• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُڑی کیمپ ، کشمیر پر حملے کے بعد پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر جنگ کے دہانے پر ہیں۔ عوامی دبائو نے بھارت کو جارحانہ اقدامات اٹھانے پر کمر بستہ کردیا ہے ۔اس کے رد ِعمل میں پاکستان بھی جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔ دونوں ممالک اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی جنگ کرچکے ہیں۔ 2001 ء میں بھی یہی صورت ِحال تھی جب کشمیری مجاہدین کے کسی گروہ نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا۔ کہا گیا کہ وہ پاکستان سے سرحد پار کرکے آئے تھے ۔ اس کے بعد 2008ء میں ممبئی حملوں کا الزام ایک مرتبہ پھر پاکستان سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں پر لگایا گیا۔ ہر موقع پر جنگ کا ماحول گرم ہوتا دکھائی دیا ، لیکن طرفین کے سوچ سمجھ رکھنے والے، ٹھنڈے دل کے مالک افراد اور امریکہ کی فعال مداخلت کی وجہ سے مسلح تصادم کا خطرہ ٹل گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا ؟
آج خطرناک صورت ِحال ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان جو کچھ مرضی کہے، دنیا اس بات کی قائل ہے کہ اُڑی حملے میں ’پاکستان کا ہاتھ ‘ اُسی طرح ہے جس طرح 2001 ء اور2008 ء کے حملوں میں تھا۔ دوسری بات یہ کہ 2001 ء اور2008 ء کے برعکس اس وقت امریکہ پاکستان کا ساتھ دینے کے لئے فعال نہیں ۔ اُس وقت نائن الیون کی وجہ سے امریکہ کا پاکستان سے مفاد تھا لیکن آج اُس کا جھکائو بھارت کی طرف ہے ۔ امریکہ کا پاکستان پر الزام رہاہے کہ اس نے افغانستان مشن میں فعال کردار ادا نہیں کیا ۔ اس وقت انڈیا امریکہ کا ایسا تزویراتی شراکت دار ہے جسے جنوبی ایشیا میں چین کے مقابلے پر کھڑا کیا جارہا ہے ۔ اس عالمی گریٹ گیم میں پاکستان کا کردار کم ہوچکا ۔ بدترین بات یہ کہ امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دینے کے لئے ایک بل پیش کیا ہے ۔ اس حوالے سے کچھ معروضات کو پیش ِ نظر رکھنا ضروری ہے ۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کشمیر میں بھارتی فوج پر حملہ کیاگیا ہو۔ گزشتہ تین سالوں سے، جب سے یہ نئی شورش شروع ہوئی ہے ، کشمیر ی مجاہدین نے بھارتی فوج پر کئی ایک حملے کیے ہیں۔ تو پھر اُڑی حملہ اتنا اہم، یا دیگر حملوں سے مختلف کیوں ہوگیا؟اس کا جواب سادہ ہے ۔ اُڑی حملے سے پہلے گرداسپورائیربیس پر حملہ ہوا تھا۔ اُس حملے کا الزام پاکستان سے دراندازی کرنے والے جہادی گروہوں پر لگاتھا۔ اُس وقت بھارت کے تحمل کی وجہ یہ تھی کہ وزیر ِ اعظم نواز شریف اور وزیر ِاعظم نریندر مودی کے درمیان ایک مفاہمت کی فضا اور ایک سوچ پائی جاتی تھی کہ ایسے حملے دراصل اُن حلقوں کی طرف سے کیے جارہے ہیں جو پاک بھارت قیام ِ امن کے عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے مذاکرات کے سلسلے کو پٹری سے اتارنا چاہتے ہیں۔اس کے بعد پاکستان نے انڈیا کو مستقبل میں ہونے والی کچھ ممکنہ حملوں کی بابت کچھ معلومات بھی فراہم کیں ۔
آج صورت ِحال مختلف ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان پروان چڑھنے والا خیر سگالی کا عمل قصہ ٔ پارینہ بن چکا ہے ۔ چنانچہ یہ دونوں واقعات بھارت میں’’ پاکستان کی طرف سے کی جانے والی اشتعال انگیزی‘‘ کے طور پر دیکھے جارہے ہیں۔ پاکستان کی مجبور ی ہے کہ اس نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنی تھی کیونکہ بھارت کی سیکورٹی فورسز کشمیریوں پر بے پناہ ستم ڈھارہی تھیں۔ دوسری بات یہ کہ اُڑی میں بھارتی فوجیوں کا جانی نقصان (اٹھارہ ہلاکتیں) بہت زیادہ ہے ۔ اس نقصان نے دیگر واقعات کو ملا کر ایک تصویر بنا کر بی جے پی حکومت اور بھارتی فوج کے سامنے کردی ہے ۔ تیسری بات یہ کہ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا ہے جب مقبوضہ وادی میں بھارتی فورسز انسانی حقوق کی سنگین پامالی کررہی ہیں۔تحریک کی شدت نے بھی بھارت کو حواس باختہ کردیا ہے ۔ اس وقت کچھ بھارتی ہاک لائن کنٹرول کے پار سرجیکل اسٹرائیک کی بات کررہے ہیںتاکہ وہاں موجودہ مبینہ ٹریننگ کیمپوں یا جہادی عناصر کی دراندازی میں سہولت فراہم کرنے والے نیٹ ورک کو تباہ کردیا جائے ۔ تاہم کچھ محتاط حلقے ایسے اقدامات کی حمایت سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ جنگ کا دائرہ بڑھ کر ایٹمی تصادم کی طرف جاسکتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنی حکومت کو سفارتی ذرائع استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پاکستان پر دبائو بڑھانے کا ایک راستہ ، جو بھارت نے اختیار کیا ہے ، وہ بلوچستان میں ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی ‘‘ کو اجاگر کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی پالیسی ہے ۔ بھارتی وزیر ِاعظم کی اپنے یوم ِ آزادی پر کی جانے والی تقریر ، جس میں اُنھوںنے آزاد کشمیر، بلوچستان، گلگت بلتستان کے مظلوم عوام ‘‘ کے حقوق کی بات کی، کے بعد علیحدگی پسند رہنما، برہمداغ بگٹی نے بھارت میں پناہ کی درخواست دے دی ہے ۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ نئی دہلی دوول ڈاکٹرائن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سنجیدہ ہے ۔ خدشہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں موجودہ صورت حال مزید سنگین ہوجائے گی ۔ ہوسکتاہے کہ کچھ محدود پیمانے پر جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ مودی سرکاراس صورت ِحال کا فائدہ اٹھا کر پنجاب اور یوپی میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے انتہا پسند عناصر کے ووٹ حاصل کرے گی۔ دوسری طرف نوازشریف حکومت پرسیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کا مزید دبائو آجائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اسے 2018ء کے انتخابات کے قریب ترقیاتی منصوبوں سے بھی دستبردار ہونا پڑے۔ اس طرح سول ملٹری تعلقات پر پراسرار تاریکی کا سایہ مزید گہرا ہوجائے گا۔اس دوران اُن افراد کا کیس مضبوط ہوجائے گا جو جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کے حق میں ہیں۔ اُن کی دلیل وزنی ہوجائے گی کہ بھارت کے ساتھ جاری کشمکش کے دوران آرمی چیف کی تبدیلی کی حماقت کی گنجائش نہیں۔ دوسرے الفاظ میں، جس طرح کارگل نے مسٹر شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان ناچاقی پیدا کی، خدشہ ہے کہ اُڑی واقعات بھی ایسے ہی مضمرات کا حامل نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے لئے تباہ کن ہوگا۔ پاکستان نہ صرف علاقائی محاذآرائی کی نذر ہوجائے گابلکہ اسے عالمی تنہائی اور معاشی جمود کا بھی سامنا کرناہوگا۔ بطور ریاست اس کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ تاہم پاکستان کے سامنے مکمل طورپر تاریکی ہی نہیں ہے ، امید کی کرن روشن ہے۔ یہ اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے کی سکت رکھتا ہے۔ انڈیا کو جنگی ماحول گرم کرنے دیں، لیکن ہم نے دراصل اپنا گھر درست کرنا ہے۔ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اور فوجی قیادت اپنے اختلافات کو بھلا کر ملکی مفاد میں اکٹھے ہوجائیں۔ اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے، اس لئے دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین