• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر مشرف نے ایک دفعہ کہا کہ وہ سید ہونے کی وجہ سے اپنے پیر خود ہی ہیں۔ وہ آج بھی بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میرے لئےخانہ کعبہ کا اندر والا دروازہ بھی کھولا گیا جس کے بعد میں سیڑھیاں چڑھ کر کعبہ کی چھت پر گیا ۔شیخ رشیدسنایا کرتے ہیں کہ’’کعبہ کی چھت پر پہنچ کر مشرف نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ اب میں کس طرف منہ کر کے نفل پڑھوں ‘‘ میں نے کہا کہ’’اب آپ وہاں ہیں کہ جہاں جدھر بھی منہ کریں گے نماز ہو جائے گی‘‘۔ صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کیخلاف مذہب ، پیروں اورگدی نشینوں کا بڑی عقل مندی سے استعمال کرنے والے ایوب خان 1960ء میں عمرہ کیلئے گئے تو ان کیلئے بھی خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا ، اندر نفل پڑھنے کے بعد صدر ایوب نے وہیں کھڑے کھڑے قدرت اللہ شہاب کو بتایا کہ’’ میں نے آج یہ دعا بھی کی ہےکہ ہندوستان کے سامنے کبھی میرا سر خم نہ ہو ‘‘۔ شہاب صاحب ہی بتاتے ہیں کہ مدینہ میں حجرہ رسول ؐ میں داخل ہوتے ہی صدر ایوب پر کپکپی طاری ہوگئی اورپھر میں نے انہیں اپنے دونوں ہاتھوں سے روضہ اطہر کا غلاف تھامے پہلی اورآخری دفعہ روتےدیکھا۔ایوب خان کی دادی چونکہ پیر دیول شریف کی مریدتھیں اور وہ گولڑہ شریف سے بھی خصوصی عقیدت رکھتی تھیں ، اسی نسبت سے ایوب خان کو بھی ان دونوں پیر خاندانوں سے خاص انس و عقیدت رہی۔گورنر جنرل غلام محمد کے پیر حاجی وارث شاہ تھے ۔ لکھنو کے نواحی قصبے دیوا شریف میں دفن حاجی وارث شاہ کی گورنر جنرل کے بیڈ روم میں موجود تصویر پر روزانہ بیوروکریٹس اور سیاستدان خوشامد کےتازہ پھول چڑھاتے،جعلی مرادیں اور نقلی منتیں مانی جاتیں اور پھر گورنر جنرل کو اُن منتوں اور مرادوں کے پورا ہونے کے من گھڑت قصے سنائے جاتے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ گلے میں کیمرہ لٹکائے ہر وقت غلام محمد کے اردگرد منڈلاتے اور ان کی تصویریں کھینچتے حسین شہید سہروردی (جو بعد میں وزیراعظم بن گئے ) نے ایک دن پیر صاحب کی تصویر کے سامنے ماتھاٹیکنے کے بعد رو رو کر غلام محمد کو بتایا کہ’’ رات خواب میں پیر سائیں فرما رہے تھے کہ غلام محمد کا خیال رکھا کرو وہ اکیلا پورا ملک چلا رہا ہے‘‘۔یہ سن کر سہارے کے بغیر باتھ روم تک نہ جاسکنے والے فالج زدہ غلام محمد ایک دکھی چیخ مار کر بولے ’’ہائے میرے بعد ملک کا کیابنے گا ‘‘ لیکن اقتدار چھن جانے کے بعد بیٹی کے گھر کلفٹن (کراچی) میں مقیم غلام محمد نے جب اپنے معالج کرنل غلام سرور کے ذریعے حکومت سے درخواست کی کہ انہیں ایک خصوصی جہاز میں دیوا شریف بھجوایا جائےتو ان دنوں سکندر مرزا کی تصویریں کھینچتے حسین شہید سہروردی بولے ’’بڈھے کوکہو چند دن انتظار کرلے ،اب تو جہاز کے بغیر ہی اس کی پیر سے ملاقات ہو نے والی ہے ‘‘۔
