• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ تو دے، اے فلک ناانصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
(غالب)
دوسرے ملکوں میں بھی لوگ سیاست کرتے ہیں اور وہاں بھی سیاستداں ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں لوگ انوکھی سیاست کرتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان میں سیاست منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اور اب کاروباری لوگ سیاستداں بن گئے ہیں یا سیاست دان کاروباری بن گئے ہیں۔ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر۔ بات ایک ہی ہے۔ دوسرے جمہوری ملکوں میں سیاستدانوں کے کوئی اصول ہوتے ہیں اور وہ اصولی سیاست کرتے ہیں چاہے اس کی خاطر ان کی پارٹی کی مقبولیت پر براہ راست منفی یا مثبت اثر پڑتا ہو۔ ہمارے ہاں لوگ ماحول اور وقت کے مطابق تقریر اور گفتگو کرتے ہیں۔ یعنی وہی راگ گاتے ہیں جو دوسرے کے دل کو بھائے۔ اب آپ دیکھئے ابھی ماضی قریب میں 16؍دسمبر کے سانحہ کے بعد پوری قوم ایک ہوگئی تھی۔ قوم کا پریشر دیکھ کر سیاسی جماعتیں بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے مشترکہ فیصلے کئے اور پھر باہر آکر اپنا اپنا راگ الاپنے لگے۔ آپس میں اتفاق ہونے کے باوجود اکیسویں ترمیم کو پاس کرنے میں تقریباً 20؍دن لگے جبکہ معلوم ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور ایسی حالت میں ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ ترمیم ہوگئی اس کے بعد رضا ربانی نے بیان دیا کہ میں نے اپنے ضمیر کے خلاف پارٹی کمانڈ کے فیصلے کے مطابق ووٹ دیا ہے۔ اسی طرح سب نے کوئی نہ کوئی ایسا بیان دیا جس سے فوجی عدالتوں کی بننے سے پہلے ہی تکریم می کمی لائی جائے۔ سونے پر سہاگہ جناب وزیر اعظم نے بھی بیان دیدیا کہ انہوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کرکے کڑوا گھونٹ بھرا ہے۔ میں نے ’’جیو تیز‘‘ کے پروگرام میں جمعرات کی رات کہا کہ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی ساس اپنے گھر میں نئی بہو لارہی ہے اور ساتھ ساتھ کہتے جارہی ہے کہ میں نے یہ بہو لاکر بڑا ہی کڑوا گھونٹ بھرا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیے کہ ایسی بہو کا اس گھر میں مستقبل کیا ہوگا۔کیا وہ عزت اور مقام حاصل کرسکے گی۔ سیاستدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ فوجی عدالت بھی عدالت ہی ہوتی ہے صرف طریقہ کار کا فرق ہے۔خود ہی اپنی بنائی فوجی عدالت کے خلاف عدالت بننے سے پہلے ہی بولنے والے سیاستدانوں سے میرا سوال ہے کہ اگر اتنے ہی تحفظات ہیں تو مت بنائیں۔ عدالت کو بننے سے پہلے ہی متنازعہ نہیں بنانا چاہئے۔ میری دعا ہے کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے بعد فوجی عدالتیں کرپشن اور لینڈ مافیا کے خلاف بھی قدم اٹھائیں۔ مصطفٰیٰ زیدی نے کہا ہے۔
لہو جلے تو جلے اس لہو سے کیا ہوگا
کچھ ایک راہ نہیں ہر فضا لُٹیری ہے
کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
افق اداس ہیں دنیا بڑی اندھیری ہے
جنرل راحیل شریف کا لندن کا دورہ اور ڈیوڈ کیمرون سے ون ٹو ون ملاقات بڑی اہمیت کی حامل ہے خاص طور پر حزب تحریر سے متعلق ان کا بیان انتہائی دلیرانہ ہے۔ عمران خان کی شادی اور پھر شادی کے بعد دلہن کے ہمراہ آرمی اسکول کا دورہ اور وہاں پر جمع لوگوں کی طرف سے عمران خان کے خلاف احتجاج اور ’’گو عمران گو‘‘ کے نعرے ایک نیا سیاسی باب کھول رہے ہیں۔ کل تک کا اسٹار عمران خان آج گو عمران گو کے نعروں کی زد میں ہے اور خاص طور پر اس صوبے میں جہاں حکومت بھی عمران خان کی ہے۔ اس سے فی الحال یہ تاثر ملتا ہے کہ شادی کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا گراف ایک دم گرا ہے۔ عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نعرے لگانے والے سیاسی لوگ تھے اوروہ شہداء کے لواحقین نہیں تھے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی لوگ بھی اب الگ طرح سے سوچنے لگے ہیں بہرحال ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے اگلے ایک دو ہفتے میں سیاسی صورت حال اور عمران خان کی مقبولیت کا گراف واضح ہوجائے گا۔ شادی کے دوررس اثرات ہوتے ہیں۔ فیملی پر بھی اور حلقہ احباب میں بھی اور پھر خاص طور پر دوسری شادی تو اپنے ہی رنگ لاتی ہے اور آنے والی اپنے رنگ جماتی ہے۔ افتخار عارف کے اشعار ہیں۔
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے
وزیر اعظم کے عدالتوں کے بارے میں دئیے گئے بیان پر اخباری اطلاع کے مطابق سپریم کورٹ کے ججوں نے برہمی کا اظہار کیا اورسماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی نااہلی بھی ہمارے سر تھوپ دے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدلیہ استعداد سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہی ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے فوری طور پر کہا کہ حکومت عدلیہ کے تمام فیصلوں کا پورے خلوص سے احترام اور عملدرآمد کرتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کی بحالی کے لئے مسلم لیگ (ن) نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ ان تمام باتوں سے میں یہ نتیجہ اخذ کررہا ہوں کہ فوجی عدالتیں قائم ہونے سے پہلے ہی خود بنانے والوں کی تنقید کا شکار ہو گئی ہیں اور پھر اعلٰی عدالتوں کے ججوں کے اخبارات میں شائع ہونے والے ریمارکس بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔حالانکہ یہ عدالتیں بحالت مجبوری بنائی جارہی ہیں۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگران عدالتوں کے قیام اور کام میں کوئی رکاوٹیں آئیں تو پھر سیاسی حالات یکسر بدل سکتے ہیں اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ آخر میں فیض صاحب کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھی تیری انجمن سے پہلے
سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرم سخن سے پہلے
ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے درد دل ہے
زبان سنبھالیں کہ دل سنبھالیں، اسیر ذکر وطن سے پہلے
تازہ ترین