• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو رو ز قبل، 18؍ جنوری 2015ء کو، ’’جنگ‘‘ ہی کے اندرونی صفحات میں شائع شدہ ایک خبر نظروں سے گزری۔ اخبار کے وقائع نگار خصوصی کے مطابق ’’پیپلز پارٹی پنجاب ایک ہفت روزہ رسالہ نکالے گی جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ترجمان ہو گا، اس سلسلے میں پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے صوبائی سیکرٹری اطلاعات راجہ عامر کو کام آگے بڑھانے کا عندیہ دے دیا ہے۔‘‘
پنجاب سے پیپلز پارٹی کے بینر تلے کسی متوقع ہفت روزہ کے اجرأ کی اس اطلاع نے میری یادوں کے دریچے وا کر دیئے۔ احساسات کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی۔ پاکستان کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت، ترقی پسندی، غیر فرقہ وارانہ ریاستی نظام اور خدائی قوانین کے فیصلہ کن احکامات کی روشنی میں انسان کی انسان پر خدائی کے خاتمے کی علمبردار پارٹی کے اولین فکری ترجمان ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ کی تاریخ نے یادداشت کے دروازوں پر دستک دے دی ۔ پاکستانی عوام کے دوش بدوش کیا نظریاتی اور فکری تحریک تھی جسے ہفت روزہ ’’نصرت‘‘، نے جنم دیا، ملک کے طول و عرض میں عوامی حقوق، ترقی پسندی، لبرل ازم اور غیر فرقہ وارانہ طرز حکومت اور طرز زندگی کا پیغام گونجنے لگا۔ ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ نے دھرتی کی فکری پیاس کے لئے چھاگل کا کام دیا، عوام دشمن طاقتوں کے نقاب پوش اور غیر نقاب پوش چہرے سامنے لایا، دین دشمن اپروچ کے مدعی اور مبلغ مذہبی گروہوں اور جماعتوں کے سامنے پہلی بار ایک نظریاتی بغاوت اور جارحیت نے انگڑائی لی، آیئے پیپلز پارٹی کے اس اولین فکری سپہ سالار کی کہانی جسے 70,60کی دہائی کے فعال ترین انقلابی دانشوروں میں ایک نمایاں نام علی جعفر زیدی نے اپنی نظریاتی جدوجہد پر مبنی خود نوشست ’’باہر جنگل، اندر آگ‘‘ میں نہایت تفصیل سے لکھا اور اس کالم میں بھی اس سے استفادہ کیا گیا ہے، سے سنتے ہیں۔
’’نومبر 1967ء میں پارٹی کی تشکیل کے موقع پر 75صفحات پر مشتمل پاکستان پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویز چھاپی گئی تھی۔‘‘ پتہ نہیں وہ کہاں، کس کونے میں دیمک کے سپرد کر دی گئی۔ 2015ء تک پہنچتے پہنچتے پیپلز پارٹی کے ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ کے ذکر پر آپ خود کو ذوالفقار علی بھٹو جیسے بڑے لوگوں کے قریب تر محسوس کریں گے! پارٹی کی اساسی دستاویز میں اس کا سیاسی و معاشی پروگرام دیا گیا تھا۔ یہ دستاویز انگریزی زبان میں تھی اور اس کا عوامی سطح پر بہت کم لوگوں کو علم تھا۔ بھٹو صاحب اور جے اے رحیم انگریزی زبان ہی میں لکھتے تھے۔ جبکہ پارٹی بہت تیزی کے ساتھ مزدوروں، کسانوں، دانشوروں، علماء، طالب علموں، ریڑھی والوں، تانگے والوں، محنت کشوں، عورتوں اور کلرکوں کی پارٹی بنتی جا رہی تھی۔ پارٹی کے پروگرام اور فلسفے کو اردو زبان اور آسان اسلوب میں ملک کے گوشے گوشے تک باقاعدگی سے پہنچانا بے حد اہم تھا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ اور کنونشن مسلم لیگ کے اخبارات و جرائد میں بھٹو صاحب کی ذات پر اور پیپلز پارٹی کے بارے میں انتہائی شر انگیز خبریں، مضامین اور تبصرے چھپ رہے تھے۔ پریس ٹرسٹ کے ذریعے آزادی اظہار اور بالخصوص ترقی پسند صحافیوں ، دانشوروں اور ان کی تحریروں کو پابند کر دیا گیا تھا۔ پاکستان ٹرسٹ کے پرچے اور درجنوں اخبارات و رسائل پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت پر گندگی اچھال رہے تھے۔