المرتضیٰ لاڑکانہ میں 5جنوری 1928ء کی صبح 3بجے پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشید بیگم نے ممبئی کے ایک پنڈت سے اپنے بیٹے کیلئے زائچہ نکلوایا ۔ پنڈت نے کہا کہ یہ بچہ اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے گا مگر اس کا انجام بڑا درد ناک ہوگا۔ بھٹو جب صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو تو اُنہوں نے اپنے دوست جے اے الانہ کو خاص طور پر اُسی پنڈت کے پاس ممبئی یہ پتہ چلانے کیلئے بھجوایا کہ میری قسمت میں تبدیلی آئی ہے یا ابھی بھی درد ناک انجام میرا مقدر ہے۔جسمانی طورپر کمزور بھٹو کو 3سال کی عمر میں جب ملیریا ہوا اور ان کی حالت بہت خراب ہوگئی تو اُن کی والدہ انہیں لعل شہباز قلندر کے مزار پر لے گئیں جہاں حاضری کے بعد وہ معجزاتی طور پر صحت یاب ہو گئے ۔ اسی وجہ سے بھٹو تمام عمر لال شہباز قلندر کو اپنا مرشد کہتے رہے ۔ جنرل ضیاء الحق جنہیں ان کے قریبی دوست’’مولوی ضیاء الحق‘‘ کہہ کر پکارا کرتے دھمیال کیمپ (راولپنڈی ) کے بابا مستان شاہ کے معتقد تھے ۔ جونیجو حکومت کی برطرفی پر اسی بزرگ نے برملا کہنا شروع کر دیا کہ سب ولی،قطب اور ابدال ضیاء الحق سے ناراض ہو چکے ہیں لہٰذا ان کا انت قریب ہے اور پھر حیرت انگیز طور پر ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی ضیا ء الحق فضائی حادثے میں چل بسے ۔صدر ضیاء اپنے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر نجیب سے بھی بہت متاثر تھے ۔ ضیاء الحق کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے کسی روحانی سلسلے سے منسلک اور قرآن وحدیث پر عبور رکھنے والے بریگیڈئیر نجیب سے مشورہ مانگا کرتے جو استخارہ کر کے انہیں اپنی رائے دیتے۔ کہا جاتا ہے کہ بریگیڈئیر صاحب نے جنرل ضیاء کو بہاولپور نہ جانے کا مشورہ بھی دیا تھا مگر ضیاء الحق نہ صرف خود گئے بلکہ اُنہیں بھی ساتھ لے گئے اور یوں وہ بھی اسی حادثے کا شکار ہوئے۔بے نظیر بھٹو نے کئی دفعہ اجمیر شریف حاضری دی ، وہ بنگلہ دیش گئیں تو فرید پورجا کر پیر چشتی سے ملیں۔جنہوں نے بی بی سے کہا کہ اب کی بار جب آم پکیں گے تو آپ کی گود ہری ہوگی، تب بختاور پیدا ہوئیں۔ ایبٹ آباد کے نواح میں بابا دھنکہ تھے جن سے کمر پر لاٹھیاں کھانا مبارک سمجھا جاتا تھا۔ بی بی متعدد دفعہ وہاں گئیں اور لاٹھیاں کھا کرآئیں۔ ہاکی کے سابق کھلاڑی اور موجودہ سیاستدان اختر رسول کیساتھ بڑی عقیدت اورمحبت سے ڈاکٹر طاہر القادری کو حج کروانے اور کندھوں پر بٹھا کر غار ِ حرا تک لے جانے والے وزیراعظم نواز شریف بھی پیروں فقیروں پر بہت یقین رکھتے ہیں ۔ داتا دربار اور بری امام کے مزاروں پرگھنٹوں بیٹھنے والے میاں صاحب بھی ایبٹ آباد گئے اور بابا دھنکہ سے لاٹھیاں کھا کر لوٹے۔ صدقہ دینے ، دعائیں کروانے، اور گھر میں باقاعدگی سے ختم قرآن اور نعت خوانی کروانے اور اپنے لئے2کے ہندسے کو مبارک سمجھتے نواز شریف اکثر اہم اجلاس ہفتے کے دوسرے دن (منگل ) یا اُس کے بعد رکھتے ہیں، ان کی سیاست میں 2کا ہندسہ نمایاں نظر آتاہے۔
