• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ پشاور کے بعدہماری سیاسی قیادت نے اتحاد و یگانگت کا جو مظاہرہ کیا اس سے قومی یکجہتی کی فضاء قائم ہوئی۔نہ صرف قوم بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام ملاکہ قومی معاملات میں ہمارے سیاستدان اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متفقہ طرز عمل اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یکے بعد دیگرےہونےوالی آل پارٹی کانفرنسوںمیں 20نکاتیـ’’ قومی ایکشن پلان‘‘کی منظوری نے قومی یکجہتی کے تاثر کو مزید تقویت دی۔ اس تمام معاملے میں ملٹری کورٹس کا قیام ایک مشکل فیصلہ تھا۔ تاہم آخری اے پی سی میں تمام سیاسی قیادت نے ملٹری کورٹس کے قیام اور اس کے لئے کی جانے والی 21 ویں آئینی ترمیم کے ڈرافٹ کی منظوری دی تو یہ معاملہ بھی بخوبی نمٹ گیا۔
تاہم جب یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو پہلے مولانا فضل الرحمٰن اور بعد ازاں جماعت اسلامی کی جانب سے کچھ اختلافی آوازیں سنائی دیںاور ان دونوں جماعتوں نے اس کے حق میں ووٹ دینے سے گریز کیا۔ درحقیقت اختلاف رائےکوئی منفی بات نہیں بلکہ جمہوری معاشروں میں باہمی سیاسی اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں۔ تاہم اس وقت ملکی حالات کسی بھی قسم کے اختلاف رائے کے متحمل نہیں۔ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمٰن کے اس طرز عمل اور اختلافی آوازوں نے اس قومی یکجہتی میں دراڑ ڈالی ہے جو کہ حالات کا تقاضا تھی۔ جس سے یہ تاثر ملا کہ ہماری سیاسی قیادت وقتی جذبات کے تحت مل بیٹھ کر معاملات طے تو کر سکتی ہے تاہم طے شدہ فیصلوں پر قائم رہنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔مزید بر آں یہ افسوسناک تاثر بھی ابھرا کہ بسا اوقات ہمارے ذاتی ، سیاسی اور انتخابی مفادات ملکی اور قومی مفادات پر غالب آ جاتے ہیں۔
مذہبی جماعتیں معترض ہیں کہ آئینی ترمیم میں مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کا ذکر کیوں ہے؟ حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے ہاں ہونے والے90فیصد سے زائد دہشت گردی کے واقعات مذہب کے نام پر ہوئے ۔ ہمیں اس حقیقت سے نگاہ نہیں چرانی چاہئےکہ ہمارے ہاں فرقہ واریت کے نام بھی پر دہشت گردی ہو رہی ہے۔ اس امر کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ مدارس کے نظام اور نصاب کی اصلاح احوال کی بھی بے حد ضرورت ہے ۔ وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ90فیصد مدارس کا کردار قابل ستائش ہے۔ فقط 10فیصد مدارس اصلاح احوال کے متقاضی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو مذہبی رہنماو ں کو حکومت کےیاتحفظات دور کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ حکومت بجا طور پر اس کا استحقاق رکھتی ہے۔
جہاں تک ملٹری کورٹس کے قیام کا معاملہ ہے کوئی بھی سیاسی جماعت بخوشی ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت نہیں کر سکتی۔ بلاشبہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ خود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لئے بھی ۔ جو ماضی میں ملٹری کورٹس کو بھگت چکی ہیں۔ اے این پی جو واحد سیاسی جماعت ہے جس نے آج تک کسی فوجی حکومت اور فوجی حکمران سے استفادہ نہیں کیا ۔ اس نے بھی حالات کا تقاضا سمجھ کر اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈلا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کو بھی معاملے کی سنجیدگی کو سمجھنا چاہئے تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت تو وفاقی کابینہ کا حصہ بھی ہے۔اس کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی بھی ان کی جماعت کے پاس ہے۔ خود مولانا صاحب کشمیر کمیٹی کی سربراہی پر فائز ہیں۔اگر یہ اصولی اختلاف تھا تو انہیں ان سب سے دستبرداری اختیار کر لینی چاہئے۔مولانا کا فرمانا تھا کہ وہ آئینی ترمیم کے گنا ہ میں شریک ہونے سے بچ گئے ہیں ۔حالانکہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں یہ جماعتیںسترہویں ترمیم میں بخوبی شریک رہیں ۔ اگر ماضی میں یہ جماعتیںایل ایف او ،12اکتوبر 1999اور 3نومبر کے اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں توانہیں 21 ویں ترمیم کی کڑوی گولی بھی نگل لینی چاہئے تھی۔
اس معاملے میں وفاقی حکومت پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ اگرکچھ اختلافی آوازیں بلند ہوئی تھیں تو مذہبی جماعتوں کے تحفظات دور کئے جاتے ۔ اب ایک جانب تو مولانا فضل الرحمٰن سڑکو ں پر آنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور دوسری جانب عمران خان 18 جنوری کو اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرنے والے ہیں۔ قوم کو عمران خان اور وزیراعظم نواز شریف کو ساتھ ساتھ بیٹھے دیکھ کر جو طمانیت ہوئی تھی اس کا تاثر زائل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر مقررہ مدت تک جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا تو وہ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر ہوں گے۔حالانکہ یہ وقت نہ تو محاذ آرائی کی سیاست کا ہے اور نہ سڑکوں پر آنے کا۔ اس وقت انتخابی دھاندلی کی تحقیقات قوم کا درد سر نہیں ہے۔
قوم کا درد سر دہشت گردی کا عفریت ہے جو تاحال 60 ہزار سے زائد معصوم انسانوں کو نگل چکا ہے۔ بڑے بڑے معاملات جو لاکھوں کروڑوں افراد کو متاثر کرتے ہیں انہیں حل کرنے کے بجائے ہم ذاتی اور شخصی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس وقت حلقہ این اے 122تو ہمارے حواس پر سوار ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے قائم کردہ 33 رکنی انتخابی اصلاحات کمیٹی ،جو تین ماہ میں اپنی سفارشات دینے کی پابند تھی، ہماری نگاہ سے اوجھل ہے۔وجہ یہ کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کرنے سے قاصر ہیں۔
اگر ہمارے سیاسی رہنما قومی ترجیحات کا تعین نہیں کر سکتے تو انہیں عوامی یا قومی رہنما کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔اس وقت ملکی حالات تصادم گریز طرز عمل کے متقاضی ہیں۔ہماری فوج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے اور اس کا دائرہ کار شہری علاقوں تک پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے لئے اس وقت نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
مذہبی جماعتوں اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔عمران خان کو بھی چاہئے کہ اپنا احتجاج سڑکو ں پر لانے کے بجائے قانونی راہ اختیار کریں اور اگر وہ قانونی نظام سے مطمئن نہیں تو پارلیمنٹ میں جا کر نظام کی اصلاح احوال کے لئے قانون سازی کریں۔اس سارے معاملے میں اولین ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے جسے تمام پارلیمانی جماعتوں نے غیر مشروط تعاون فراہم کیا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرئے۔ مذہبی جماعتوں کے تحفظات کا خاتمہ کرئے اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کا معاملہ حل کر کے قوم کو سیاسی بے یقینی کی کیفیت سے نکالے۔
تازہ ترین