لاہور کے کچھ ادیبوں اور صحافیوں نے ’’پاکستان پیپلز پارٹی کیسی ہونی چاہئے‘‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع کر کے تقسیم کیا۔ پیپلز پارٹی کی تنظیم کے بارے میں بہت سے کارآمد مشورے درج کئے گئے تھے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ پارٹی اگر روزنامہ جاری نہیں کر سکتی تو کم از کم دو ہفت روزہ جرائد (ایک مغربی پاکستان اور ایک مشرقی پاکستان میں) فوری طور پر شروع کئے جائیں خواہ یہ جرائد نئے ڈیکلریشن کے ذریعہ شروع کئے جائیں یا پہلے سے موجود جرائد کی معاونت کر کے کام چلایا جائے۔ جب یہ پمفلٹ، جو حسین نقی، اطہر ندیم، مسعود اللہ خاں، شفقت تنویر مرزا، عباس اطہر اور چند دیگر ساتھیوں کی کاوش کا نتیجہ تھا، محمد حنیف رامے نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا تو وہ ان حضرات سے ملنا چاہتے تھے تاکہ اس کی عملی راہ تلاش کی جا سکے۔ لاہور میں بھٹو صاحب کے قیام کے دوران اس میٹنگ کا ہونا طے پایا۔ اس طرح ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ کو پیپلز پارٹی کے ترجمان کے طور پر شائع کرنے کی ذمہ داری حنیف رامے کو سونپ دی گئی۔ ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ نے پیپلز پارٹی کے ترجمان کے طور پر نئے سفر کا آغاز کیا اور سیاست کے میدان خار زار میں قدم رکھا۔ 18؍مارچ 1968ء کو اس کا پہلا شمارہ چھپا، ابھی نو شمارے ہی نکلے تھے کہ ایوب خان کی حکومت نے اس کی شعلہ نوائی کو سرد کرنے کے لئے اسے بند کر دیا۔ سات ماہ کی جبری بندش کے بعد جب ایوب خان کو ہائیکورٹ میں اپنا پلہ دبتا نظر آیا تو 11؍ نومبر 1968ء کو اسے دوبارہ اشاعت کی اجازت مل گئی، دو روز بعد یعنی 13؍ نومبر 1968ء کو جب بھٹو صاحب کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تو عوام کے ہاتھوں میں ایک نظریاتی تلوار بنا ’’نصرت‘‘ قید سے باہر آچکا تھا۔ محمد حنیف رامے اس ہفت روزہ کے چیف ایڈیٹر ، علی جعفر زیدی ایڈیٹر تھے، حسین نقی باقاعدگی سے ’’ہفتہ دار کالم‘‘ لکھتے۔ یہ فکری پیغامبر کس کٹھالی سے کس طرح برآمد ہوتا، علی جعفر زیدی کی زبانی یہ کہانی شاید انقلابی رومانس نہیں، سنگلاخ حقیقت پسندی کا سب سے زندگی آمیز اور زندگی آموز قصہ ہے۔ زیدی کا کہنا ہے:۔ ’’میں ایڈیٹر بھی تھا، رپورٹر بھی، پروف ریڈر بھی، مضمون نگار بھی، کاپی جوڑنے کا کام بھی کرتا یعنی کتابت کے علاوہ نصرت تیار کر کے پریس تک بھیجنے کے تمام مراحل کی ذمہ داری میری تھی، اس لئے کہ پارٹی کے پاس پیسے نہیں تھے کہ کسی بھی طرح کے سٹاف کو رکھا جا سکتا ۔ کاتب سلیم ’’بولا‘‘ (وہ اونچا سنتا تھا) میری کرسی کے ساتھ جو تھوڑی سی جگہ بچی تھی وہاں زمین پر بیٹھ کر کتابت کرتا اور وقت پر تنخواہ نہ ملنے کا شکوہ کرتا رہتا۔ بمشکل چھپائی اور تقسیم کے اخراجات پورے ہوتے۔ دیگر لکھاریوں میں پروفیسر محمد عثمان، احمد بشیر، ڈاکٹر کنیز فاطمہ، خورشید حسین میرؔ، لطیف مرزا اور پروفیسر رفیع اللہ شہاب کے نام یاد آتے ہیں۔ رفیع صاحب ’’شاہد عادل‘‘کے قلمی نامے سے چھپا کرتے۔‘‘
ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ کے بعد پیپلز پارٹی کے نظریات اور جدوجہد کی فکری تاریخ کا ستارہ ضیاء الحق کے عہد ستم گر میں آزمائش کے دائرے میں چلا گیا، یہ 77تا 79کا پُر آشوب دور ہے جس کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے، اس عہد تاریک میں لندن سے جناب بشیر ریاض نے بالکل ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ کی نظریاتی یلغار اور جارحیت کے انداز میں ماہنامہ ’’عمل‘‘ جاری رکھا ۔ ’’نصرت‘‘ ہوتا اور ’’عمل‘‘ ہوتا، تو پیپلز پارٹی پنجاب سلمان تاثیر کی برسی پر، ان پندرہ بیس آدمیوں کے ساتھ کھڑی ہونے کے بجائے اپنے دروازے بند کر لیتی اور اس میں سے کوئی بھی ان احتجاجی مظاہرین کے ساتھ دکھائی نہ دیتا۔ تصور کرنا بھی مشکل ہے! ڈیٹ نوٹ کر لیں اور پھر اس متوقع جریدے کی خبر کے انجام کا انتظار کریں۔ صحیح ثابت ہوئی تو ایک بار پھر گجر بج رہا ہو گا، وہ محمد حنیف رامے، صفدر میر حسین نقی ، علی جعفر زیدی تھے، ڈاکٹر مبشر حسن تھے اب نظریاتی رہنمائی کے لئے موجودہ پنجاب پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں۔ کیا آپ کو قحط الرجال کے لغوی معنی کا پورا علم ہے؟
تازہ ترین