• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کہنا کس قدر مشکل ہے کہ ہماری قومی جمہوری پارٹیوں اور منتخب حکومتوں نے ہی ہمیشہ جمہوری نرسریوں کو برباد کیا ہے ۔اس نشیمن پراپنوں نے ہی بجلیاں گرائی ہیں غیروں نے تو آکے تھام لیا ہے وہ آمریتیں جن کی ہجوگوئی کر تے ہوئے ’’جمہوریت یا آمریت ‘‘کے نام سے پوری کتاب تصنیف کی تمام تر روسیاہی ومذمت کے باوجود افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کر نا پڑتا ہے کہ جمہوریت کی بنیادی اکائیوں کو اگر استحکام ملا ہے تو انہی سیاہ ادوار میں ....چاہے مقاصد جو بھی تھے ایوب خاں نے بنیادی جمہوریت کا نظام دیا تو ضیاء الحق نے ضلع کونسلوں، مراکز کونسلوں اور یونین کو نسلوں کی شکل میں منتخب بلدیاتی اداروں کاجال پھیلا دیا جبکہ پر ویز مشرف نے Devolution پلان کو بالفعل نافذ کرتے ہوئے جمہوریت کی ان ابتدائی نرسریوں کو ایک نئی آن ،بان اور شان بخشی۔ناچیز نے ایک مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو براہ راست مخاطب کر تے ہوئے یہ کہا تھا کہ آپ دو مر تبہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں آپ کے والد مرحوم بھی طویل عرصے تک وزیراعظم رہے لیکن آپ کو توفیق ہوئی نہ آپ کے والد محترم کو کہ بلدیاتی انتخابات منعقد کر واتے ہوئے عوام کو ان کا حق ان کے گلیوں محلوں میں لوٹا دیتے ۔ میاں صاحب کو بھی طویل حکمرانی کے مواقع حاصل ہوتے رہے زرداری صاحب کی منتخب جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کر نے پر بڑی دھمالیں ڈالیں جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تب سے اب تک معمولی واقعے کے ساتھ پیہم چلی آرہی ہے مگر کیا مجال کہ بلدیاتی اداروں کی یتیمی دورکر نے کی طرف کماحقہ توجہ دی گئی ہو۔الیکشن 2013ء سے کافی پہلے ہم نے جناب احسن اقبال سے گزارش کی کہ پنجاب حکومت کو اس حوالے سے قائل کریں تو فرمانے لگے اب چونکہ (ن) لیگ جنرل الیکشن کے حوالے سے تیا ریوں میں ہے ایسے حالا ت میں بلدیا تی انتخابات پارٹی کے لئے سود مند نہ ہو نگے یہ فریضہ ہمیں سابقہ الیکشن کے فوری بعد سر انجام دے دینا چاہئے تھا کیونکہ ایسی صورت میں پارٹی کاعوام میں ایک خاص مورال ہو تا ہے اب ایسے ہے کہ آپ دیکھیں 2013ء کا الیکشن جیتنے کے فوری بعد ہم بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کر وائیں گے اور وہی بہترین وقت ہو گا ۔بلا شبہ اس وقت فضا بڑی حد تک ان کے حق میں ساز گار تھی پی پی پسپا تھی اور PTIکی خاص پذیرائی نہ تھی ہم نے جنگ کے انہی کالموں میں تو جہ بھی دلوائی لیکن با لفعل جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ حلقہ بندیوں کے مسلے کو ہی اتنے بے ڈھنگے انداز سے الجھایا گیا کہ جیسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو ۔توڑ پھوڑ کی بھی کو ئی حد ہو تی ہے غیر ضروری سیاسی مداخلت سے چھپکلی جیسے نقشے تو نہ بنا دئیے جائیں بالا ٓخر سپریم کو رٹ کو اس میں مداخلت کرنی پڑی اور تا دم تحریر وہی اس حوالے سے دبا ئو ڈال رہی ہے۔
