• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا ملک پاکستان جن مشکلات سے آج کل گزر رہا ہے اور عوام جس طریقے سے پے درپے مشکلات کا شکار ہیں وہ شاید اس سے پہلے کبھی نہ دیکھیں اور نہ سنی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ’’نامعلوم ہاتھ‘‘ہمیں مسلسل اذیتوں میں مبتلا کر رہا ہے اور خفیہ طور پر ہماری قوت مدافعت کمزور کر رہا ہے۔ پتہ نہیں کہ ہم خود فرقہ بندیوں میں پڑ کر تقسیم ہورہے ہیں یا یہ تاریں کہیں اور سے ہلائی جارہی ہیں کیونکہ کسی بڑے شاعر نے کہا تھا کہ اگر صرف منہ سے خدا کا نام لے کر اپنے دل اور نگاہ کو مسلمان نہ بنایا جائے تو نتائج صفر نکلتے ہیں اور یہی آج کل عالم اسلام میں اور خاص طورپر پاکستا ن میں سامنے آرہا ہے چونکہ ہم منہ سے اللہ اللہ کہتے ضرور ہیں مگر ہمارے قلب اورآنکھوں میں اسلام کی کوئی گہرائی نظر نہیں آتی تمام عالم اسلام فرقوں میں ، گروہوں میں تقسیم نظر آتا ہے مگر شایددل اور شعور میں ہمارے یقین کامل اور وحدانیت رچی بسی ہوئی نہیں ہے۔ ہم فرقوں ، عقیدوں اور مافوق الفطرت وسوسوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ آج کل پاکستان میں بحران جاری ہیں انہوں نے خلق خدا کو ایک عذاب در عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان میں سیاسی، شعبدہ بازوں، نے غیر ضروری طور پر اپنے بیانات سے عوام کو شدید کشمکش اور بے یقینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہمارے سیاست دان جو کاغذی بیانات دینے کے چیمپئن ہیں انہیں خود یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کل وہ کیا کہہ رہے تھے آج کیا کہہ رہے ہیں۔ رہے بے چارے عوام ’’جو کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ جیسے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئےلمبے لمبے سانس لے رہے ہیں۔ اور بنیادی ضروریات کےلئے بھی ترس رہے ہیں یہی وہ حالات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے اور قوموں کی قوت مدافعت کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ مسائل میں گھری قوم کی مشکلات کی کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے خود ساختہ قائدین خاص ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھا کر کہتے ہیں کہ یہ ذمہ دار ہے میں تو نہیں ہوں۔ انگلستان میں ڈبل روٹی مہنگی ہونے پر ذمہ دار اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں پڑوسی ملک ہندوستان میں وزیر ریلوے نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ اس تصادم کا ذمہ دار میں ہوں۔ ہمارے یہاں اس روایت کا کوئی تصور ہی نہیں اور عوام کےلئے مشکلات پیدا کرنے والوں کےلئے عبرت ناک سزائیں بھی مقرر نہیں ۔ اسی لئے ان کے دل کے اندر خوف خدا نہیں اور نگاہوں میں کوئی ایسی چمک نہیں کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ قوم کے صحیح نمائندے بھی ہیں یا نہیں۔ ایک مرتبہ پھر ملک کو مدوجزر اور گرداب بلا میں گرفتار کرنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں چھوٹے چھوٹے معاملوں پر تیروتفنگ نکال کر ایک دوسرے کے خلاف کافرانہ طرز فکر رکھنے کے اعلانات کر دیئے جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ہماری اکثریت جو خود ساختہ قائدین پر مشتمل ہے وہ خود سوچ و فکر سے عاری ہے۔ اور اپنی اپنی ذات میں گم صم ہے ہمارے چاروں طرف جو تبدیلیاں سیاسی، زمینی اور جغرافیائی ہونے جارہی ہیں ان کا فیصلہ بھی مغربی دانشور اپنے مفادات کے تحت کرتے ہیں۔ میں اس سے پہلے بھی پڑوسی حکومت میں نریندر مودی کی آمد پر اور ان کی جماعت بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد کے حالات پر لکھ چکا ہوں مگر شایدہمیں اپنے آپس کے جھگڑوں اور گروپ بندی، مذہبی تفرقے بازی اور کاغذی لیڈرز کے خود ساختہ من گھڑت بیانات سے ہی فرصت نہیں ہے۔ ہمارے بعض لیڈر کہتے ہیں، کل بتاؤں گا کیا ہوا ہے۔ ارے بھائی آج بتاؤ۔ تاکہ قوم ذہنی طور پر ان حالات کے مقابلے کےلئے تیار ہوسکے۔ پڑوسی ملک میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ کشمیر میں جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں ہمارے خود ساختہ سیاسی رہنما آپ کی لڑائی چھوڑ کر اس طرف بھی توجہ دیں گے۔ بھارتی صوبہ گجرات ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والا رہنما اور اس کی پارٹی پورے ہندوستان کی حکمران ہے۔ جبکہ اس کا صدر ڈاکٹر شاماپرشاد مکرجی کشمیر میں سول نافرمانی کی تحریک چلاتا ہوا مر گیا تھا۔ آج اس کی پارٹی بہار، گجرات اور پورے ہندوستان میں مسلمان اقلیتوں سے اس کا بدلہ لے رہی ہے۔ مگر ہمیں آج ایک دوسرے کے خلاف بیان دینے سے ہی فرصت نہیں ہے اور ہمارے دل و نگاہ میں اپنے عقیدے اپنے ملک اور اپنے مذہب میں گہرائی کی کمی محسوس ہوتی ہے عالم اسلام اور (OIC)اور دیگر اسلامی تنظیمیں اسلامی اساس سے محروم ہیں یہ ملک جو لاکھوں شہیدوں، ہزاروں عزت مآب خواتین اور اربوں روپوں کی جائیداد کے تباہ و برباد ہونے کی وجہ سے وجود میں آیا تھا میری سمجھ میں نہیں آتا کیوں متحد نہیں ہے۔ اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں بنے ہوئے ہیں۔ کیا ان خود ساختہ گروہوں کو اپنی کمزوری اور محرومی کا احساس نہیں ہے۔ جب پاکستان کے قیام کی جنگ زوروں پر تھی تو قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کسی ایک فرقے کا نہیں بلکہ سب مسلمانوں کا وطن ہوگا اور سبھی لوگوں نے اس کے قیام کےلئے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ تو پھربہت سے رہنما یہ کیوں کہتے ہیں کہ میں فلاں عقیدے کا مخالف ہوں مگر وجہ بیان نہیں کرتے۔ عوام اس بات کو نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ ہم چاروں طرف سے طوفانوں میں گھرے ہوئے ہیں انجام گلستان کیا ہوگا کیا یہ ملک اب صوبوں میں تقسیم کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں تو پھر ہمیں پاکستان کو مضبوط کرنے کی بجائے اب صوبائی سطح پر مضبوط کیا جارہا ہے۔ ہمیں اپنے دل و نگاہ کی گہرائیوں میں پاکستان کی عظمت اوروحدت امت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا ۔
تازہ ترین