• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر ایوب کے بیٹے ، قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور وزیر خارجہ گوہر ایوب کی کتاب ’’ایوان ِ اقتدار کے مشاہدات ‘‘ سے چندٹوٹے ملاحظہ فرمائیں ! وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے چیئرمین نوابزدہ اقبال مہدی سے کہا کہ وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو طلب کریں ، جب میں نے اس تجویز کی مخالفت کی تو میاں صاحب بولے ’’گوہر صاحب کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں چیف جسٹس کو گرفتار کر کے کم ازکم ایک رات کیلئے جیل بھجوا سکوں، میں نے کہا کہ خدا کیلئے ایسی باتیں سوچنا بھی چھوڑ دیں ورنہ پورا نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ * 26فروری 1996ء کو نواز شریف نے بتایا کہ صدر لغاری نے شاہد حامد کے ذریعے پیغام بھجوایا ہے کہ وہ بے نظیرحکومت برطرف کرنا چاہتے ہیں، آپ کی مدد چاہئے، پھر نواز شریف بولے ’’بے نظیر بھٹو نے بھی مجھے فون کر کے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر صدر کو فارغ کردیں ۔ ’نواز شریف ،چوہدری نثار ،سرتاج عزیز،مشاہد حسین اور بیگم عابدہ حسین ایٹمی دھماکوں کے حق میں نہیں تھے ۔‘ 28مئی 1998ء رات ساڑھے بارہ بجے مجھے بتایا گیا کہ بھارت اور اسرائیل حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور چنائی کے ہوائی اڈے سے یہ طیارے اڑ کر چاغی پر حملہ کریں گے۔’ 10اگست 1999ء کو میں نے وزیراعظم نواز شریف سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ کو کارگل پر لاعلم رکھا گیا ہے ، کہنے لگے نہیں مجھے دو مرتبہ بریفنگ دی گئی ہے اور میں تمام صورتحال سے آگاہ ہوں۔‘ جنرل آصف نواز نے نہ صرف اپنی سکیورٹی بڑھالی تھی بلکہ وہ نواز شریف سے اکیلے ملنے سے بھی گریز کرنے لگے تھے ، کیونکہ انہیں یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ نواز شریف انہیں اُسی طرح فارغ کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح بھٹو نے جنرل گل حسن کو فارغ کیا تھا۔ ’’جنرل آصف نواز نے 14اکتوبر 1992ء کو بتایا کہ ڈی جی آئی بی بریگیڈئیر امتیاز نے وزیر اعظم نواز شریف کو ایک جھوٹی اور بوگس رپورٹ بھجوائی ہے کہ میں دسمبر 1992ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والا ہوں، جنرل نے انتہائی غصے میں کہا کہ’’امتیاز شرارتی انسان ہے‘‘۔
یہ دسمبر 1992ء کے دن تھے، وزیراعظم نواز شریف کی خواہش تھی کہ بے نظیر ان کیساتھ وزیراعظم ہاؤس میں کھانا کھائیں جبکہ بے نظیر بھٹو چاہتی تھیں کہ پہلے نواز شریف ان کی رہائش گاہ پرآکر چائے پیئں پھر وہ وزیراعظم ہاؤس جائیں گی۔ دونوں کو منانے اور مِلانے میں ناکام ہونے پر میں نے آرمی چیف جنرل آصف نواز سے مدد مانگی، جنرل آصف نواز نے بی بی کو فون کر کے انہیں نوازشریف سے ملنے کو کہا، آرمی چیف کی کال پر محترمہ بہت خوش ہوئیں وہ ان دنوں کراچی میں تھیں3دن بعد نواز شریف سے دوپہر کے کھانے پر گورنر ہاؤس کراچی میں ملنے پر تیار ہو گئیں ، لیکن ملاقات سے ایک دن پہلے نواز شریف میرے گھر آگئے ، کہنے لگے ’’ ابا جی میری اور بے نظیر کی ملاقات کے حق میں نہیں ہیں ،لہٰذا میں کراچی نہیں جا رہا‘‘اسی رات جب میں نے جنرل آصف نواز کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا ’’ گوہر ان معاملات میں پڑنے کا کیا فائدہ کہ جن کے فیصلے اباجی کو کرنے ہیں‘‘۔* جون 1991ء میں میری اور بے نظیر بھٹو کی ملاقات ہوئی ، میں نے انہیں سمجھایا کہ اس وقت ان کے بچوں کو باپ کی ضرورت ہے جبکہ زرداری صاحب پر اتنے مقدمات ہیں کہ انہیں اسی چکر میں سالہا سال لگ جائینگے، لہٰذا حکومت سے مل کر سمجھوتے کی کوئی راہ نکالیں ، اس آدھے گھنٹے کی ملاقات میں مسلسل رونے والی بی بی نے چنددنوں بعد بیان دیدیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے دھمکی دی ہے کہ اگرمیں نے حکومت سے تعاون نہ کیا تو میرے والد کی طرح میرے شوہر کو بھی لٹکا دیا جائے گا ۔
دسمبر 1990ء میں بیگم نصرت بھٹو نے کہا کہ ’’میری خواہش ہے کہ مجھے فرانس میں سفیر لگا دیا جائے‘‘ میں نے وزیراعظم نواز شریف سے یہ بات منوا کر بیگم بھٹو کو آگاہ کیا تو حیرت انگیز طور پر اُنہوں نے ایک دن سوچنے کیلئے مانگ لیا اور پھر اگلے دن معذرت کرلی، مجھے لگتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔
’’ ایک پولیس افسر مسعود محمود نے مجھے کہا کہ اگر صدر ایوب مجھے تحفظ فراہم کریں تو میں بھٹو کو ٹھکانے لگا سکتا ہوں،میرے انکار پر وہ ناراض ہوگیا۔ جب بھٹو اقتدار میں آئے تو یہی پولیس افسر بھٹو کا سب سے بڑا حامی بن گیا۔ ‘‘ بھٹو کے ’’پوڈل‘‘کتوں کے بال اور ناخن تراشنے کیلئے نائی کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد آتا تھا*۔ بھٹو نے سرکاری خزانے سے 70لاکھ نکلوا کر لاڑکانہ میں اپنے گھر کی تزئین وآرائش کروائی وہ کم ازکم 20سال وزیراعظم رہنا چاہتے تھے۔’’ ایک حاضر سروس جنرل نے کہا کہ’’بھٹو کو سپریم کورٹ بری بھی کردے، تب بھی وہ اپنے ہاتھوں سے اسے شوٹ کردیں گے ‘‘۔’’ میرے والد (ایوب خان ) مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے کہ صدر سکندر مرزا نے ائیر کموڈور مقبول رب اور بریگیڈئیر قیوم سے کہا کہ واپسی پر جنرل ایوب کو گرفتار کر لیا جائے ،مگر صدر کے ٹیلی فون مانیٹرکرتی ایجنسیوں نے یہ سب کچھ عسکری قیادت کو بتادیا۔ میرے والد ڈھاکہ سے کراچی پہنچے تو جنرل موسیٰ اور دیگر فوجی افسران نے انہیں ریسو کیا اور پھر ڈی جی ایم آئی بریگیڈئیر حیات کی بریفنگ اور ایک طویل اجلاس کے بعد فیصلہ ہوا کہ صدر کو فارغ کر دیا جائے۔ 27اکتوبر 1958ء کی شام ایوان صدر میں گارڈن پارٹی کے بعد میجر جنرل یحییٰ اور میجر جنرل عبدالحمید نے استعفیٰ کا مضمون بنایا جسے میجر جنرل عبدالمجید ملک (سابق وفاقی وزیر )نے ٹائپ کیا، جبکہ جنرل اعظم خان،جنرل ڈبلیو اے برکی اور جنرل کے ایم شیخ کی ڈیوٹی لگی کہ وہ ایوان صدر جا کر صدر سےاس استعفیٰ پر دستخط کرائیں ۔