سپریم کو رٹ کے علاوہ یہاں ہم بدلے ہوئے سیاسی حالات کا ذکر کر نا چاہیں گے ،وہ ہے ہمارے ممدوح کھلاڑی رہنما کی کایا پلٹ۔مئی2013ء کے بعد سے ہم پیہم ان کے گوش گزار کرتے چلے آئے ہیں کہ نواز شریف کو قوم نے جومینڈیٹ دیا ہے آپ حسد نہ کریں انہیں چلنے دیں اور آپ کو خیبر پختونخوا میں جو مینڈیٹ ملا ہے صوبے کے عوام کی خدمت کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس مینڈیٹ کو مضبوطی میں بدلیں بلکہ اس سیڑھی کے ذریعے بڑے مواقع کی جانب چڑھائی کریں مثالیں آپ کے سامنے ہیں استنبول اور تہران کے مئیروں نے بلدیاتی خدمات کے ذریعے اپنا سکہ یوںبٹھایا کہ دونوںلیڈر اپنے ممالک کی قومی قیادتوں پر فائز ہو ئے ۔آپ میں اگر خدمت کی لگن ہے تو KPKمیں فوری لوکل باڈیز کے الیکشن کر وائیے گر اس روٹ لیول سے عوام کو اپنا ہمنوابنا تے ہوئے آگے بڑھئے تا کہ قوم آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائے ۔اب انہوں نے اس سلسلے میں جو مثبت رویہ اپنایا ہے امید ہے بھلا ئی کا یہ وسیلہ محض پو دے لگا نے تک محددو نہیں رہے گا۔ اس پس منظر میں وطن عزیزکے سب سے بڑے صوبے کی قیادت پر فا ئز شخصیت کی خدمت میں ہماری گزارش ہے کہ بلا شبہ انہوں نے صوبے کی مثالی خدمت کر تے ہوئے دیگر تما م وزرائے اعلیٰ پر ایک نوع کی اخلاقی برتری حاصل کی ہے لیکن اگر KPKمیں لوکل باڈیز کے الیکشن پہلے ہو گئے تو پنجا ب میں مسلم لیگ (ن) کی مشکلا ت نہ صر ف یہ کہ بڑھ سکتی ہیں بلکہ ان پر میڈیا یا رائے عامہ کا جو دبا ئو آئے گا اس سے مجبو ر ہو کر جو الیکشن کروائے جا ئیں گے اُن میں PTIآپ کو ٹف ٹائم دے گی یہی معاملہ پی پی کی سند ھ حکومت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔لہٰذا آپ جیسی ہر دوبڑی سیاسی پارٹیوں کے لئے بہتر ہو گا کہ ایسی صورتحال پید ا ہونے سے پہلے ہی بلد یاتی الیکشن کا ڈول ڈال دیں کیو نکہ عمومی طور پر صوبے میں بلدیاتی انتخابات وہی پارٹی جیت جا تی ہے جس کی اس صوبے میں حکومت ہو ۔سندھ کے حوالے سے عرض ہے کہ کر اچی اور حیدر آبا د جیسے بڑے شہروں میں ایم کیوایم کو بجا طور پر شکا یات ہیں اور ان شکایات میں الطاف بھائی حق بجانب ہیں اس طرح ان کا بھی ازالہ ہو سکے گا ۔
وطن عزیز کے بلد یاتی اداروں میں منتخب قیادت نہ ہونے سے جو نقصانات ہو رہے ہیں ہمارے میڈیا کو چاہئے کہ ملکی سطح پر انہیں اجا گر کرے اس وقت یہ تمام ادارے بیو روکریسی کی آما جگا ہ بنے ہوئے ہیں ،لوگ رل رہے ہیں تو ان کی بلا سے ۔ممبران اسمبلی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہو تا کہ گلی محلوں کی سطح تک عامۃ الناس کے روابط میںرہیںنتیجتاًاُن کے موبائل فونز اکثر بند پا ئے جا تے ہیں البتہ ان کے نام پر مختلف کوآرڈینیٹر بغیر کسی قا نونی استحقاق یا ذمہ دارانہ حیثیت کے وہ کچھ کر رہے ہو تے ہیں جس کی کوئی بھی اخلاقی تو جیہہ نہیں کی جا سکتی ۔گو رنر پنجاب چوہدری سرور کی سیاسی تر بیت اگر بر طانیہ جیسی تر قی یافتہ مہذب سو سائٹی میں ہوئی ہے تو شاید اس وجہ سے انہیں یہ فہم ہے کہ یو نین کو نسلوں کو بنیادی اکا ئی بنا کر وہاں ایسا سسٹم لا یا جا ئے کہ لو گوں کے مسائل وہیں حل ہوسکیں۔ شرح پیدائش و اموات سمیت ہر قسم کا ریکارڈ اور ڈیٹا روزانہ کی بنیاد پر مر تب کر نے سے مردم شماری کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ جہاں تک یو نین کو نسلوں کی سطح پر حکومتی اور اپوزیشن نما ئندوں کے ذریعے یونین کمیٹیاں بنانے کا سوال ہے ہمارے خیال میں اگر بلدیاتی انتخابات کر وادیے جا ئیں تو ایسی کمیٹیوں کی ضرورت نہیں رہے گی منتخب اداروں میں متعلقہ اکائی یا یو نٹ کے رہنے والے تمام عوام کی نمائندگی موجود ہو تی ہے۔ہم تو اس سے بڑھ کر یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر ہم یونین کونسلوں کی سطح تک عوام کو متحرک کر دیتے ہیں تو انسداد دہشت گردی کی مہم میں بھی ان سے اچھی خاصی ٹھوس عوامی معاونت حاصل ہو سکتی ہے۔
تازہ ترین