• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم سب کے پسندیدہ کالم نگار جناب امر جلیل نے اپنے ایک حالیہ کالم میں تقسیم سے پہلے کے شہر کراچی کا ذکر کیا ہے، جو کیماڑی سے شروع ہوکر بندر روڈ ایکسٹینشن سےذرا آگے ایک چھوٹی سی سرسبز پہاڑی پر ختم ہوجاتا تھا۔ اس چھوٹی سی پہاڑی کو کراچی کے لوگ ٹکری کہتے تھے، جہاں آج کل مزار قائد واقع ہے۔ ان کے حافظے میں بسا ہوا کراچی بے حد صاف ستھرا اور خوبصورت تھا۔ جہاں ایک سے ایک بڑھ کر مخلص، خدا ترس اور صاحبان علم و بصیرت بستے تھے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مختصر سی بستی کناروں سے ابل پڑی، اب یہ دو کروڑ سے زائد انسانوں کا ایک جنگل ہے۔ جس کی حدود کا تعین بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ہر طرف کراچی ہی کراچی، کراچی کے اندر بھی کراچی اور باہر بھی کراچی۔ جناب امر جلیل نے جس کراچی کا نقشہ کھینچا ہے، وہ 75برس پہلے کا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر اس شہر کا ایک نقشہ اور بھی رقم ہے، جو ایک برطانوی فوجی افسر نے کھینچا ہے، جو 1839ء میں کراچی آیا تھا۔ موصوف نے اپنا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا، البتہ ان کی دلچسپ ڈائری لندن کے اشاعتی ادارے جیمس میٹرن نے 1851ء میں شائع کی تھی۔ 175برس پہلے کے کراچی کے بارے میں موصوف کی اس تحریر کو اردو کے قالب میں قدرت اللہ شہاب نے ڈھالا تھا، اور ان کے افسانوں کے مجموعے ’’ماں جی‘‘ میں شامل ہے۔ کراچی والو! ملاحظہ ہو صرف 175برس پیشتر آپ کے شہر کا حال حلیہ کیا تھا۔
3؍فروری کی صبح کو جنگی جہاز ’’ویلزلی‘‘ اور بار برداری کے جہاز ’’حنا‘‘ نے قلعہ منوڑا کے مقابل لنگر ڈال دئیے۔ ہمارے کمانڈر نے قلعہ کے حاکم کو للکار اکہ فوراً ہتھیار ڈال دو۔ ’’میں بلوچی بچہ ہوں‘‘ قلعہ کے حاکم نے جواب دیا۔ ’’ہم قلعہ خالی کرنے سے پہلے مرجانے کو ترجیح دیں گے‘‘۔ چلو اچھا ہوا، موت کے آرزو مندوں کو موت ضرور ملنی چاہئے۔ یوں بھی ان مغرور بلوچیوں کو تمیز اور تہذیب سکھانا ہمارا فرض ہے۔ یہی تو وہ فرض ہے جس کو ادا کرنے کے لئے ہم نے اپنا عزیز وطن چھوڑا، اور اب ان کالے پانیوں میں دربدر مارے مارے پھررہے ہیں۔ ہمارے فوجی دستے جہاز سے اتر آئے اور منوڑا کی چٹان کی طرف بڑھے۔ چٹان کے دامن میں کچھ دیر سستا کر ہم نے اپنی اپنی رائفلیں بھر لیں اور ان پر تیز دھار خون کی پیاسی کرچوں کو چڑھا لیا۔ منوڑا کی چٹان پر موت کا سایہ واضح طور پر منڈلا رہا تھا۔ مگر موت کے فرشتے کس کا انتظار کررہے تھے؟ ہماری رجمنٹ کے دل کچھ بیٹھ سے گئے، لیکن کمانڈر نے کڑک کر للکارا۔ ’’برطانیہ عظیم کے بہادر سپوتو! تاج اور ملک کے نام پر…‘‘ تاج اور ملک کے نام پر ہم نے بے دریغ حملہ کردیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے منوڑا کا قلعہ سر ہوگیا۔ قلعہ میں ایک ضعیف العمر سردار تھا، ایک جوان عورت تھی اور ایک ننھا سا بچہ تھا۔ لاحول ولا قوۃ۔ گورنر جنرل نے کلکتہ سے ایک پیغام میں ہماری بہادری کو سراہا اور ہمارے کمانڈر کی عالی ہمتی، ہوش مندی کی بہت تعریف کی۔ منوڑا کا قلعہ سر ہوتے ہی کراچی کا شہر بھی ہمارے قبضے میں آگیا۔ دوپہر کے قریب ہم نے بندرگاہ پر اترنا شروع کیا۔ سمندر میں زبردست تلاطم تھا۔ لہروں کے زیروبم میں ہمارے کمانڈر کی محبوب بکری پانی میں گر گئی جو اس نے بمبئی میں خرید کر بڑے شوق سے پالی تھی۔ تین کالے سپاہی بکری کو بچانے کے لئے اسلحہ سمیت ایک ساتھ سمندر میں کود گئے۔ دو سپاہیوں نے بکری کو کندھوں پر اٹھالیا۔ تیسرا سپاہی اپنے اسلحہ کے بوجھ سے بے دم ہوگیا اور آن کی آن ڈوب گیا۔ رام جی نائک فرض کا پابند انسان تھا۔ ڈوبتے وقت بھی اس نے اپنی رائفل کو بڑی مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ افسوس کہ یہ ہتھیار سمندر کی تہہ میں کسی کے کام نہ آسکے گا۔ ہماری رجمنٹ میں پہلے ہی رائفلوں کی بہت کمی ہے۔