مذہب سے واجبی لگاؤ رکھنے والے شوکت عزیز اپنی سیاست کی طرح اپنی مذہبی رسومات میں بھی میڈیا کوریج نہ بھولتے ، جیسے جب وہ خانہ کعبہ کے اندر جانے لگے تو پہلے سیڑھی پر کھڑے ہوکر خصوصی طور پر احرام میں تصویر بنوائی اور پھر اسے میڈیا میں ریلیز کروایا ۔دورہ ایران کے دوران زیارتیں کرتے ہوئے ایک روضہ مبارک پر اُنہوں نے اُس وقت تک دو نفل نماز شروع نہ کی کہ جب تک کہیں پیچھے رہ جانے والی سرکاری میڈیا ٹیم پہنچ نہ گئی۔ان کے مذہبی رجحان کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس رات لال مسجد آپریشن شروع ہو رہا تھا اور پورا ملک خوف، تشویش اور پریشانی میں مبتلا تھا ، عین انہی لمحوں میں وزیراعظم شوکت عزیز اپنے دو دوستوں کے ہمراہ بلیو ایریا اسلام آباد میں قلفیاں کھا رہے تھے ۔ زرداری صاحب نے پیری فقیری میں دست شناسی ،ستارہ شناسی اور علم ِ نجوم کو ملا کر ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھی ۔ زرداری صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ ’’ایک نجومی نے ان کی بہن فریال تالپور کو بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ وہ صدر بنیں گے ۔ ان کا ایک آسٹر لوجسٹ بھارت میں جبکہ ایک پامسٹ دوبئی میں ہوتا ہے ۔ گوجرانوالہ کے پیر اعجاز تو مکمل پروٹوکول کے ساتھ آخری وقت تک ایوان ِصدر میں رہے ۔زرداری صاحب اپنی روحانی ٹیم کے احکامات کی روشنی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ صدارت کے دنوں میں جب ان کی روحانی ٹیم کہتی کہ وہ پہاڑوں کے قریب چلیں جائیں تو وہ اسلام آباد آجاتے ۔ جب ٹیم حکم دیتی کہ پانی کے قریب پہنچیں تو وہ کراچی چلے جاتے اور اپنی ٹیم کے کہنے پر وہ وقتاً فوقتاً سات سمندر پار دبئی یا لندن بھی آتے جاتے رہے ۔ مرچوں سے نظرِ بد اتارنا اور کالے بکروں کا صدقہ زرداری صاحب کا معمول ہے ۔ چوہدری شجاعت کے پیر مولانا جا ن محمد ہیں۔چوہدری برادران مولانا طارق جمیل سے بھی بہت متاثر ہیں۔راجہ پرویز اشرف تربیلا کے صوفی حمید کے مرید ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن کے پیر مولانا حسن جان تھے جو 2007ء میں شہید ہوئے۔قارئین کرام ! جب میں یہ دیکھتاہوں کہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر اگلے 5سالوں کو محفوظ بنانے کیلئے ایک بزرگ کے بتائے ہوئے وظیفے پڑھنے والے لیاقت علی خان ایک ہفتے بعد ہی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ، ایک رات اپنی بیگم ناہید مرزا کے ساتھ اقتدار کی مضبوطی کیلئے 45سے زیادہ منتیں اور مرادیں ماننے والے سکندر مرزا کو صرف 3دن بعد ہی اقتدار سے ایسے جانا پڑتا ہے کہ پھر انہیں ملک میں قبر کی جگہ بھی نہیں ملتی،صدارت سنبھالنے پر آرمی چیف کے دفتر سے یہ کہہ کر کہ ’ ’یہ کرسی میرے لئےخوش نصیبی کی علامت ہے ‘‘اپنی کرسی منگوانے والے یحییٰ خان کو اسی کرسی سے سیدھا قید خانے جانا پڑجاتا ہے۔ خود کو سختیوں اور حادثوں سے بچانے کیلئے گوشت سے پرہیز کرکے دالیں اور سبزیاں کھانے والے سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کو آخر کار حادثاتی موت سے دو چار ہونا پڑا تو بالآخریہ کہنا پڑجاتاہے کہ حکمرانوں کے گرد گھومتی ضعیف الاعتقادی نہ اقتدار بچا پاتی ہے اور نہ انجام، کیا ہی اچھا ہو کہ صرف اور صرف اعمال و کردار کی بنیاد پر ہی فیصلے کئے جائیں۔
تازہ ترین