیں قائم ہوں گی بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ’’فوکس‘‘ مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی طرف منتقل ہوجائے گا ۔آئینی ترمیم میں دہشت گردی کی تعریف کو ایک مخصوص دہشت گردی تک محدود کردیا گیا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے اس تصور کو فروغ دیا جارہا ہے ،جسے امریکا اور اس کے مغربی اتحادی رائج کرنا چاہتے ہیں ۔اس تصور کے مطابق مسلمان دنیا میں دہشت گردی کررہے ہیں ۔اس تصور کے لیے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نام نہاد نظریہ کا منصوبہ بندی کے تحت پرچار کیا گیا ۔21ویں آئینی ترمیم اسی تصور کے قریب نظر آتی ہے ۔اس ترمیم پر ترقی پسند قوتوں اور سول سوسائٹی کو اعتراض یہ ہے کہ فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حامی مذہبی قوتوں کو اعتراض یہ ہے کہ دہشت گردوں کی تعریف کو محدود کردیا گیا ہے ۔زبان اور الفاظ کے انتخاب سے پہلانقصان یہ ہوا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قومی اتفاق رائے متاثر ہوا ہے ۔اب استاد کے قول کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں کہ جو کچھ کہا جارہا ہے ،آیا اس کا مطلب وہی ہے یا نہیں ہے ۔امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جب سے دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا ہے ،تب سے نہ صرف پوری دنیا میں عمومی طور پر اور اسلامی دنیا میں خصوصی طور پر دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دہشت گرد تنظیمیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہیں ۔پوری دنیا میں جدید نوآبادیاتی اور سامراجی تسلط اور استحصال سے نجات کی تحریکیں کمزور ہوگئی ہیں ۔امریکا اور اس کے اتحادیوں کو خود مختار ملکوں پر حملے کرنے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنی فوجی موجودگی کا جواز مل گیا ہے ۔مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کارروائی کے نام پر ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کو کچلا جارہا ہے ۔ترقی پذیر دنیا اپنے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچنے کی بجائے اپنی بقاء کے سوال میں الجھ گئی ہے ۔اس کے لیے اپنی تہذیب ،اپنی شناخت ،اپنے قومی سیاسی کردار ،مزاحمت کے اپنے جوہر اور اپنے وجود کی بقاء کا سوال پیدا ہوگیا ہے ۔اسلامی دنیا میں مذہب کے نام پر قائم ہونے والی انتہا پسند تنظیمیں جس طرح کارروائیاں کررہی ہیں ،ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دہشت گردی کے تصور کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اتحادیوں کو فوجی طاقت کے ذریعہ پوری دنیا پر براہ راست کنٹرول کرنے کا جوا زفراہم کررہی ہیں ۔جو کا م یہ انتہا پسند تنظیمیں نہیں کر سکتی ہیں، وہ ان کے کھاتے میں ڈا ل کر کسی نہ کسی طرح کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ کا م کرنے والی دوسری قوتیں دہشت گرد کی تعریف میں نہیں آتی ہیں۔ یہ گٹھ جوڑ ہماری سمجھ میں نہیں آتاکیونکہ ہم الجھن کا شکار ہیں۔ مسلمان مذہبی انتہا پسند کیا ہوتا ہے ؟ اس کے لیے بھی امریکا اور اس کے اتحاد ی طے کرتے ہیں ۔ان کے مطابق مسلمان انتہا پسند خواتین اور اقلیتوں پر ظلم کرتے ہیں ۔وہ تعلیم اور ترقی کے دشمن ہوتے ہیں ۔افغانستان پر حملے سے پہلے ایک برطانوی ٹی وی چینل پر ایک فلم چلائی گئی تھی ،جس میں ایک افغان باشندہ ایک برقع پوش خاتون کو ڈنڈے ماررہا تھا تاکہ مغربی معاشرے کو افغان معاشرے سے متنفر کیا جائے۔ افغانستان پر کارپٹ بمباری اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے بعد پتہ چلا کہ اس فلم کی شوٹنگ کرائی گئی تھی ۔اس فلم کی حقیقت بھی انہوں نے خودافشا کی۔ ہم میں مزید کھوج لگانے کا حوصلہ نہیں رہا۔بہرحال اُستاد کا قول درست ثابت ہوا کہ جو کہا گیا ،اس کا مطلب وہ نہیں تھا اور جس دہشت گردی کو ختم ہونا چاہیے تھا ،وہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ۔دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ کے بعد لوگ اصل بات کرنا بھول گئے اور اب وہ جو کہتے ہیں ،اس کا مطلب وہ نہیں ہوتا ۔فن زوال پذیر ہے ۔مزاحمت دم توڑچکی ہے ۔سیاسی جماعتیں اشاروں پر چلتی ہیں ۔ان سطور میں جو بات کی گئی ہے ،اس کا بھی وہ مطلب نہیں ہے ۔بس نہ ختم ہونے والی الجھن ہے ۔صرف عظیم اُستاد کی یہ بات دوٹوک اور واضح ہے کہ جو کام ہونا چاہیے ،وہ نہیں ہوگا ۔
تازہ ترین