• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیل کی عالمی منڈیاں مسلسل بحران کا شکار ہیں اور تیل کی قیمتیں 50 ڈالر فی بیرل کی سطح سے بھی نیچے آگئی ہیں۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اوپیک ممالک تیل کی پیداوار میں کمی لائیں لیکن اوپیک کی یومیہ30 ملین بیرل تیل کی مجموعی پیداوار میں 9.5ملین بیرل یومیہ کے حصے دار ملک سعودی عرب کا اصرار ہے کہ تیل کی پیداوارمیں کمی نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں سعودی وزیر پیٹرولیم کا کہنا ہے کہ ’’سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کی مخالفت شیل آئل کی نومولودصنعت کو ناکام بنانے کیلئے کی ہے کیونکہ 50ڈالر فی بیرل سے کم قیمت پر شیل آئل پیدا کرنا منافع بخش نہیں ہے۔‘‘ سعودی عرب کے مذکورہ اقدام کے باوجود امریکہ میں شیل آئل کی پیداوار پر عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا اورشیل آئل کی طلب بدستور جاری ہے جس کے باعث توانائی کے شعبے میں امریکہ کا سعودی عرب پر انحصار کم ہوا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کی ایک وجہ روس اور ایران پر عائد معاشی پابندیاں بھی ہیں۔ اس حوالے سے ایران کے وزیر پیٹرولیم کا کہنا ہے کہ 2014ء میں دنیا میں تیل کی طلب 90ملین بیرل یومیہ تھی جس میں سے 30ملین بیرل تیل اوپیک ممالک اور 60ملین بیرل تیل غیر اوپیک ممالک پیدا کرتے ہیں۔ انکے بقول تیل کی قیمتوں میں یہ کمی زیادہ دن نہیں رہےگی اور آئندہ مہینوں میں تیل کی قیمت 70 سے 90ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیگی۔تیل پیدا کرنیوالے ممالک کو اپنے بجٹ کو متوازن کرنے کیلئے ضروری ہے کیونکہ روس کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تیل ہے اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث روس کی معیشت شدید دبائو کا شکار ہے۔ واضح رہے کہ اوپیک کے ممبر ممالک کی تیل کی پیداوار 30ملین بیرل یومیہ ہے، میں سب سے زیادہ 9.5 ملین بیرل یومیہ تیل کی پیداوار کیساتھ سعودی عرب سرفہرست ہے جسکے بعد امریکہ 8.5 ملین بیرل، عراق، ایران، متحدہ عرب امارات اورکویت تین تین ملین بیرل یومیہ تیل کی پیداوار کے ساتھ دوسرے اورتیسرے نمبر پر ہیں اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث ان ممالک کی معیشت شدید دبائو کا شکار ہے۔’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے کالم نگار تھامس ایل فرائڈمین کے مطابق تیل کی تجارت اب’’تیل کی سرد جنگ‘‘ میں تبدیل ہورہی ہے کیونکہ امریکہ اور سعودی عرب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت روس اور ایران کی معیشت کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں جس کا خمیازہ تیل پیدا کرنے والے دوسرے چھوٹے ممالک کوبھی بھگتنا پڑرہا ہے۔ تھامس کے بقول امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ روس پر یوکرائین کے حوالے سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کا زیادہ سے زیادہ اثر ہو جس کے نتیجے میں عالمی سیاست میں روس کا اثر و رسوخ کم ہوجائے گا لیکن تیل کی قیمتیں کم ہوجانے کے باعث لیبیا، عراق، نائیجریا اور شام جیسے ممالک( جو پہلے ہی جنگی صورتحال کا شکار ہیں)کی معیشتیں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ امریکہ میں شیل آئل اورگیس کی پیداوار میں 70% اضافہ ہے جو سعودی عرب کے لئے بڑا خطرہ ہےجبکہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے منفی اثرات تیل کی صنعتوں پر پڑ رہےہیں جس کے باعث آئل سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے۔ اسکے علاوہ آئل کمپنیوں کے منافع میں کمی کی وجہ سے عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں ان کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتیں مسلسل گررہی ہیں جبکہ روس، وینزویلا اور ایران جن کی معیشتوں کا تمام تر دارومدار تیل کی برآمد پر ہے، کو تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث ان ممالک کی کرنسیاں مسلسل گررہی ہیں اور نتیجتاً ان کی امپورٹ مہنگی اور افراط زر(مہنگائی) میں اضافہ ہورہا ہے جس سے وہاں انقلابی تحریکیں جنم لینے کا خدشہ ہے۔ ایران میں پہلے ہی افراط زر 20% ہے جبکہ روس میں یہ شرح 10% سے متجاوز ہوچکی ہے جس کی وجہ سے روس میں کھانے پینے کی اشیاء 40% سے 50% تک مہنگی ہوچکی ہیں جس کے پیش نظر روسی صدر ولادئمیر پیوٹن واضح کرچکے ہیں کہ 2015ء میں روس معاشی بحران کا شکار رہے گا۔ ان کے بقول بین الاقوامی پابندیوں اورتیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث روس کو اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے نتیجے میں گزشتہ تین ماہ کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے میں روسی کرنسی روبل کی قدر میں تقریباً 23 فیصد تک کمی آچکی ہے اور معاشی ماہرین کی قیاس آرائیاں ہیں کہ تیل کی قیمت 50 ڈالر فی بیرل سےکم ہونےکی صورت میں روسی کرنسی شدید دبائو کا شکار ہوجائے گی جسے روکنے کے لئے روس نے شرح سود 10.5% سے بڑھاکر 17% کردی ہے۔ روس کی گرتی ہوئی معیشت کے پیش نظر عالمی ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پوور نے بھی روس کی ریٹنگ کم ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ اس حوالے سے روس کے وزیر خزانہ انتون سلونیف کا کہنا ہےکہ یوکرین کے معاملے پر امریکہ اور مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں جس کے نتیجے میں روس کو 100 ارب ڈالرسے زائد کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ کرنسی کی قدر گرنےاور معاشی بحران کی وجہ سے روس کےکئی بینک شدید مالی بحران کا شکار ہوچکے ہیں اورحکومت نے ٹرسٹ بینک کو بحران سے نکالنے کیلئے 24 ارب ڈالر کی مالی مدد فراہم کی ہے جس سے روسی زرمبادلہ کے ذخائر 2009ء کے بعد پہلی بار 400 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی اور سعودی عرب کے بڑھتے خسارے کے پیش نظر پاکستان کی ترسیلات زر میں بھی کمی کا خدشہ ہے۔ سعودی عرب نے تجارتی خسارے پر قابو پانے کیلئے تنخواہوں اور الاؤنسز میں کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے جس کے باعث پاکستان کو سعودی عرب سے حاصل ہونے والی ترسیلات زرجس کا حجم سالانہ 4.73 ارب ڈالر ہے کم ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال ملک کی مجموعی ترسیلات زر 15.83 ارب ڈالر تھیں اور توقع کی جارہی تھی کہ رواں مالی سال یہ 18 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں لیکن تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی کا امکان ہے۔ معاشی ماہرین کے بقول پاکستان جو سالانہ 12 سے 13 بلین ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کررہا ہے، تیل کی قیمتوں میں 50% کمی سے ملکی تجارتی خسارے میں کمی آئے گی جبکہ پی آئی اے جو عالمی مارکیٹ سے سالانہ 50 ارب روپے کا تیل خریدتا ہے، کو فرنس آئل کی قیمتوں میں کمی سے سالانہ 25 ارب روپے کی بچت ہوگی اور پی آئی اے جیٹ فیول کی قیمت 3.25 ڈالر فی گیلن سے 1.8 ڈالر فی گیلن ہونے کی وجہ سے اپنے مسافروں کو کم کرائے کے بہترین پیکیجز کی پیشکش کرسکتا ہے۔
پاکستان کے اخبارات میں آج کل بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی خبریں گردش کررہی ہیں جس کے پیش نظر میں نے حال ہی میں وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر سے کراچی میں ہونے والی ملاقات میں ان پر واضح کیا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں 50% کمی کے باوجود بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے سے ملک کی معاشی و صنعتی سرگرمیوں پر انتہائی مضر اثرات پڑیں گے جس سے نہ صرف صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا بلکہ صنعتی اشیاء عالمی مارکیٹ میں غیر مقابلاتی ہوجائیں گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل 3 دفعہ کم کئے جانے کے باوجود ٹرانسپورٹ کرایوں اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہےتو اس کا تمام تر بوجھ صارفین اور محنت کش طبقے پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن تیل کی کمی کا تمام ترفائدہ حکومتی خزانے اور کاروباری کارٹیل کے گٹھ جوڑ کو ہوتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اشیائے خورد و نوش، ادویات، پیٹرولیم مصنوعات، ٹرانسپورٹ کے کرایوں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے لیکن قیمتوں میں کمی کے ثمرات و فوائد سے عوام کو محروم رکھا جاتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کے باوجود اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں کمی نہ ہونا صوبوں کی انتظامی کمزوریوں اور عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ صوبائی حکومتوں کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے فوائد عوام تک پہنچانے کا پابند کیا جائے تاکہ عوام جو کئی عشروں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، کو ریلیف مل سکے۔
تازہ ترین