• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سے قطع نظر کہ اصل اسباب کیا ہیں اور ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے، پٹرول کے بحران نے کم از کم پنجاب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹیں جو بھی کہتی رہیں اس میں رتی برابر شک نہیں کہ یہ پرلے درجے کی غفلت ، کوتاہی اور بد انتظامی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پٹرول سستا ہو جانے کی وجہ سے اس کی طلب بڑھ گئی اور کھپت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ تو کیا ذمہ دار اداروں اور بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں کو معاشیات کے اس بنیادی اصول کا بھی علم نہ تھا کہ کسی چیز کی قیمت گر جائے تو اس کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے؟ کیا بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے والے ماہرین میںسےکسی کو اندازہ نہ تھا کہ سی۔این۔جی اسٹیشن بند ہو چکے ہیں اور اب گیس پر چلنے والی گاڑیاں بھی پٹرول پر چل رہی ہیں؟ کیا یہ راز بھی کسی کے علم میں نہ تھا کہ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں فرق کم ہوجانے سے بھی پٹرول کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے؟ کوئی کہتا ہے اوگرا ذمہ دار ہے۔ کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ ساری ذمہ داری پی۔ایس۔او پر عائد ہوتی ہے۔ کسی کے خیال میں قصور وزارتِ خزانہ کا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ سب وزارتِ پٹرولیم کا کیا دھرا ہے۔کسی کی تحقیق بتاتی ہے کہ یہ گردشی قرضے کا کرشمہ ہے اور واپڈا ذمہ دار ہے۔ ایک حلقے کا تاثر یہ ہے کہ یہ سارا کھیل اُس آئل مافیا نے کھیلا جو بہت طاقتور ہے جس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور جو حکومتی اداروں کے اندر تک اپنی جڑیں رکھتی ہے۔
ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ یا یہ ساری باتیں درست ہوں لیکن ایک بالکل سیدھا سادہ سا سوال یہ ہے کہ جب یہ بحران سر اُٹھا رہا تھا تو وزارتِ پٹرولیم، خاص طور پراس کے وزیر جناب شاہد خاقان عباسی کیا کر رہے تھے؟ کیا یہ اُن پر لازم نہیں کہ وہ ہر روز اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی اس کا جائزہ لیں کہ ملک میں پٹرول کا ذخیرہ کتنا ہے؟ روزانہ کھپت کس قدر ہے؟ درآمد کی زنجیر قائم ہے یا نہیں؟ تیل لانے والے کتنے جہاز کس کس مقام پر ہیں؟ اگر وزیر محترم کا یہ معمول ہوتا تو آنے والے بحران کا بروقت اندازہ لگا کر اس کا علاج کیا جاسکتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار کم و بیش دو ہفتوں تک پاکستان میں تیل کا ایک قطرہ بھی نہیں آیا۔ کیا یہ وزیر اعظم کا کام تھا کہ وہ تیل کی سپلائی پر نظر رکھتے؟ یہ بہر حال متعلقہ وزیر صاحب ہی کی ذمہ داری تھی کہ وہ صورتحال سے باخبر رہتے اور خطرے کی پہلی گھنٹی بجتے ہی مسئلے کو ایک بڑا بحران بن جانے سے بچاتے۔ وزیر صاحب کی مسلسل بے خبری اور بے عملی کو اس بحران سے کیسے الگ کیا جاسکتا ہے؟
اس بحران سے ایک اور مسئلہ بھی سامنے آیا کہ خود کابینہ کے اندر بھی تقسیم ہے۔ سب سے پہلے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزارتِ پٹرولیم کو نشانہ بنایا۔ شاید سیاسی ضرورت کی وجہ سے ایسا ہی ایک بیان خواجہ سعد رفیق صاحب کا آ گیا۔ اس کے بعد وزیر خزانہ اسحٰق ڈار صاحب نے باضابطہ طور پر پریس ٹاک کرتے ہوئے وزارتِ خزانہ کو بری الذمہ قرار دیا اور کہا کہ حکومت کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ ایک ٹی۔وی ٹاک شو میں وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اُنہیں بیان دینے سے پہلے حقائق معلوم کر لینے چاہئیں تھے۔ یہ صورت حال کسی بھی حکومت کی زیادہ اچھی نہیں۔ کابینہ کو تو ایک جسم کی طرح کام کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے کی کسی کوتاہی پر منفی تبصروں کے بجائے اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے بلکہ کسی بھی کوتاہی کو کسی دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے بطور حکومت اس کا دفاع کرنا چاہئے اور معاملات کی اصلاح احوال کی کاوش بھی۔ اگرچہ اس کا پٹرولیم بحران سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں لیکن وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ کے حالیہ بیان نے بھی انتہائی منفی پیغام دیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی ہی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ پاکستان کے ایک دیرینہ دوست ملک کے بارے میں بھی ایسی باتیں کہی ہیں جن سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس ساری صورتحال سے یہ پیغام جارہا ہے جیسے حکومتی معاملات انتشار کا شکار ہیں۔ کابینہ متحد نہیں۔ وزراء کسی ڈسپلن کے پابند نہیںاور شاید وزیراعظم کی گرفت بھی کمزور پڑ تی جار ہی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اتنے روز گزر جانے کے باوجود کسی فرد یاادارے کی جانب سے اس بحران کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔تاحال حکومت اورمتعلقہ حکومتی ادارے بھی عوام الناس کو پہنچنے والے اس آزار کی وجہ بتانے اور ذمہ داران کی گرفت کرنے سے قاصر ہیں۔پٹرولیم بحران نے یقینا اس حکومت کی کارکرگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ اپوزیشن بجا طور پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔وزیراعظم کو اس بحران کی سنگینی کا اندازہ ہے جس کا اظہار اس بات سے ہوتاہے کہ وہ صبح شام اسی معاملے میں لگے ہیں۔غالبا اسی بحران کے تناظر میں انہوں نے ڈیوس کا طے شدہ اپنا دورہ بھی منسوخ کر دیا۔یہ صورتحال وزیر اعظم سے ٹھوس اقدامات اور سخت فیصلوں کی متقاضی ہے۔ تاکہ آئندہ ایسے کسی بھی بحران سے بچا جا سکے۔
یہ بحران اُن کیلئے اس بات کا موقع بھی بن سکتا ہے کہ وہ اپنی حکومتی کارکردگی ، وزراء کی کار گزاری، بیورو کریسی کے کردار اور مجموعی طور پر حکومت کے تاثر کے بارے میں بنیادی فیصلے کریں۔ عمران خان اور طاہر القادری کے طویل دھرنوںکے بعد بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ وزیراعظم اپنی ٹیم کا جائزہ لے کر تبدیلیاں کرنے والے ہیں۔ انہوں نے وزراء کی کارکردگی رپورٹوں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو دو تین وزارتوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔تاہم دھرنوں کے خاتمے کے بعد ملنے والے موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا جا سکا۔ اب اگر پٹرولیم بحران سے پیدا ہونے والے موقع سے بھی فائدہ نہ اُٹھایا گیا اور سب کچھ قالین کے نیچے چھپا لیا گیا تو اچھا نہ ہو گا۔ بلا شبہ اس حکومت کی کارکردگی کئی شعبوں میں اچھی رہی ہے۔ خاص طور پر معیشت کے میدان میں اُ س نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دھرنوں کے بحران نے اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالی لیکن تیل کا حالیہ بحران خود اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ عوام اسے کسی دوسرے کی سازش ماننے پر تیار نہیں۔
اس موقع کو بھی ماحول کوسازگار بنانے کیلئے استعمال نہ کیاگیا تو یہ تاثر گہرا ہو جائے گا کہ حکومت اپنی اصلاح کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ عدم سنجیدگی کے اس تاثر سے حکومت کی ساکھ کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے متاثر ہونے کا بھی شدید خطرہ ہے۔
تازہ ترین