• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں میامی میں ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کی بورڈ میٹنگ اور کانفرنس میں شرکت کے بعد جب میں کراچی پہنچا تو ایئرپورٹ پر مجھے بتایا گیا کہ ملک میں پیٹرول کا بحران جاری ہے جس کی وجہ سے پورے ملک بالخصوص پنجاب میں کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے جبکہ بحران کی ذمہ داری کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس موقع پر مجھے PSO کی بورڈ میٹنگ میں PSO کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر فنانس سہیل بٹ کے وہ SOS لیٹر یاد آگئے جو انہوں نے پی آئی اے، پیپکو اور دیگر پاور کمپنیوں کے ذمہ واجبات کی ادائیگی کیلئے پانی و بجلی، خزانہ اور پیٹرولیم کی وزارتوں کو لکھے تھے جس میں واجبات کی عدم ادائیگی کی صورت میں PSO کے مختلف بینکوں کے ڈیفالٹ کا ذکر کیا گیا تھا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ سہیل بٹ واجبات کی وصولی کیلئے ہر ہفتے پانی و بجلی اور خزانہ کی وزارتوں میں دھکےکھارہے ہوتے تھے جنہیں وزارت خزانہ یہ جانتے ہوئے بھی معمولی رقم دیکر ٹال دیتی تھی کہ بینکوں کے ڈیفالٹ کی صورت میں PSO ملک کی پیٹرولیم کی ضروریات کے مطابق پیٹرول امپورٹ نہیں کرسکے گا جس کے نتیجے میں ملک میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ آج ملک میں پیٹرول کا بحران بھی انہی گردشی قرضوں کی وجہ سے ہے کیونکہ پی آئی اے کے 13 ارب روپے، پیپکو اور دیگر پاور کمپنیوں کے 176 ارب روپے سمیت مختلف اداروں پر PSO کے تقریباً 201 ارب روپے واجب الادا ہیں جن کی عدم ادائیگی کی وجہ سے PSO کو بینکوں میں 46 ارب روپے کے ڈیفالٹ کا سامنا ہے جس کے باعث بینکوں نے PSO کے 149 ارب روپے کے تیل امپورٹ کرنے کی ایل سی کی سہولت میں سے 110 ارب روپے کی ایل سی کی سہولت بلاک کر رکھی ہیں اور انہی وجوہات کی بناء پر PSO ملکی ضروریات کے مطابق تیل امپورٹ کرنے سے قاصر ہے جس کے نتیجے میں ملک میں پیٹرول کا بحران پیدا ہورہا ہے۔ PSO کے بینکوں کے ڈیفالٹ ہونے کی وجوہات میں جون 2013ء سے اب تک کے سرکولر ڈیبٹ کی عدم ادائیگی اور لوڈشیڈنگ سے بچنے کے لئے پیپکو کو ادائیگی کے بغیر مسلسل تیل فراہم کرنا ہے جس کی وجہ سے PSO پر بینکوں کا اووڈرافٹ 132 ارب روپے اور بینکوں کے مجموعی قرضے 284ارب روپے تک جاپہنچے ہیں جبکہ PSO پر مارک اپ کا اضافی بوجھ بھی پڑرہا ہے مگر ایسی صورتحال میں بھی PSO کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پیپکو، پی آئی اے اور دیگر حساس سرکاری اداروں کو ہر حال میں تیل کی سپلائی یقینی بنائے تاہم موجودہ صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ PSOکو واجبات کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے تاکہ PSO ملکی ضروریات کے مطابق تیل امپورٹ کرکے ملک میں تیل کی بلاتعطل سپلائی یقینی بناسکے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو PSO مسلسل مالی بحران کا شکار رہے گا جس کی وجہ سے مستقبل میں بھی پیٹرول کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے بارے میں اسٹیٹ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں مالی سال ملکی جی ڈی پی گروتھ 4% سے 5%متوقع ہے لیکن معاشی ماہرین یہ صرف 3.3% سے 3.35% تک رہنے کی توقع کررہے ہیں۔ مرکزی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈ کے کامیاب اجراء، 1.5 ارب ڈالر کے پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ کی ادائیگی اور ترسیلات زر میں توقع سے زیادہ اضافے کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں جس سے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہوکر 100 روپے کی سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو قرضوں کے قسطوں کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اسکے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی آئی ہے جو 50 ڈالر فی بیرل کی سطح سے بھی نیچے آگئی ہیں جس کے پیش نظر حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اب تک تقریباً 29 روپے فی لیٹر اور بجلی کی قیمتوں میں 2.32 روپے فی یونٹ کمی کرچکی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یکم فروری 2015ء سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید 10 سے 11 روپے کم ہوجائیں گی جس سے مہنگائی میں بھی کمی آئے گی لیکن ٹرانسپورٹ کرایوں اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کم نہ ہونے کے باعث عوام کو مطلوبہ ریلیف نہیں مل رہا جس کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2014ء میں افراط زر (مہنگائی) 8.6% تک جاپہنچی ہے، ملک میں بجلی کی فی یونٹ قیمت درحقیقت 13.76 روپے ہے لیکن حکومت 5.10 روپے کی سبسڈی دے کر صارفین سے صرف8.66 روپے فی یونٹ قیمت وصول کررہی ہے تاہم آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے اور صنعتوں سے 145 ارب روپے کا گیس انفرااسٹرکچرسیس بھی وصول کیا جائے جو میرے نزدیک صنعتوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 100 روپے ہونے، توانائی کے بحران اور ملک میں سیاسی بے یقینی کے باعث ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں تجارتی خسارہ 10.45 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ تجارتی خسارہ 7.75 ارب ڈالر تھا۔ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کی وجہ سے پاکستان کے تیل کے امپورٹ بلوں میں تقریباً 4 ارب ڈالر سالانہ کی کمی متوقع ہے لیکن اس کے باوجود تجارتی خسارے میں اضافہ حکومت کے لئے چیلنج ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ الائیڈ بینک کے 14.4 ارب روپے کے حصص کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے حکومت نے مقامی بینکوں سے زیادہ شرح سود پر لئے جانے والے اپنے قرضوں میں کمی کی ہے جس کے نتیجے میں مالی خسارہ 8.4% سے کم ہوکر 5.5% تک آگیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال ٹیکس کی مد میں 2.26 کھرب روپے کی وصولی کی گئی لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص کردہ رقم میں سے 290 ارب روپے کم خرچ کئے۔ رپورٹ کے مطابق نجی شعبے کو بینکوں سے جاری ہونے والے قرضوں میں بہتری آئی ہے جو ملکی معیشت کی بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکائونٹینٹ (ICMA) نے گزشتہ دنوں مجھے پاکستان کی معیشت پر منعقدہ کانفرنس میں مقرر کی حیثیت سے اسلام آباد مدعو کیا جس میں میرے علاوہ معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی، کراچی چیمبر کے صدر افتخار احمد وہرہ، کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن راحت کونین، فرسٹ وومین بینک کی صدر طاہرہ رضا اور دیگر اسپیکرز نے ملکی معیشت پر اپنی اپنی رائے پیش کی۔ میں نے اپنی تقریر میں شرکاء کو بتایا کہ ملکی معیشت کے سیکٹرز زراعت، مینوفیکچرنگ، سروس سیکٹر،کنسٹرکشن، کان کنی، آئل اینڈ گیس، انرجی اور دیگر سیکٹرز میں سے اگر صرف تین بڑے سیکٹرز یعنی زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زرعی سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 21% ہے جو ملک میں تقریباً 45% ملازمتیں پیدا کرتا ہے لیکن اس سیکٹر کا ٹیکسوں کی ادائیگی میں حصہ جی ڈی پی کا صرف 1.2% ہے جو نہ ہونے کے برابر اور غیر متوازن ہے جس کی بنیادی وجہ زرعی شعبے پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ہونا ہے حالانکہ دنیا کا ہر وہ شعبہ جس سے منافع حاصل ہوتا ہے، ٹیکس کی ادائیگی کا پابندہے۔اسی طرح مینوفیکچرنگ سیکٹر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 18.7% ہے اور یہ شعبہ 21% ملازمتیں فراہم کرتا ہے جبکہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ سب سے زیادہ یعنی 62.2% ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ہے۔ ملکی معیشت کے تیسرے اہم شعبے سروس سیکٹر کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ سب سے زیادہ یعنی 53.3% ہے اور یہ شعبہ 34% ملازمتیں فراہم کرتا ہے جبکہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ 28.4% ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ رکھنے والے سیکٹر زراعت کا ٹیکس کی ادائیگی میں حصہ سب سے کم ہے جس کے پیش نظر ملکی معیشت کے تمام شعبوں کی کارکردگی کو متوازن بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم زراعت اور سروس سیکٹرز کی جی ڈی پی میں ان کے حصے کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی کو یقینی بنائیں اور مینوفیکچرنگ سیکٹر سے اس کی جی ڈی پی میں شرح کے مطابق ٹیکس وصول کریں تو نتیجتاً ملکی معیشت کے اہم شعبوں کی ٹیکسوں کی ادائیگی ان کی جی ڈی پی میں کارکردگی کے مطابق متوازن ہوجائے گی لیکن اس کے لئے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین