• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قائدین کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہو رہا ہے کہ پاکستان کے حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں ۔ کچھ باتیں ایسی ہیں ، جن کا فوری طور پر ادراک کرنا چاہئے ۔ مثلاً 16 دسمبر 2014 کے سانحہ پشاور کے بعد سکیورٹی اداروں خصوصاً نان سویلین سکیورٹی اداروں کے کردار میں اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ سویلین اتھارٹی سے متعلق سوالات پیدا ہو رہے ہیں ۔ صوبوں کی سطح پر ’’ قومی ایکشن پلان ‘‘ پر عمل درآمد کرنے کے لیے ’’ اپیکس کمیٹیز ‘‘ قائم ہو گئی ہیں ، جن میں کور کمانڈرز اور ڈی جی رینجرز اور دیگر فوجی و نیم فوجی اداروں کے افسران امن وامان سے متعلق امور کی نگرانی کررہے ہیں ۔ وفاق کی سطح پر بھی ایسی ہی اپیکس کمیٹی کام کر رہی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے طور پر کوئی فیصلے نہیں کر رہی ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق تمام فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہو رہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ قومی ایکشن پلان بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں سے ظاہری مشاورت کی گئی ہے اور اس ضمن میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی ) کا فورم استعمال کیا گیا ہے لیکن اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اے پی سی پارلیمنٹ کا متبادل نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ کو صرف اس وقت استعمال کیا گیا ، جب 21 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کی ضرورت پڑی ۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں بھی ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی تھی ۔ 14 دن تک پارلیمنٹ کا ان کیمرہ سیشن منعقد ہوا تھا ، جس میں ڈی جی ملٹری آپریشنز اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ارکان پارلیمنٹ کو بریفنگ دی تھی ۔ اس بریفنگ پر بحث ہوئی اور پارلیمنٹ نے ایک 14 نکاتی قرار داد منظور کی ۔ اس قرار داد کی روشنی میں قومی سلامتی کی پالیسی تشکیل دی گئی اور اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے پارلیمنٹ کا کردار ہی اہم رہا لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سینیٹر میاں رضا ربانی کی اس بات میں وزن ہے کہ پارلیمنٹ کو غیر متعلق اور غیر فعال کر دیا گیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ آخری ہچکیاں لے رہی ہے ۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ عدلیہ سمیت دیگر سویلین اداروں کا کردار بھی محدود ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے ۔ اب تک جتنے مجرموں کو پھانسیاں دی گئی ہیں ، ان کی سزاؤں کے بارے میں فیصلے سول عدالتوں نے کیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سویلین جوڈیشل سسٹم ناکام نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایگزیکٹو کی ناکامی ہے ۔ پراسیکیوشن کا نظام کمزور ہے ۔ مجرموں کے خلاف بوجوہ ٹھوس شواہد جمع نہیں کیے جاتے ہیں اور مضبوط کیس نہیں بنایا جاتا ہے ۔ ایک بڑی وجہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کا ایگزیکٹو میں اثر رسوخ بھی ہے ۔ صرف سویلین جوڈیشل سسٹم کو ناکام قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ پولیس سمیت دیگر سویلین فورسز کو بھی ناکام قرار دیا جا رہا ہے ۔ سویلین اداروں کی ناکامی کے تصور کو فروغ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان اداروں کے بارے میں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ انہیں بہتر نہیں بنایا جا سکتا ۔ فوجی عدالتیں تو صرف دو سال کے لیے بنائی گئی ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو سال کے بعد کیا سویلین جوڈیشل سسٹم از خود ٹھیک ہو جائے گا ؟ اسی طرح دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں جب فوج اور رینجرز کو واپس بلانے کی ضرورت پڑی تو کیا سویلین فورسز اچانک اس قابل ہوجائیں گی کہ وہ اکیلے دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکیں ؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سوالات کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا ہے ۔ سویلین اداروں کے غیر اہم ہونے یا انہیں غیر اہم بنانے کا عمل جاری رہے گا ۔سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سویلین حکومتوں کا طرز حکمرانی انتہائی خراب ہے ۔ پٹرول کی قلت کے حالیہ بحران نے سویلین حکومت کی کوتاہیاں اور بد اعمالیاں لوگوں کو شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہیں ۔ لوگ آمرانہ حکومتوں کی کوتاہیاں بھول رہے ہیں ۔ کرپشن ، اقربا پروری اور لوٹ مار کی حیرت انگیز داستانیں روزانہ کی بنیاد پر سامنے آ رہی ہیں ۔ اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بہت کمزور ہو چکی ہیں ، چاہے ان کا تعلق بائیں بازو سے ہو یا دائیں بازو سے ۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو خاندانوں کی لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح چلایا جا رہا ہے ۔ سیاسی کارکنوں کو اپنی جماعتوں سے نظریاتی رشتہ برقرار رکھنے کا کوئی جواز میسر نہیں آ رہا ہے ۔ مسلسل نظر انداز کیے جانے کے باعث کارکن مایوسی کا شکار ہیں ۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنی نظریاتی جدوجہد سے الگ ہو گئی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کا مزاحمتی جوہر ختم ہو رہا ہے ۔ انتہا پسند گروہ اور اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ سیاسی جماعتیں اس خلاء کو پر کر رہی ہیں ، جو غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے آگے کبھی بھی مزاحم نہیں ہوں گے ۔ 1977ء میں جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں یا 1998ء میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں تو حالات اتنے خراب نہیں تھے ، جتنے آج ہیں ۔ ان دونوں ادوار حکومت میں پارلیمنٹ اور سویلین اداروں کو اس طرح غیر متعلق نہیں بنا دیا گیا تھا ، جس طرح آج بنا دیا گیا ہے ۔ 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی بحیثیت سیاسی جماعت آج کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط اور منظم تھی ۔ 1998ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی پیپلز پارٹی کا واحد متبادل تھی اور پیپلز پارٹی مخالف نظریاتی حلقے اس کی حمایت کرتے تھے ۔ جمہوریت کے لیے جدوجہد کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ 600 سال قبل مسیح بھی لوگ جمہوریت کے لیے لڑ رہے تھے اور قربانیاں دے رہے تھے لیکن تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ جمہوری حکومتوں کی خراب حکمرانی کی وجہ سے سپارٹا ، ایتھنز ، میسوپوٹیمیا ، روم اور انڈیا کی قدیم جمہوریتوں کی ناکامی سے لے کر 21 ویں صدی کی جمہوریتوں کی ناکامی کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔
تازہ ترین