• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے خلاف جاری قومی جنگ میں وہ مسائل سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن کی توقع کی جارہی تھی ۔اس حوالے سے تین اہم باتوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔اول یہ کہ تمام خارجی اور داخلی راستوں میں فوج کے کردار میں اضافہ ہورہا ہے ۔بعض حلقے جنرل راحیل شریف کے بیرونی ممالک کے دوروں کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے جوڑ رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان ٹکراؤ کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔اس ضمن میں 21ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس سےمتعلق قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف قومی جنگ کو متنازع بنانے کی کوششوں کا تاثر پیدا ہورہا ہے اور چند سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ایسی باتیں کرنا شروع کردی ہیں،جو قومی اتفاق رائے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا تینوں باتوں کے تناظر میں اگر ہم نے بحیثیت قوم تدبر اور دانش سے مسائل کا سامنا نہ کیا تو اس سے زیادہ گمبھیر صورت حال پیدا ہوسکتی ہے ،جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔
جہاں تک جنرل راحیل شریف کے بیرونی ممالک خصوصاً امریکہ، افغانستان اور برطانیہ کے دوروں کا تعلق ہے ،ان کے بارے میں سیاسی قیاس آرائیاں کرنا مناسب نہیں ۔ان دوروں کو پاکستان کے ماضی کے تجربات کی روشنی میں نہیں بلکہ موجودہ غیر معمولی حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے مذکورہ بالا ملکوں کے دورے میں نہ صرف وہاں کے فوجی اور سول حکام کے ساتھ مذاکرات میں اسٹریٹجک ایشوز پر بات کی بلکہ ان معاملات پر بھی بات کی ،جو سفارتکاری کے زمرے میں آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ ٹی وی چینلز کے مذاکروں میں یہ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ آرمی چیف کو خارجہ امور سونپ دیئے گئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ ،افغانستان اور برطانیہ میں انہیں سرکاری طور بہت زیادہ اہمیت دی گئی ۔ایک رپورٹ کے مطابق وہ شاید پہلے آرمی چیف ہیں ،جن کا سربراہ مملکت نہ ہوتے ہوئے بھی 10ڈاؤننگ اسٹریٹ میں خود برطانوی وزیراعظم کیمرون نے استقبال کیا ۔امریکہ اور افغانستان کے دوروں میں بھی انہیں غیر معمولی اہمیت دی گئی۔آرمی چیف نے اپنے دوروں میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے ان معاملات کی نشاندہی کی ،جن کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے ،پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھارتی افواج کی جاری کارروائیوں سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے ،پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کو بیرونی امداد اور پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کی حوالگی کے معاملات پر کسی لگی لپٹی کے بغیر کھل کر باتیں کیں۔اس طرح کی باتیں پاکستان کو بہت پہلے کرنا چاہئیں تھیں اور دنیا کو یہ بتایا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اور اب پاکستان پر مزید دباؤ ڈال کر حقائق کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ لندن میں پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ کی نیوز بریفنگ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے کس طرح اپنے دوروں میں معاملات کو اٹھایا ہے ۔اب ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ پاکستان سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ مطالبہ پاکستان کو کرنا چاہئے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ داخلی امور میں بھی فوج کے کردار میں اضافہ ہورہا ہے ۔21ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور فوجی عدالتوں کا قیام غیر معمولی اقدامات ہیں لیکن اس صورتحال کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں نہیں دیکھنا چاہئے۔پاکستان کے حالات انتہائی غیر معمولی نوعیت کے ہیں ۔ہم حالت جنگ میں ہیں ۔اگر امریکہ اور برطانیہ سمیت بیرونی ممالک پاکستان کے آرمی چیف کو اہمیت دے رہے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ بھی جنگ کی صورتحال میں پاک فوج کے سب سے زیادہ اہم کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔جنرل راحیل شریف نے کامیابی کیساتھ امریکہ، برطانیہ اور افغانستان کے سامنے اس خطے کی صورتحال کا معروضی تجزیہ اور حل پیش کیا ہے۔