کراچی کی پورٹ کو بندرگاہ کہنا ستم ظریفی ہے۔ پھر بھی یہ مقام سارے ساحل پر بہترین جگہ ہے۔ اسے اچھی طرح ترقی دی جائے تو کراچی کلکتہ کا مقابلہ کرسکتاہے۔ ہم اس بندرگاہ کو پختہ تعمیر کردیں گے۔ تجارت درآمد برآمد کے لئے یہ جگہ بہت موزوں ہے۔ یوں بھی وسطی ایشیا میں جنگی ذخیرے جمع کرنے کے لئے یہ مقام بے حد اہم ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کراچی کا قدیمی نام کروکالی ہے۔ جس کا ذکر یونانی دیومالا میں آتا ہے۔ یہ تاریخی رشتہ کراچی کے لئے باعث فخر ہے۔ لیکن ایک چھوٹی سی دقت یہ ہے کہ کراچی کا شہر فقط ڈیڑھ سو سال پہلے آباد ہوا تھا۔ کراچی میں داخل ہوتے ہی انسان کے کان، ناک اور آنکھیں بڑی شدت سے متاثر ہوتی ہیں۔ سماعت کے لئے چاروں طرف ایک مرثیہ نما موسیقی پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں بازار والوں کو چیخ پکار، عورتوں کی گالی گلوچ، کتوں کی لمبی تانیں اور گدھوں کی مسلسل ڈھینچوں ڈھینچوں خاص طور پر نمایاں ہے۔ جابجا گلی سڑی مچھلیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ان کا تعفن قوت شامہ کو متاثر کرتا ہے۔ شہر میں نالیوں کا رواج نہیں، گندے پانی کا نکاس عمل تبخیر سے انجام پاتا ہے۔ جو کوڑا کرکٹ گھروں کے اندر کام نہیں آتا وہ گھروں کے باہر رکھ دیا جاتا ہے۔ صفائی کا زیادہ تر کام کوئوں چیلوں اور کتوں کے سپرد ہے۔ چھوٹی چھوٹی تاریک دکانوں سے ہلدی، کڑوے تیل کی تیز لپٹیں آتی رہتی ہیں۔ ان نوع بنوع خوشبوئوں کو سونگھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تازہ تازہ لاشوں کو حنوط کیا جارہا ہے۔ مکان مٹی کے بنے ہوئے ہیں، کھڑکیاں ناپید ہیں۔ البتہ چھوٹے چھوٹے روشن دانوں میں سوکھی ہوئی مچھلیاں گرد میں اٹی پڑی ہیں۔ گھروں اور دکانوں کے سامنے بیٹھ کر برسرعام ٹائلٹ کیا جاتا ہے۔ مسلمان کیکر یا نیم کی ٹہنیاں گلے میں مار مار کر منہ کی صفائی کرتے ہیں۔ ہندو سفید مٹی میں سرسوں کا تیل ملا کر صابن کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ نہانے کے لئے دریائے لیاری ہے۔ اس میں پانی نہیں ہوتا۔ چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں پانی جمع کرکے اس میں مچھلیاں دھوتے ہیں، غسل کرتے ہیں اور پھر یہی پانی مٹکوں میں بھر کے پیا جاتا ہے۔
آج ’’مگرپیر‘‘ کا میلہ ہے۔ یہ جگہ کراچی سے کوئی نو میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ میلہ ’’حاجی مگر‘‘ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ کسی وقت حاجی پیر اور اس کے تین بھائی یہاں آکر رہے تھے۔ آتے ہی انہوں نے اس مقام پر کرامات کے انبار لگا دئیے۔ ایک بھائی نے ایک انگلی سے گرم پانی کا چشمہ کھود ڈالا۔ اس پانی کا درجہ حرارت 90 درجہ ہوتا ہے۔ دوسرے بھائی نے غالباً دوسری انگلی سے ایک اور چشمہ نکالا جس کا پانی 120 درجہ گرم ہے۔ تیسرے بھائی نے چند پھولوں کو مگرمچھ میں تبدیل کردیا۔ چوتھے بھائی نے اپنی مسواک کو زمین میں گاڑ کر کھجور کا درخت پیدا کردیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب سب سے بڑا بھائی مرگیا تو اس کے مزار پر ’’حاجی مگر پیر‘‘ کا مقبرہ تعمیر ہوگیا۔ ایک چھوٹے سے تالاب میں اسی یا نوے کے قریب مگرمچھ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ درگاہ کا متولی ایک ننگ دھڑنگ لمبا سا فقیر ہے۔
تازہ ترین