ایوان صدر جاتے ہوئے جنرل اعظم نے مجھ سے اسلحہ مانگا تو میں نے 12گولیوں کے ساتھ اپنا ریوالور انہیں دے دیا ۔ ایوان صدر کی ٹیلی فون لائنیں کٹنے اور پولیس گارڈز کو غیر مسلح کرنے کے بعد تینوں جنرلوں نے ایوان صدر پہنچ کر اسٹاف سے کہا کہ صدر کو جگائیں۔بیگم سکندر مرزا کو جب پتہ چلاکہ 3جنرل سکندر مرزا کو بلا رہے ہیں تو وہ ہسٹر یائی اندا ز میں چیخنے لگیں، ہا تھ میں پستول تھا مے گاؤن میں سکندر مرزا نمودار ہوئے لیکن اُنہوں نے کسی مزاحمت کے بغیر چند منٹ میں ہی استعفیٰ پر دستخط کردیئے۔ * جنرل یحییٰ خان سگریٹ کا ایک لمبا کش لےکر بولے ’’ٹافی (جنرل (ر) الطاف قادر فوج میں اسی نام سے مشہور تھے ) میں نے کبھی کسی عورت کو نہیں بلایا سب کو ان کے شوہر خود لاتے تھے، اب تم ہی بتاؤ اس میں بھلا میری کیا غلطی ہے۔
گو کہ اس کتاب میں گوہر ایوب نے والد کی صدارت میں پروان چڑھے گندھارا انڈسٹریز کے اپنے خاندانی کاروبار کا سرسری سا ذکر کردیا،اُنہوں نے بحیثیت اسپیکر قومی اسمبلی اپنے مشہور ڈانس کا تذکرہ بھی کیا مگر وہ فاطمہ جناح کو ہرانے کے بعد کراچی میں اپنی زیرنگرانی پٹھانوں کے جشن ِفتح اور رات کی تاریکی میں مخالفین کے گھر جلانے کی باتیں لکھنا بھول گئے ،اُنہوں نے یہ بھی نہ بتایا کہ ایوب دور میں ان کی ہر دلعزیز ی کا یہ عالم کیوں ہو گیا تھا کہ رمضان المبارک کے پہلے جمعے کو کراچی کی میمن مسجد میں جب وہ تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو چند منٹ بعد ہی وہاں صورتحال یہ ہوگئی کہ پولیس بڑی مشکل سے انہیں مسجد سے نکال پائی،انہیں دامن کوہ اسلام آباد کا واقعہ لکھنا بھی یاد نہ رہا اور مسلم لیگ رابطہ کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے جو کچھ اُنہوں نے کیا ،یہ وہ بھی لکھنے سے چو ک گئے ۔مگر یہ گوہر صاحب کا حق ہے کہ وہ اپنی کتاب میں جو لکھیں یا جو چاہیں نظر انداز کر جائیں ،لیکن دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جس ملک میں ہمارے بڑے اپنے سپنوں اور اپنوں کےلئے ہر وقت سازشوں میں لگے ہوئے ہیں، جس دیس میں مخلوق ِ خدا ناکوں،فاقوں اور دھماکوں میں پھنسی ہوئی ہے اور جس زمین پر ایک لٹر پٹرول کیلئے اقبال کے شاہین برقعہ پہن کر قطاروں میں کھڑے ہیں، مس مینجمنٹ کے ورلڈچیمپئن حکمرانوں کے اُس ملک،دیس اور زمین کیلئے کیا کیا قربانیاں دی گئیں ، اس کے چند مناظر گوہر ایوب کی زبانی ہی سن لیں ’’مردوں،عورتوں اور بچوں کی سٹرکوں کے کنارے پڑی لاوارث لاشوں کو چیل، کو ے اور گدھ نوچ رہے تھے ، بعض لاشوں کے کچھ حصوں کو کھانے کے بعد کتے ان لاشوں کے پہلو میں ہی سو رہے تھے ، تباہ شدہ مکانات،کھنڈرات اور یہاں تک کے کنوئیں بھی انسانی لاشوں سے بھر چکے تھے ، ہم بھوکے تو تھے ہی مگر دوپہر کا وقت اور اوپر سے شدید گرمی،پیاس سے ہمارا بر ا حال ہو رہا تھا ،ایک جگہ کنواں نظر آیا تو ہم نے تباہ حال گھروں سے رسی اور بالٹی ڈھونڈی پھر بالٹی کو رسی سے باندھ کر کنوئیں میں ڈالا لیکن جب بالٹی کو اوپر کھینچا تو وہ پانی کی بجائے خون سے بھری ہوئی تھی‘‘ ۔
تازہ ترین