اس سے پاکستان کے کردار کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے ۔اگر امریکہ اور برطانیہ میں بڑے پیمانے پر جنرل راحیل شریف کی پذیرائی ہوئی ہے تو اسکے پیچھے کسی کی محبت نہیں بلکہ حالات کا جبر ہے۔جنرل راحیل شریف امریکہ ،افغانستان اور برطانیہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ پاکستان خصوصاً اس کے صوبہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انکی کوششوں سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نےاپنے حالیہ دورہ بھارت میں وہاں کے حکمرانوں سے پاکستان کی تشویش پر بات کی ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی جنرل راحیل شریف کے دورے کے بعد بہت سے ایشوز پر پاکستانی موقف کو واضح طور پر سمجھ چکے ہیں اور وہ اس خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان کے موقف کو وزن دے رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ برطانیہ کے بھی مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔برطانیہ امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور امریکہ عالمی امور میں برطانیہ کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔برطانیہ پاکستان سمیت اس خطے کو اچھی طرح جانتا ہے ۔وہ اس خطے کی ثقافت ،تہذیب اور لوگوں کی نفسیات سے آگاہ ہے۔برطانوی تھنک ٹینک سے جنرل راحیل شریف کا خطاب بہت اہمیت کا حامل تھا۔
جہاں تک داخلی امور میں فوج کے کردار میں اضافے کا معاملہ ہے ،اسے بھی غیر معمولی حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔نائن الیون کے بعد امریکی پارلیمنٹ نے وہ فیصلے کئے ،جو امریکی آئین ،روایات ،انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹرز کے خلاف تھے۔ امریکہ تو محفوظ ہوگیا لیکن یہ جنگ ہر خطے اور ہر براعظم میں پھیل گئی ۔21ویں آئینی ترمیم کو جنگی صورت حال کے تناظر میں سمجھنا چاہئے۔یہاں حکومت اور پراسیکیوشن کےسرکاری اداروں کی کمزوری کی بھی فوجی عدالتوں کے قیام کا جواز بنی ۔ سیاسی جماعتیں اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکری قیادت کے عزم اور جذبے کا ساتھ دے رہی ہیں تو یہ بھی غیر معمولی حالات کا تقاضا ہے ۔فوج نے اگر سیاسی مداخلت کرنا ہوتی تو اسلام آباد میں ہونے والے دھرنوں کے باعث پیدا ہونے والا موقع کبھی ضائع نہ کرتی ۔جنرل راحیل شریف جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہیں مگر پاکستان کو درپیش سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنا فوج کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔اس حوالے سے غلط فہمیاں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔
فوج کردار کے حوالے سے غلط سیاسی اندازوں اور خدشات کے ماحول میں 21ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے ۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس ملک کے تین بڑے اداروں حکومت ،فوج اور عدلیہ کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں اور فاصلے بڑھ رہے ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتیں قومی اتفاق رائے سے ہٹ کر باتیں کررہی ہیں ۔دوسری طرف بعض سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بظاہر تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مکمل حمایت کررہی ہیں لیکن وہ اپنا موثر کردار ادا نہیں کررہیں ۔وہ سمجھتی ہیں کہ بس 21ویں ترمیم کی حمایت کرکے انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے ۔پشاور میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ رونما ہونے والا واقعہ بھی تشویشناک ہے۔یہ دراصل سیاستدانوں سے نفرت کا اظہار ہے ،چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ۔چاہے وہ دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ کی حمایت کررہے ہیں یا مخالفت ۔یہ ساری باتیں ملک ،جمہوریت اور قومی جنگ کے لئے اچھی نہیں ہیں۔ان تمام مسائل پر تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اداروں کے مابین فاصلے پیدا کرنے سے گریز کیا جائے اور ان میں ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے ۔سیاسی جماعتیں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں ،بصورت دیگر قومی جنگ میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بہت مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور غلط فہمیوں سے سسٹم کے لئے بھی خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ہمارے پاس جنگ جیتنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔
تازہ ترین