• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ہندوستان کے تعلقات قیام پاکستان کے بعد ہماری کوششوں کے باوجود خوشگوار نہیں رہے ۔ ان دنوں پھر تنائو کی کیفیت طاری ہے اور ہندوستان کے نشریاتی ادارے ان کے دانشور اور میڈیا پر آنے والے افراد کی گفتگو میں سختی آتی جارہی ہے ہر چیز کا الزام بغیر تحقیق کے پاکستانیوں پر لگا دیتے ہیں ابھی کئی اہم واقعات میں پاکستان کو بالواسطہ طور پر مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ناخدا اس اہم پالیسی کو نہ سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی ردعمل کے طور پر کوئی جواب دے رہے ہیں ہندوستان کی سیاست شروع سے پاکستان مخالف رہی ہے۔
انہوں نے ہماری کسی بھی معقول بات کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور متنازعہ معاملات کو طے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی سیاست پر پاکستان کا اتنا خوف ہے کہ وہ پتہ کھڑکنے پر بھی الزام ہمارے اوپر لگا دیتے ہیں ۔ ان کی سیاسی جماعتیں اوراکابرین ہمیشہ اپنی سیاست کا محور پاکستان ہی کو رکھتے ہیں ۔ انتخابی مہم بھی پاکستان کو سامنے رکھ کر چلائی جاتی ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد مرکزی حکومت اس گروہ کے ہاتھ میں آ گئی ہے جو اپنے آپ کو پاکستان کو ختم کرنے کا چیمپئن بتاتے ہیںاور اسی نعرے پر انتخاب لڑتے ہیں ۔ اس بات میں بھی شدت آنی شروع ہوگئی ہے اور جارحانہ انداز فکر کا مظاہر ہ ان کی پالیسیوں سے عیاں ہوتا ہے موجودہ حکومت جس کا نعرہ ہی ’’ہندی ہندو ہندوستان‘‘ رہا ہے اور اسی نعرے پر وہ برسر اقتدار آئی ہے اس سے پیشتر جو حکومتیں برسر اقتدار آئیں ان کے چہرے پر سیکولر ازم کا پردہ پڑا ہو ا تھا ہم جو ہمیشہ سے معاملات کو پرامن طور پر طے کرنے کے حامی رہے ہیں اور جو معاہدے بھی ہم نے ہندوستان کے ساتھ کئے ہیں اب ہمیں ان کا جائزہ لینا چاہئے۔ ہمارے جو دانشور خود ساختہ قومی مہربان انڈیا جاتے ہیں وہ اشوکا ہوٹل میں قیام اور پٹھان کوٹ ایکسپریس میں سفر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں ان کی بڑی خاطر ہوتی ہے اور ان کی زبان بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارے بارڈر پر ہندوستان جاتے ہوئے جو سلوک پاکستانیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے انہیں لوہے کے جنگلوں میں بند کر کے اٹاری سے امرتسر تک سفر کرایا جاتا ہے مگر ہم اس زیادتی پر بھی خاموش رہتے ہیں کہ معاملات پرامن طور پر چلتے رہیں بہت سے معاہدے ایسے ہیں جن پر ہندوستان نے کبھی عمل نہیں کیا ۔ اب تو سیکولر سرکار کی جگہ خالص وہ لوگ برسراقتدار آگئے ہیں جو ہمارے دوست نہیں بلکہ کٹر دشمن ہیں ۔ اب کوئی پردہ حائل نہیں ہے کہ ہندوستانی سرکار کیا چاہتی ہے ۔ وہاں کی سیکولر قوتیں شاید انتخابی میدان میں کمزور پڑ چکی ہیں اور اب موجودہ حکومت نے انتہائی سخت رویہ پاکستان کے بارے اپنا رکھا ہے ابھی پچھلے دنوں ایک کشتی کو اور دیگر اہم واقعات کو پاکستان سے جوڑ کر ہمارے خلاف فضا بنائی جارہی ہے ۔ اس علاقے میں پاکستان ہی ایک وہ قوت ہے جو ہندوستان کے عزائم میں رکاوٹ ہے اور مغربی قوتیں یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی ہیں کہ کبھی بھی ہندوستان چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ حالانکہ’’ دلائی لامہ‘‘ اور ’’نچن لامہ‘‘ کی قیادت میں نئی دہلی میں (Anti China) حکومت بھی ہندوستان کی سرپرستی میں کا م کر رہی ہے اب ہمیں اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی کرنا پڑے گی ۔ کشمیر میں دفعہ 480ختم کرکے براہ راست مرکزی حکومت کے تابع کر دیا گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ میں بھارت نے رائے شماری کے کئے گئے وعدے پر ابھی تک عمل نہیں کیا ۔ کسی وعدے پرہندوستان کی حکومت عمل نہیں کرتی اور ہماری حکومتیں براہ راست کوئی احتجاج بھی نہیں کرتیں ۔ کیا معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے اور ہوا میں غائب ہو جائیں گے ہم کیوں فریب میں مبتلا ہیں ۔ کشمیری مسلمان اور وہاں کے عوام مسلسل مار کھا رہے ہیں قربانیاں دے رہے ہیں مگر ہماری کشمیر کمیٹی یور پ کے اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہر کر واپس آ جاتی ہے بلاشبہ پاکستان انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے اور ہم خود بہت سی مشکلات کا شکار ہیں جو ہمارے پڑوسی ملک کی پیدا کردہ ہیں ۔ اب ہمیں اس نمائشی پردے کو چاک کر دینا چاہئے اور بتا دینا چاہئے کہ ہماری تمام تکالیف کا ذمہ دار ہمارا پڑوسی ملک ہے ورنہ حشر ان ملکوں سے مختلف نہیں ہو گا جو آج کل افراتفری اور عدم مرکزیت کا شکار ہیں ۔ ہم دہشت پسندی کی ہولناک آگ میں جل رہے ہیں جب ہم خود ہی کمزور زبان میں احتجاج بھی نہیں کرتے تو دنیا کیا ہماری مدد کرے گی یہ ایک کھلا ہوا سچ ہے کہ آخر پاکستان بنانے والی قوتیں کیوں علیحدگی پر مجبور ہوئیں اور یہ ملک حاصل کیا جو آج دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت بھی ہے نریندر مودی کی سرکار کو کیوں لایا گیا ہے اور ہمارے دوست ہم سے کیا چاہتے ہیں اس کا تجزیہ بھی ہونا چاہئے چین سے ہندوستان بھی لڑ نہیں سکتا اس نے ایک ہی حملے میں ہندوستان کے چھ ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ہندوستانی حکومت نے شور مچا کر دنیا سے بے شمار اسلحہ اور سرمایہ اکٹھا کیا جو 1965میں ہمارے خلاف استعمال ہوا ۔ ہمیں آپس کی لڑائیوں سے فرصت نہیں، ایک مضبوط اور جاندار پاکستان ہی ہمارے مسائل کا حل ہے ورنہ ہندوستان میں ایک ہی نعرہ گونجتا ہے کہ پاکستان کو ختم کر دو۔
تازہ ترین